دست دعا - جاوید اقبال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-20

دست دعا - جاوید اقبال

Supplications-for-the-bleeding-ummah
بڑی خون آشام تاریخ ہے امت کی۔ اسکا ہر ورق انسانی لہو پی کر تکمیل حاصل کرپایا ہے ۔ میاں محمد افضل کی تصنیف’’سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک‘‘ حقائق کو بڑے منفرد انداز میں بیان کرتی ہے ۔ پشاور کا سانحہ ہوا تو ہاتھ ایک بار پھر اس کتاب کی طرف بڑھ گیا ۔ بغداد اور ہلاکو خان سے آغا ز کرتے ہیں ۔ آپ بھی بین السطور ناگفتنی سمجھیں۔
خلیفہ معتصم باللہ کے مکار وزیر ابن علقمی نے اسے مشورہ دیا کہ تاتاریوں کا مقابلہ دشوار ہوگا اس لئے خلیفہ اپنے فرزندون خے ساتھ ہلاکو خان کے پاس جائیں اور رشتہ داری کی پیشکش کے علاوہ سیم و زر کی جھلک دکھائیں تو لڑائی کے بغیر ہی سلطنت محفوظ ہوجائے گی ۔ جب برا وقت آتا ہے تو عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ جیسے ہی خلیفہ شہر سے باہر آیا تاتاری اندر داخل ہوگئے ۔ وہ اتوار کا دن656ہجری، صفر کی 4تاریخ تھی جب سقوط بغداد ہوا ۔ ہلاکو نے حکم دیا کہ شہر کے اندر اور باہر جو کچھ ہے تاخت و تاراج کردیاجائے۔ مسلمان مورخین نے لکھا ہے کہ بیس لاکھ مسلمان فوجی، مردوزن، بچے، بوڑھے قتل کئے گئے ۔ روایت ہے کہ جب خلیفہ معتصم بغداد سے باہر نکل کر ہلاکوکے خیمے کی طرف گیا تواس کے ہمراہ بارہ سو ممتاز سردار علماء اور عمائدین تھے جنہیں خیمے کے باہر روک لیا گیا اور علیحدہ لے جاکر قتل کردیا گیا ۔ شہر کے بدرؤں میں خون بہا جو آگے دریا دجلہ میں شامل ہوگیا ۔ اگلی کم از کم ایک صدی تک المیہ بغداد پر بھرپور نوحے لکھے جاتے رہے۔ شاعر روتے رہے اور رلاتے رہے ۔ مورخ اور ادیب اس سانحے کے جزئیات پیش کرتے رہے ۔
اور اب دہلی اور امیر تیمور کا ذکر ہو ۔ سلطان ناصر الدین محمود تغلق کی فوج میں ایک سو جنگی ہاتھی تھے جب کہ وسائل اور تعداد میں بھی تغلق کی فوج کو امیر تیمور کے جنگجوؤں پر سبقت حاصل تھی۔ شکست کی بنیادی وجہ تغلق کی فوج کے اندر حوصلہ مندی کا فقدان تھا۔ سلطان رات کے اندھیرے میں فرار ہوگیا ۔ تیمور کا فاتحانہ جھنڈا شہر کی فصیل پر لہرا دیا گیا۔17دسمبر1398ء کو دہلی تیمور کے ہاتھوں غروب ہوا۔ تیمور کی خود نوشت جسے فرانسیسی عالم مارسل بیون نے مرتب کیا ہے، میں تیمور کا یہ حکم نقل کیا گیا ہے کہ میں نے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں کلہاڑی تھام لی اور سپاہیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ:’’چلو آگے بڑھیں تمہیں جو بھی چیز نظر آئے اس کے مالک بن جاؤ۔ جو بھی سامنے آئے اسے غلام بنالو۔ تمہیں تین دن تک لوٹ مار کرنے کی آزادی ہے۔ یہ سنتے ہی تیموری سپاہی بھوکے بھیڑیوں کی طرح شہریوں پر ٹوٹ پڑے اور جی کھول کر خونریز ی اور لوٹ مار کی ۔ لاشیں بے گوروکفن پڑی رہیں ، زندہ بچ جانے والوں کو غلام بنالیا گیا ۔ ایک سپاہی کے حصے میں پچاس سے لے کر سو تک قیدی آئے۔ تیمور15دن دہلی میں مقیم رہا اور اس دوران پانچ دن شہر اس کے سپاہیوں کے حوالے رہا۔ انہوں نے دل کھول کر قتل عام کیا اور گھر لوٹے ، پھر شہر کو قدرتی وباء اور قحط نے تباہ و برباد کردیا۔
اور اب ہسپانیہ میں امت مسلمہ پر ٹوٹنے والی قیامت کا بھی ذکر ہوجائے ۔781برس اندلس میں اقتدار کے خاتمے پر آخری مسلمان ریاست غرناطہ کا شکست خوردہ حکمراں ابو عبداللہ 2جنوری1492ء کو شہر کی چابیاں عیسائی فاتحین ازابیلا اور فرڈیننڈ کے حوالے کرکے قصر الحمراء سے نکلا اور مضافات کی پہاڑیوں میں غائب ہوگیا ۔ اندلس کے اس زوال کے بعد وہاں کی تقریباً ایک کروڑ کی مسلمان آبادی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔1609ء میں مسلمانوں کو حکم دیدیا گیا کہ وہ اندلس چھوڑ دیں ۔ مورخین کے مطابق سقوط غرناطہ کے بعد تیس لاکھ مسلمانوں نے زیادہ تر تیونس اور مراکش کا رخ کیا جہاں آج بھی انہیں اہل الاندلس کہاجاتا ہے ۔ اندلس میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کو مذہب تبدیل کرنا پڑا ۔ یہ آبادی تقریباً آدھی تھی ۔ بقایا30سے40لاکھ مسلمانوں کے بارے میں ہسپانیہ کی تاریخ خاموش ہے۔ انہیں زمین کھاگئی ؟تاریخ اسلام کا یہ خونیں باب گنگ ہے ۔
اور اب1857ء کے دلی کا خیال کریں ۔19ستمبر کو انگریزوں نے شہر پر قبضہ مکمل کرلیا تھا۔ 5دن بعد ایک انگریز افسر رابرٹسن کچھ فوج لے کر دہلی سے کانپور صبح سویرے روانہ ہونے لگا تو اس نے شہر کا جو نقشہ دیکھا وہ شہر خموشاں کے نقشے سے زیادہ خوفناک تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ’’دہلی حقیقتاً شہر خموشاں معلوم ہوتاتھا۔ ہمارے اپنے گھوڑے کے سموں کے سوا کوئی آواز کسی سمت سے نہ آتی تھی ۔ ایک بھی ذی روح مخلوق ہماری نظر سے نہ گزری ۔ ہر طرف نعشیں بکھری پڑی تھیں۔ جن مناظر سے ہماری آنکھیں دوچار ہوئیں وہ بڑے ہی خوفناک اور دردناک تھے ۔ کہیں کوئی جانور کسی نعش کو بھنبھوڑ رہا تھا تو کہیں کوئی گدھ ہمارے قریب پہنچنے پر پھڑ پھڑاتے پروں سے ذرا دور چلا جاتا تھا۔ اکثر حالتوں میں مرے ہوئے زندہ معلوم ہوتے تھے ۔ ہمارے گھوڑے خوف سے بدک رہے تھے اور نتھنے پھلا رہے تھے ۔’‘‘ ہوا یہ تھا کہ انگریزوں نے جو اپنی فوج کو تین دن تک غارتگری کی کھلی اجازت دی تھی اس کے نتیجے میں ہزاروں سویلین مسلمان ہی قتل کئے گئے ۔ گوروں نے خاندان مغلیہ، مسلمان عمائدین ، علماء امراء، اور عامۃ المسلمین پر مظالم کے جو پہاڑ توڑے انہیں دیکھتے ہوئے چنگیز ، ہلاکو، تیمور اور نادر شاہ رحمدل قصاب معلوم ہوتے ہیں جو اپنے مذبوح کو تڑپاتے نہ تھے ۔
اور اب مشرقی پاکستان کے ڈھاکہ کے آخری ایام کا ذکر! بریگیڈیئر صدیق سالک اپنی کتاب’’ میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ چٹا گانگ میں میجر ضیاء الرحمن(بعد میں جنرل اور پھر صدر بنگلہ دیش ) نے ایسٹ بنگال رجمنٹ کے باغیوں کی قیادت کرتے ہوئے غیر بنگالیوں کے لئے شہر کو مذبح خانہ بنادیا۔ چٹا گانگ میں چند دنوں میں 12ہزار غیر بنگالی قتل کئے گئے۔ ایسٹ بنگال رائلفلز کے بنگالی افسران اور سپاہیوں نے بے انتہا ظلم کئے۔ انہوں نے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اکثر افسروں ، جوانوں اور ان کے بیوی بچوں کو قتل کردیا اور پھر سرحد پار کر کے ہند چلے گئے تاکہ گرفتار نہ ہوسکیں ۔ بنگالی باغیوں خے پاس لوٹے ہوئے اسلحہ کی بھاری مقدار تھی ۔ علاوہ ازیں ہند سے بھی اسلحہ کی ترسیل بلا روک ٹوک جاری تھی۔ جو اسلحہ پکڑا جاتا وہ عموماً ہند یا کسی مشرقی یورپی ملک یا روس کاہوتا ۔ مشرقی پاکستان میں سب سے زیادہ ظلم و ستم اور تخریب کافی مکتی باہنی نے کی جس کی تربیت اور جنگی کارروائیوں کا اہتمام ہند کرتا رہا ۔
امت مسلمہ کی تاریخ تو خون آلود ہے ۔8صدیاں قبل سے میرا سر جھکتا رہا ہے.......غرناطہ ہو یا بغداد .......دہلی ہو یا ڈھاکہ......یا آج کا پشاور....سکت کم ہوتی رہی ہے ۔
کوئی نہیں جو میری رہنمائی کر کے مجھے پاؤں پر کھڑا کرسکے۔ آرمی پبلک اسکول میں خون میں لت پت ہوجانے اور پھر اپنی دیوار جاں ، اپنی سر زمین کا رزق بنادینے والے میرے وطن کے بچے! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی امان میں جگہ دے ، تمہاری طرح کے یہاں رہ جانے والے کروڑوں معصوم بچوں کے ہمراہ میں اس وقت کا منتظر رہوں گا جب ہمارے رہنما اپنے تجارتی سود و زیاں کا سوچنا ترک کر کے دشمن کا پنجہ مروڑ دیں گے اور تاریخ کا دھارانتی کروٹ لے کر روشنیاں بکھیرے گا ۔
آنسوؤں میں بھیگے کروڑوں دست ہائے دعا تمہاری مغفرت کے لئے اٹھے ہیں ۔

جاوید اقبال

Supplications for the bleeding ummah. Column: Jawed Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں