مودی حکومت اور آرایس ایس کے ایجنڈا میں ٹکراؤ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-16

مودی حکومت اور آرایس ایس کے ایجنڈا میں ٹکراؤ

agenda-conflict-of-RSS-and-Modi-govt
نریندرمودی حکومت انتخابی مہم سے اب تک ترقی کے ایجنڈا کاسہارالے کر آگے بڑھتی رہی ہے لیکن اس کاترقیاتی ایجنڈاسنگھ کی نفرت آمیز مہم سے بری طرح ٹکرارہاہے۔ آرایس ایس کے لیڈر جو بی جے پی ممبر پارلیمنٹ بن کر حکمراں بنچوں پر بیٹھ رہے ہیں ان کی دریدہ دہنی اورزبان درازی بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے اورمودی سرکار انہیں لگام لگانے کی اہل نہیں۔جیسے ایک مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی نے ایک بیان میں نئی دہلی میں کہاہے کہ ’’آپ کو طے کرناہے کہ دہلی میں سرکار رام زادوں کی بنے گی یاحرام زادوں کی۔ ساکشی مہاراج نے کہاہے کہ ’’میرے خیال میں ناتھو رام گوڈسے بھی اتنا ہی محب وطن تھا جتنا کہ مہاتما گاندھی‘‘یہاں تک کہ یوپی کے گورنر رام نائک نے کہاہے کہ ’’ہندستان کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق اجودھیا میں رام مندرکی تعمیرہونی چاہئے۔ان بیانا ت پرپارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا۔سادھوی نرنجن جیوتی کے حرام زادوں والے بیان کی نریندرمودی نے مذمت کی لیکن اپوزیشن سے یہ بھی کہاکہ چونکہ سادھوی نے معافی مانگ لی ہے اس لئے اسے معاف کردیں۔ ساکشی مہاراج کے بیان پر بھی پارلیمنٹ ٹھپ ہوئی اورساکشی مہاراج نے معافی مانگی۔ رام نائک کے بیان پر اپوزیشن نے حکومت کونشانہ بنایا اورساکشی مہاراج نے رام مندر کی تائید کی ۔ان بیانات سے اورایسے ہی دوسرے درجنوں بیانات سے نریندرمودی حکومت کی ترقیاتی ایجنڈے کامکھوٹا اتر گیاہے اور بی جے پی کے نظریاتی گرو آرایس ایس نے اس کااعلان کردیاہے کہ وہ اپنے ہندوتو ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔آرایس ایس کے کچھ لیڈروں نے نہایت ڈھٹائی سے یہ بات کہی ہے کہ وہ ترقی پر حکومت کی توجہ کوپسند تو کرتے ہیں لیکن اپنے ایجنڈے سے نہیں ہٹیں گے کیوں کہ ہندو تو ترقیاتی ایجنڈے کاحصہ ہے۔ ترقی اورہندوتو ان دونوں چیزوں کو ملاکر ہی انتخابات میں جیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ آرایس ایس کے لیڈروں کی یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ سادھوی نرنجن یایوگی آدتیہ ناگ یاساکشی مہاراج یارام نائیک جیسے لیڈروں کے ظاہر کردہ نظریات سے کسی کو اختلاف ہوسکتاہے لیکن ہندو معاشرے کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیوں کہ لوک سبھا کے انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ ہندوتو کے ایجنڈے پربرقرار رہنے کی تائیدکرتے ہیں ۔ بی جے پی خود بھی ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ہندو توایجنڈے کے استعمال کے خلاف نہیں ہے۔اگرایساہوتاتو دہلی میں فساد سے متاثر ترلوک پوری میں سادھوی نرنجن کو میٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔صورت حال یہ ہے کہ گورکھپور کے ایم پی یوگیہ آدتیہ ناگ اورعلی گڑھ کے ایم پی ستیش گوتم جبری تبدیل مذہب کے پروگرام منعقدکرنے پراٹل ہیں۔ ان لوگوں نے پرکھوں کی گھر واپسی کے نام سے متعدد پروگراموں کامنصوبہ بنارکھاہے۔بی جے پی کے صدر امیت شاہ ان تمام دریدہ دہن اور اشتعال انگیز حرکتوں کے لئے بدنام لیڈروں کی حمایت کررہے ہیں۔ امیت شاہ نے کہاہے کہ ایک غلطی کی وجہ سے ان لوگوں کو سیاست سے سبکدوش ہونے کو نہیں کہاجاسکتا۔یہ پوری صورت حال انتہائی افسوسناک ہے کیوں کہ ہندستان مٹھی بھر بگڑے ہوئے لوگوں کے اقتدار میں آجانے کی قیمت اپنی تباہی سے نہیں چکا سکتا۔مسلمانوں کو مستقل فسادات اوراضطراب میں مبتلارکھ کر یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ترقی کے عمل میں مسلمان برابر کے شریک ہوسکیں گے ۔ نریندرمودی جس ہندستان کی پوری دنیا میں مارکیٹنگ کررہے ہیں وہ ہندستان ترقی کے لئے امن کی شرط قائم کرتاہے لیکن امن خود حکمراں طبقے کی ٹھوکروں میں ہے۔جبری تبدیل مذہب کی وارداتیں بھیانک قسم کے سماجی خلفشار کاراستہ ہموارکررہی ہیں۔ ہندو تو ایجنڈے میں غیرسرکاری عناصر کاشامل ہونا ایک سماجی معاملہ ہے لیکن ممبران پارلیمنٹ اور گورنر جیسے آئینی عہدے پرموجود لوگوں کا ہندوتو کاپرچم بلند کرنا قابل گرفت ہے۔اس سے بچنے کی کوشش حکومت کوکرنی ہے لیکن حکمراں طبقہ آرایس ایس کے سامنے بے بس ہے ۔آرایس ایس نے ہندستانی سیاست میں اس مقام تک پہنچنے کے لئے ، جس مقام تک پہنچی ہے ، 90 سال کاانتظار کیا اس لئے اب تمام ایجنڈوں پر فوری عمل درآمد کی عجلت صاف دکھائی دے رہی ہے۔ یہ عجلت کسی اورنہ سہی نریندرمودی کو کافی مہنگی پڑسکتی ہے کیوں کہ ہندستان مزاجاً کٹر پنتھی ملک نہیں ہے۔ہندستان کی آبادی میں تمام فرقوں اورزبانوں اورالگ الگ علاقوں کے لوگ ہیں جن کی ترجیحات میں صرف رام مندر اورمسلم دشمنی نہیں۔ یہ ہندی بولنے والے علاقوں کی نفرت آمیز ذہنیت کاکھلم کھلا اظہار ہے جسے اقتدار نے مزید تقویت دیدی ہے لیکن ہندستان کا مجموعی مزاج اس ذہنیت کوقبول نہیں کرتاہے اس لئے دبے الفاظ میں ہی سہی سیکولر ہندستانی سماج ان مہنتوں ، سادھوؤں اور نفرت کاپرچارکرنے والے ممبران پارلیمنٹ کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کااظہارکررہاہے۔ مسلمانوں میں جبری تبدیل مذہب کے خلاف زبردست غصہ ہے ۔ آگرہ کی واردات میں عام مسلمان کو مایوس بھی کیاہے اورمشتعل بھی۔ لیکن حکام پر اس کاکوئی اثر نہیں آتا کیوں کہ آرایس ایس اوراس کی دیگر ہمشیر تنظیموں کے کارکن سماج میں اپنے لئے جگہ نکالنے کی غرض سے جو جدوجہد کررہے ہیں وہ ان کے بہت پرانے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش ہے ۔اسے سنبھالنا حکومت کاکام ہے اوراس کاسامناکرنے میں بھی تدبر اورتحمل سے کام لیناہوگا۔سیکولر جمہوری معاشرہ ایسی جارحیت کو قبول نہیں کرتا۔وقتی طورپر ہوسکتاہے کہ زیادہ سمجھدار اور وطن پرست عناصر بوکھلاہٹ میں مبتلاہوں لیکن دھول کے بیٹھتے ہی ان کے چہرے نمایاں ہوکر سامنے آئیں گے اوران کی آواز پر دھیان دینے کے لئے یہ وحشت میں مبتلا عناصر مجبورہوں گے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The agenda conflict of RSS & Modi govt. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں