دور جدید کی سیاست کے کیا کہنے ہیں۔ آپ ایک دفعہ اس میں اونچے عہدوں تک پہنچ جائیے، پھرنہ آئین کی فکر نہ اخلاق و تہذیب کی۔ سادھوی نرنجن جیوتی کی بدزبانی کے باعث دو دنوں تک ایوان میں زبردست ہنگامہ آرائی رہی اور تیسرے دن بھی یہ ہلچل جاری رہی اور مضمون کو آخری شکل دینے تک اطلاعات کے مطابق نرنجن پر تعطل برقرار ہے۔حکومت کے دونوں ایوانوں میں ہنگامہ جاری ہے، جس کے چلتے وزیر اعظم کو بھی اپنا 'مون برت' توڑتے ہوئے اپنی وزیر کی طرف سے صفائی پیش کرنا پڑی۔ جمعرات کے روز وزیر اعظم نے ایوانِ بالا میں اپنی وزیر کی صفائی پیش کی اور حزب مخالف سے اپیل کی کہ وہ ایوان کی کاروائی چلنے دیں، لیکن حزبِ مخالف استعفے سے کم پر راضی نہ ہوئے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ "اراکین پارلیمنٹ کو اس قسم کی بیان بازی سے بچنا چاہیے، چوں کہ سادھوی نے اپنی غلطی کے لیے معافی مانگ لی ہے، اس لیے اب ملک کی فلاح و بہبود کی خاطر ایوان کی کاروائی چلنے دینی چاہیے"۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ "سادھوی نئی وزیر ہیں اور ان کے پس منظر کو بھی ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ جب انھوں نے معافی مانگ لی ہے، تو یہ ہم سب کے لیے پیغام ہے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں"۔ لیکن کانگریس لیڈر آنند شرما نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ"جس وزیرنے آئین کا حلف اٹھانے کے بعد اس سے کیے گئے اپنے عہد کو توڑا ہے، اسے کس بنیاد پر کابینہ میں برقرار رکھا جا رہا ہے، یہ بات ہمارے گلے نہیں اتررہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم اس بات کی وجہ بیان کریں کہ وہ کس بنیاد پر سادھوی کو اتنے سنگین بیانات پر صرف معافی مانگنے کے بعد معاف کر رہے ہیں؟"
اس کے علاوہ ترنمول کانگریس اور کانگریس کے اراکین نے ایوانِ بالا سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک سادھوی نرنجن جیوتی اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو جاتی، ایوان کی کاروائی نہیں چلنے دی جائے گی۔بلکہ حزبِ مخالف کی طرف سے وزیر اعظم کے تعلق سے بھی یہ خبر گوش گزار ہوئی کہ انھوں نے وزیر اعظم سے بھی استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ خیریہ سب توسیاسی داؤ پیچ ہیں۔بی جے پی نے سادھوی کے اس متنازع بیان اور اس پر تنازع کے بعد دہلی میں ان کی اگلی ریلیاں رد کر دی ہیں۔واضح رہے بی جے پی نے دہلی میں اپنی کابیابی کے لیے ایڑی جوٹی کا زور لگا دیا ہے، اس نے تقریبا تین سو ممبران کو اکھاڑے میں اتارا ہے، جو انتخابی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ظاہر ہے کہ سادھوی نرنجن کے اس بیان سے بی جے پی کی شبیہ مزید خراب ہو گئی ہے۔ الیکش کے قریب آجانے کے باعث اس واقعہ کا حزبِ مخالف کو خاصا فائدہ پہنچ سکتا ہے،لیکن ہم بات اس پر کر رہے ہیں کہ کیا ہندوستان میں سیاسی مفاد حاصل کرنے اور عوام کے جذبات کو بر انگیختہ کرنے والے ایسے جملوں کی اجازت یا ان کے استعمال کے بعد آسانی سے معاف کردینا کسی طور مناسب ہو سکتا ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب الیکشن کی ہی کرشمہ سازیاں ہیں، جن کے چلتے عوام کو ان وزراء کی حقیقت، ان کے جذبات، ان کے فہم و ذکا اور ان کے خیالات و بچار کا اندازہ ہو سکتا ہے۔کاش کہ ایسی باتوں کے کھل کر سامنے آجانے کے بعد تو کم از کم ملک کی عوام اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ جس جماعت کے لوگوں نے ایک سیاسی ریلی یا میٹنگ میں ڈنکے کی چوٹ پر مخالفین کو 'حرام زادے' کہہ ڈالا اگر وہ جماعت اس ریاست میں سرکار بنانے میں کامیاب ہو گئی،تو وہ آگے کیا کچھ کہے گی اور کرے گی۔ مضمون نگار کا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور مہاراشٹر و ہریانہ کی کامیابیوں نے بی جے پی کے حواس باختہ کر دیے ہیں، ان میں مناسب و غیر مناسب کا امتیاز مفقود ہو چلا ہے، ورنہ تو کیا وجہ ہے کہ جس کے بس کا اپنی زبان چلانا نہیں، اسے حکومت چلانے کے لیے مرکزی وزیر بنائے رکھا جائے! ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ہر عہدہ، اس کے اہل کے سپرد کیا جائے، اسی میں دہلی، پورے ملک بلکہ انسانیت کی فلاح و کامیابی پوشیدہ ہے۔
***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری |
The charisma of Elections. Article: Nadim Ahmed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں