الیکشن کی کرشمہ سازیاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-05

الیکشن کی کرشمہ سازیاں

کہتے ہیں "انسان جب تک خاموش رہے، پردہ میں رہتا ہے، بولنے پر اس کے سب عیب و ہنر کھل جاتے ہیں"۔ واقعۃًیہ بالکل صحیح بات ہے، اس کا عملی تجربہ یوں تو ہم آپ آئے دن کرتے رہتے ہیں، لیکن ہندوستان کے دار الحکومت دہلی کے الیکشن کی سیاسی تیاریوں میں، بی جے پی کی مرکزی وزیر، سادھوی نرنجن جیوتی جب نے اپنا منہ کھولا، تو گویا کہ مذکورہ بالا بات بطور خاص واضح ہوگئی۔ واقعہ یہ ہے کہ یکم دسمبر کو سادھوی نے دہلی کی ایک انتخابی میٹنگ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستانیوں کو رام کی اولاد اور خود کو رام زادے جب کہ باقی ماندہ یا مخالفین کو 'حرام زادے' کہہ کر مخاطب کیا ۔ جس کی حزبِ مخالف نے جم کر مخالفت کی۔ ان کی قافیہ بندی یقیناًحیرت کی چیز ہے، اس لیے کہ ہندوستان ؛ جو کہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، اس میں ہر ایک کو اپنی بات رکھنے کا حق تو ہے، لیکن کیا ملک و سماج کی تہذیب و اقدار کا انسان پر کوئی حق نہیں؟ کیا ان کی پاسداری کا کوئی لحاظ نہیں رکھنا چاہیے؟ ظاہر بات ہے، سادھوی کے خطاب کے موقع پر سامعین میں چھوٹے، بڑے سب ہی موجود تھے، ان سب کے سامنے ویسے بھی سر عام اس طرح سے غیر مہذب قافیہ پیمائی ہمارا خیال ہے کہ کسی طور مناسب نہ تھی۔ اس پر ردِّ عمل ہونا چاہیے تھا اور ہوا بھی، یہ اور بات ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ اس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلے گا بھی یا نہیں۔ہمیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جس ملک میں جونئیر کالج میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے گریجویشن اور بی ایڈ کی تعلیمی لیاقت لازمی ہے، اس ملک کی مرکزی وزیر یا وزیرِ تعلیم کی تعلیمی لیاقت فقط بارھویں جماعت تک کیسے کفایت کر سکتی ہے؟ جب ان کی تعلیمی لیاقت و استعداد کا یہ حال ہے، توملک کی عوام سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔پھر جو ہونا چاہیے وہی ہو رہا ہے، جس کا مذکورہ بیان سے واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حکومت کے دیگر وزراء کس قدر لائق و فائق ہیں۔
دور جدید کی سیاست کے کیا کہنے ہیں۔ آپ ایک دفعہ اس میں اونچے عہدوں تک پہنچ جائیے، پھرنہ آئین کی فکر نہ اخلاق و تہذیب کی۔ سادھوی نرنجن جیوتی کی بدزبانی کے باعث دو دنوں تک ایوان میں زبردست ہنگامہ آرائی رہی اور تیسرے دن بھی یہ ہلچل جاری رہی اور مضمون کو آخری شکل دینے تک اطلاعات کے مطابق نرنجن پر تعطل برقرار ہے۔حکومت کے دونوں ایوانوں میں ہنگامہ جاری ہے، جس کے چلتے وزیر اعظم کو بھی اپنا 'مون برت' توڑتے ہوئے اپنی وزیر کی طرف سے صفائی پیش کرنا پڑی۔ جمعرات کے روز وزیر اعظم نے ایوانِ بالا میں اپنی وزیر کی صفائی پیش کی اور حزب مخالف سے اپیل کی کہ وہ ایوان کی کاروائی چلنے دیں، لیکن حزبِ مخالف استعفے سے کم پر راضی نہ ہوئے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ "اراکین پارلیمنٹ کو اس قسم کی بیان بازی سے بچنا چاہیے، چوں کہ سادھوی نے اپنی غلطی کے لیے معافی مانگ لی ہے، اس لیے اب ملک کی فلاح و بہبود کی خاطر ایوان کی کاروائی چلنے دینی چاہیے"۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ "سادھوی نئی وزیر ہیں اور ان کے پس منظر کو بھی ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ جب انھوں نے معافی مانگ لی ہے، تو یہ ہم سب کے لیے پیغام ہے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں"۔ لیکن کانگریس لیڈر آنند شرما نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ"جس وزیرنے آئین کا حلف اٹھانے کے بعد اس سے کیے گئے اپنے عہد کو توڑا ہے، اسے کس بنیاد پر کابینہ میں برقرار رکھا جا رہا ہے، یہ بات ہمارے گلے نہیں اتررہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم اس بات کی وجہ بیان کریں کہ وہ کس بنیاد پر سادھوی کو اتنے سنگین بیانات پر صرف معافی مانگنے کے بعد معاف کر رہے ہیں؟"
اس کے علاوہ ترنمول کانگریس اور کانگریس کے اراکین نے ایوانِ بالا سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک سادھوی نرنجن جیوتی اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو جاتی، ایوان کی کاروائی نہیں چلنے دی جائے گی۔بلکہ حزبِ مخالف کی طرف سے وزیر اعظم کے تعلق سے بھی یہ خبر گوش گزار ہوئی کہ انھوں نے وزیر اعظم سے بھی استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ خیریہ سب توسیاسی داؤ پیچ ہیں۔بی جے پی نے سادھوی کے اس متنازع بیان اور اس پر تنازع کے بعد دہلی میں ان کی اگلی ریلیاں رد کر دی ہیں۔واضح رہے بی جے پی نے دہلی میں اپنی کابیابی کے لیے ایڑی جوٹی کا زور لگا دیا ہے، اس نے تقریبا تین سو ممبران کو اکھاڑے میں اتارا ہے، جو انتخابی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ظاہر ہے کہ سادھوی نرنجن کے اس بیان سے بی جے پی کی شبیہ مزید خراب ہو گئی ہے۔ الیکش کے قریب آجانے کے باعث اس واقعہ کا حزبِ مخالف کو خاصا فائدہ پہنچ سکتا ہے،لیکن ہم بات اس پر کر رہے ہیں کہ کیا ہندوستان میں سیاسی مفاد حاصل کرنے اور عوام کے جذبات کو بر انگیختہ کرنے والے ایسے جملوں کی اجازت یا ان کے استعمال کے بعد آسانی سے معاف کردینا کسی طور مناسب ہو سکتا ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب الیکشن کی ہی کرشمہ سازیاں ہیں، جن کے چلتے عوام کو ان وزراء کی حقیقت، ان کے جذبات، ان کے فہم و ذکا اور ان کے خیالات و بچار کا اندازہ ہو سکتا ہے۔کاش کہ ایسی باتوں کے کھل کر سامنے آجانے کے بعد تو کم از کم ملک کی عوام اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ جس جماعت کے لوگوں نے ایک سیاسی ریلی یا میٹنگ میں ڈنکے کی چوٹ پر مخالفین کو 'حرام زادے' کہہ ڈالا اگر وہ جماعت اس ریاست میں سرکار بنانے میں کامیاب ہو گئی،تو وہ آگے کیا کچھ کہے گی اور کرے گی۔ مضمون نگار کا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور مہاراشٹر و ہریانہ کی کامیابیوں نے بی جے پی کے حواس باختہ کر دیے ہیں، ان میں مناسب و غیر مناسب کا امتیاز مفقود ہو چلا ہے، ورنہ تو کیا وجہ ہے کہ جس کے بس کا اپنی زبان چلانا نہیں، اسے حکومت چلانے کے لیے مرکزی وزیر بنائے رکھا جائے! ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ہر عہدہ، اس کے اہل کے سپرد کیا جائے، اسی میں دہلی، پورے ملک بلکہ انسانیت کی فلاح و کامیابی پوشیدہ ہے۔

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

The charisma of Elections. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں