ادارہ جاتی توڑ پھوڑ کا ایجنڈا - کانگریس کیلئے سود مند مگر ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-30

ادارہ جاتی توڑ پھوڑ کا ایجنڈا - کانگریس کیلئے سود مند مگر ۔۔۔

indian-national-congress
دگوجے سنگھ نے کانگریس میں پھر ایک بار تنازع یہ کہ کر کھڑا کردیا ہے کہ راہل گاندھی کو کانگریس کا فل ٹائم ذمہ دار بنایا جائے۔ بھوپال میں پارٹی کے سینئر لیڈر کا ہفتہ کے دن یہ کہنا اس لحاظ سے اہم ہے کہ ابھی چار پانچ ہفتے پہلے بھی انہوں نے یہی بات کہی تھی۔ جس پر کانگریس قیادت نے ناراضگی کااظہار کیا تھا۔ اور یہ بات اس پر ختم ہوگئی تھی کہ یہ پارٹی کے سینئر لیڈر دگو جے سنگھ کا ذاتی خیال ہے۔ راہل گاندھی کو جو اس وقت پارٹی کے نائب صدر ہیں پارٹی کی ذمہ داری کل وقتی طور پر سنبھالنے کا مشورہ دینے کے پیچھے یہ مطالبہ عیا ں ہے کہ مسز گاندھی کی جگہ راہل کو دی جائے۔ کانگریس کیلئے اس وقت یہ کوئی اچھی چیز نہیں۔ کانگریس پارٹی مسلسل سمٹ رہی ہے۔ میڈیا اور خود کانگریسی اور سیاسی مبصرین سب یہ دکھانے کی کوشش میں ہیں کہ قیادت کی بظاہر مسز گاندھی کے پاس ہے لیکن اصل لیڈر راہل ہیں اور راہل مسلسل ناکام ہورہے ہیں۔ابھی کی ایک رپورٹ اس سلسلے میں نمایاں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ راہل گاندھی نے جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کیلئے جن آٹھ حلقوں میں کانگریس امیدواروں کی حمایت میں انتخابی مہم چلائی ان میں سے سات میں کانگریس کے امیدوار ہار گئے۔ اس سے پہلے بھی انتخابی نتائج کے بعد خاص طور سے یہ دکھانے اور بتانے اور جتانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ راہل کی انتخابی مہم کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسی کئی رپورٹیں موجود ہیں جن میں کسی خاص الیکشن میں کسی خاص ریاست میں راہل گاندھی کی انتخابی مہم کیلئے نمایاں حلقوں کا نتیجہ دیکھا گیا تو پتا چلا کہ ان تمام حلقوں میں پارٹی کو ویسی کامیابی نہیں ملی جیسی ملنی چاہئے۔ اس سلسلے میں ایک جواب بہت اہم ہے پارٹی کے کچھ کارکنوں کا کہنا ہے کہ راہل کی انتخابی مہم کا شیڈول بناتے وقت یہ بات ذہن میں رکھی جاتی ہے کہ انہیں وہیں بھیجا جائے جہاں کانگریس امیدوار کی پوزیشن بہت طاقت ور نہ ہو۔ امیدوار کی اپنی کمزوری کیلئے انتخابی مہم میں راہل کی موجودگی کو ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لیکن ریکارڈ اور اعداد وشمار بہر حال کوئی مطلب رکھتے ہیں۔ ریکارڈ اور اعداد وشمار اس کی تائید نہیں کرتے کہ راہل کا کرشمہ چل رہا ہے جب کہ یہی ریکارڈ اور اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ سونیاگاندھی کا دور اقتدار یا پارٹی کی صدارت کا اہل کمزور نہیں ہے جب وہ پارٹی کی صدر بنی تھیں تو کانگریس کے پاس دو ریاستیں تھی ۔ اس کے بعد اسمبلی انتخابات ہوتے گئے اور کانگریس جیتتی گئی ایک مرحلہ آیا جب چودہ ریاستوں میں کانگریس کی سرکار تھی۔ 2004کے لو ک سبھا انتخابات سے پہلے اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں بی جے پی کی سربراہی والا قومی جمہوری اتحاد تین میعادوں میں چھ سال سے زیادہ کی حکومت کرکے شکست سے دو چار ہوا۔ کانگریس کی قیادت میں ترقی پسند اتحاد حکومت بنی۔ پہلے پانچ سال ہندوستان میں بہترین حکمرانی کیلئے یاد کئے جائیں گے۔ ترقی پسند اتحاد کا دورہ دوئم 2009سے 2014تک بدعنوانی اور مہنگائی کے خلاف عوامی فضا بندی کی زد میں رہا۔ یہ عوامی بدظنی کا نتیجہ تھا کہ کانگریس 2014میں ہاری۔ نریندرمودی یا بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2004میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد کچھ ایسا نہیں کیا تھا کہ عوام انہیں دوبارہ لے آتے لیکن حکمرانوں سے بدظنی کی وجہ سے کانگریس کے خلاف ووٹنگ ہوئی اور چھوٹی علاقائی پارٹیوں کو منمانی کی اجازت دینے سے انکارکرتے ہوئے ووٹر نے بی جے پی کو بھر پور اکثریت فراہم کردی۔ ایسا نہیں کہ مودی سرکار کوئی بڑا کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ یہ چھ مہینے جو مودی سرکار کے گذرے ہیں یہ چھ مہینے کار گذاری سے زیادہ انحراف، انہدام، انتشار کے ہیں۔ قومی میڈیا ٹی وی نیوز چینل، بڑے اخبارات خبر کے پیچھے بھاگتے وقت مودی سرکار کے پہلے دن سے ہی اس بات کو نظر انداز کررہے ہیں کہ یہ حکومت کچھ بنانے کا ایجنڈا نہیں لے کر آئی۔ اس سرکار کا ایجنڈا سرکاری سرپرستی میں قانون کے دائرے کے اندر رہ کر توڑ پھوڑ کا ہے۔ اور مودی سرکار اس ایجنڈے پر پوری شدت سے جل رہی ہے۔ ایسے میں کانگریس کی شکست خوردگی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کانگریس سولہویں لوک سبھا کا الیکشن ہارنے کے بعد سنبھل نہیں پائی ہے۔ ضمنی انتخابات میں تو شاید اسے کچھ فائدہ ہو بھی گیا تھا ، اسمبلی کے باضابطہ انتخابات کے دوران پہلے مہاراشٹر اور ہریانہ میں کانگریسی حکومتیں گئیں۔ اس کے بعد جموں اور کشمیر میں کانگریس کی پوزیشن پہلے سے اور نازک ہوئی۔ آنے والے برسوں میں بہار اور یوپی میں بھی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں جہاں کانگریس کئی دہائیوں سے چار نمبر پر ہی رہ کر مطمئن ہے۔ کوئی کوشش ایسی نہیں کی گئی کہ 1977میں جو زمینیں کانگریس کے پیروں کے نیچے سے نکل گئی تھیں ان پر دوبارہ قبضہ کیا جائے۔ گوکہ ایک سے زائد ریاستوں میں آج بھی کانگریس سے ٹوٹ کر نکلی ہوئی پارٹیاں ہی اپنی علاقائی حیثیت اور مقامی قیادت کے بل پر حکمران ہیں۔ ممتا بنرجی ہوں یا مفتی سعید سبھوں کا سیاسی قد کانگریس کے دور میں وابستگی کے دور میں بلند ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کانگریس سے وابستہ ہو کر اگر کوئی لیڈر علاقائی طاقت بن سکتا ہے تو کانگریس کے اپنی لیڈروں کی علاقائی اپیل یا قومی اپیل کم کیوں ہے۔ دگ وجے سنگھ کا مشورہ کانگریس میں زیر غور آسکتا ہے۔ آنابھی چاہئے ۔ مسز سونیا گاندھی کے بعد کسی نہ کسی کو قیادت سنبھالنی ہے۔ نہرو گاندھی خاندان سے ہی کوئی قیادت ابھرے تو کیا برا۔ لیکن دگ وجے سنگھ اور دوسرے بڑے لیڈروں کو بھی اپنی ذاتی کشش اور شخصی اپیل بڑھانی چاہئے۔ کانگریس کے پاس راجیو کے دور میں 414سیٹیں تھیں۔ اور اب 44 سیٹیں ہیں۔ زوال دس گنا آیا ہے، عروج بھی دس گنا ہے تو صورتحال بدل سکتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کے اصولوں ضابطوں اور قرون وسطی کی حیات کی طرف مائل ہونے کو بے چین ہندو تنظیموں کی رجعت پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے کانگریس قیادت جدت اور مستقبل بینی کا کون سا ایسا ایجنڈا لے کر آسکتی ہے۔ جو لو جہاد، بہو لاؤ، بیٹی بچاو مہم، جبری تبدیل مذہب اور ایسی ہی دوسری سماج دشمن سرگرمیوں سے عوامی تنفر کو کانگریس کیلئے ووٹ میں تبدیل کرسکے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The agenda of institutional vandalism might be beneficial to Congress. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں