سیّد حامد صاحب کی وفات پر اردو گھر دہلی میں تعزیتی نشست - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-30

سیّد حامد صاحب کی وفات پر اردو گھر دہلی میں تعزیتی نشست

syed_hamid
انجمن ترقی اردو (ہند) کے سابق صدر ، جامعہ ہمدرد کے سابق چانسلراور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب سید حامد کا 29؍ دسمبر2014 کو دہلی کے مجیدیہ اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ اُن کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) کے مرکزی دفتر اردو گھر میں ایک تعزیتی نشست ڈاکٹر اسلم پرویز کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے سید حامد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سید حامد صاحب اتّر پردیش کے ضلع فیض آباد میں 7؍ جنوری 1920 کو پیدا ہوئے تھے جہاں اُن کے والد ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے ۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے فیض آباد اور رام پور میں حاصل کی پھر انھوں نے مراد آباد کے گورنمنٹ انٹر کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی. اے کیا،پھر انگریزی اور فارسی میں ایم. اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1940 میں انھوں نے آئی. اے. ایس کا امتحان پاس کیا اور حکومتِ ہند کے کئی اہم محکموں اور وزارتوں میں اپنے فرائضِ منصبی انجام دیے۔ حامد صاحب 18؍ مارچ 1988 کو انجمن ترقی اردو (ہند) کے صدر منتخب ہوئے اور پانچ سال تک اپنی ذمے داریوں کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔حامد صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ انگریزی اصطلاحوں کو اردو جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ ان کی کتاب'نگار خانۂ رقصاں' کی رسمِ رونمائی کی تقریب 1985 میں پروفیسر آلِ احمد سرور کی صدارت میں غالب اکیڈمی دہلی میں منعقد ہوئی تھی جس میں عہدِ حاضر کے ممتاز نقّاد شمس الرحمن فاروقی اور مظفّر حسین برنی صاحب نے بھی شرکت کی تھی۔سید حامد صاحب اعلا درجے کے نثر نگار کے ساتھ ساتھ بہت ہی اچھے اور سنجیدہ شاعر بھی تھے۔ ان کے درجِ ذیل اشعار آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں:
زندگی وعدہ فراموش تھی، ٹھہری نہ ذرا
موت پابندِ وفا ہے کہ جب آئی، نہ گئی
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
درد بیچارا پریشاں ہے، کہاں سے اُٹھّے
جناب شاہد ماہلی نے کہا کہ سید حامد صاحب نے سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور چانسلر ہمدرد یونی ورسٹی اور تعلیمی کارواں کے میرِ کارواں کی حیثیت سے تعلیم کے سلسلے میں نمایاں کام کیے۔ وہ ایک اچھے اڈمنسٹریٹربھی تھے۔ بہت دنوں تک سرکاری محکموں میں اعلا عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے بعد تعلیمی میدان میں اپنے آپ کو وقف کردیا۔ حکیم عبد الحمید صاحب ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے اور انھوں نے جامعہ ہمدرد کے تمام کام ان کو سونپ دیے تھے۔ہندستانی مسلم سماج میں سید حامد صاحب کی بڑی حیثیت تھی۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
ڈاکٹر خلیق انجم نے کہا کہ سید حامد صاحب علم و ادب اور تعلیم کے میدان میں جو نمایاں مقام رکھتے تھے ،وہ اظہر من الشمس ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر رہے، اس کے بعد جامعہ ہمدرد کے چانسلر رہے ۔ مجھے تو ایک تعلقِ خاطر اُن سے یہ رہا کہ وہ انجمن ترقی اردو (ہند) کے صدر بھی رہ چکے تھے۔ اپنی صدارت کے زمانے میں انھوں نے انجمن کے کسی بھی کام میں یا کسی بھی کاز میں کوئی بے جا مداخلت کبھی نہیں کی۔ وہ ایک قابلِ احترام شخصیت تھے لیکن ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کا بھی احترام کرتے تھے۔ وہ اردو کے بھی ایک نمایاں ادیب تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے جو کارنامے انجام دیے ان کو بہ روئے کار لانے کی ضرورت ہے اور یہ ان کی ذات کااردو والوں پر قرض ہے۔
انجمن کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی چوں کہ دہلی سے باہر تھے، اس لیے انھوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سید حامد صاحب نے تعلیم کے میدان میں کئی کارہاے نمایاں انجام دیے۔ انھوں نے تعلیمی اور اصلاحی تحریک کے لیے ہندستان کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا۔ اُن کے 'کاروانِ تعلیم ' اور 'کاروانِ صحت ' نے اپنا پیغام عام مسلمانوں تک پہنچایا اور اُن میں بیداری کی لہر پیدا کی، جس کے بہت ہی اچھے نتائج بھی ظاہر ہوئے اور اِس دوران مسلمانوں کے کئی اہم تعلیمی ادارے اور اسکول وغیرہ قائم ہوئے۔ صدرِ جلسہ ڈاکٹر اسلم پرویز نے سید حامد کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سید حامد صاحب کا شمار ہمارے عہد کے اہم دانش ور وں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے سول سروسز کے میدان میں آئی. اے. ایس کیا لیکن سول سروسز تک ان کی خدمات محدود نہیں رہیں بلکہ انھوں نے علم و ادب کے میدان میں بھی کارہاے نمایاں انجام دیے۔بہ طورِ خاص مسلمانوں میں جو تعلیم کی طرف رجحان پیدا ہوا اُس میں سید حامد صاحب کی کوششوں کو اہم مقام حاصل ہے۔ وہ جتنی عظیم شخصیت تھے اپنے مزاج کے اعتبار سے اسی قدر منکسر المزاج بھی تھے۔ جامعہ ہمدرد میں ان کے کارناموں کو ایک نمایاں مقام اس لیے حاصل ہے کہ اس کی بدولت مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ حاصل ہوا۔

مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد کی ایک پریس ریلیز کے بموجب مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی نے ممتاز ماہر تعلیم، دانشور اور منتظم جناب سید حامد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر محمد میاں، وائس چانسلر نے اپنے ایک تعزیتی بیان میں اردو یونیورسٹی کے اساسی ایام سے مرحوم کی قریبی وابستگی اور ملک میں فروغ تعلیم کے لیے مرحوم کی بے مثال خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جناب سید حامد، 1990ء کی دہائی میں اردو یونیورسٹی کے قیام کے لیے وزارت فروغ انسانی وسائل کی تشکیل کردہ عزیز قریشی کمیٹی کے اہم رکن تھے۔ انہوں نے نہ صرف یونیورسٹی کے قیام میں اہم رول ادا کیا بلکہ 9؍ جنوری 1998ء میں جب محبان اردو کا یہ دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا تو اس کی رہبری اور رہنمائی کے لیے قائم کردہ اولین ایگزیکیٹو کونسل کے رکن کی حیثیت سے (1998 - 2000) بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ پروفیسر محمد میاں نے یاد دلایا کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے 2005ء میں منعقدہ اولین کانووکیشن میں فروغ تعلیم بالخصوص اردو کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے پر انہیں یونیورسٹی کی جانب سے اس وقت کے صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ہاتھوں اعزازی ڈاکریٹ کی ڈگری عطا کی گئی تھی۔ مرحوم ’ہمیشہ‘ اردو یونیورسٹی کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ررہے۔ 9؍ جنوری 2009ء کو یونیورسٹی کی یوم تاسیس تقریب میں مرحوم کا خطبہ اس بات کا ثبوت ہے۔ انہوں نے اپنے مدبرانہ خطاب میں اردو یونیورسٹی کے استحکام اور ترقی کے لیے جو رہنمائی کی تھی وہ یونیورسٹی کے لیے فیض رسانی اور رہبری کا مستقل ذریعہ رہے گی۔ پروفیسر محمد میاں نے ارکان خاندان سے دلی اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے درجات کی بلندی کی دعا کی اور کہا کہ جناب سید حامد کے انتقال سے ہندوستان بھر کے اہل اردو ایک بے لوث جہدکار، بے مثال منتظم اور بے لاگ دانشور سے محروم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی طلبہ، اساتذہ اور اسٹاف کی جانب سے مرحوم کی غیر معمولی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نئی نسل کو جناب سید حامش کے مشن کی تکمیل کا مشورہ دیا۔

Syed Hamid's condolence meeting at Urdu Ghar Delhi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں