سماجی خلفشار پھیلانے میں فرقہ وارانہ طاقتیں مصروف - مودی بےبس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-20

سماجی خلفشار پھیلانے میں فرقہ وارانہ طاقتیں مصروف - مودی بےبس

communalism
بحث وہی ہے کہ نریندر مودی نے گجرات میں وزیراعلیٰ رہتے ہوئے آئین ، اقتدار اوراقدار سے بالاتر ہونے کی جو کوشش 2002 میں شروع کی تھی وہ 2014 میں کہاں پہنچی ہے۔جمعرات کو ایک ہندوتو لیڈر نے انتہائی ڈھٹائی سے کہاہے کہ مسلمان اورعیسائی ہندستان میں رہنے کے حقدار نہیں۔ یہ مودی سرکار باالفاظ دیگر ہندستان میں آر ایس ایس کی قیادت والی ہندو سرکار کے آنے کے بعدکے چھ مہینوں میں دریدہ دہنی کی لگاتار جاری وارداتوں میں سے ایک اورتازہ ترین ہے۔سوال یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں کیاکوئی معاشرہ اپنی آبادی کے ایک لائق احترام جز کو بوٹ کی نوک پررکھ کرترقی کرسکتاہے؟ جواب ہے نہیں۔اگر ترقی کے معنی سچ مچ ترقی ہیں تو ۔اگرترقی کے معنی پس روی ہے،کئی صدیاں پیچھے جاکر جینے کی للک ہے، اپنے تہذیبی سرمایہ سے انکار کی ضد ہے، مذہب کے نام پر انسان کو چھوٹا کرنے کی آرزو ہے تو اس سوال کاجواب اثبات میں ہے۔مودی سرکار میں ہندستان خوب ترقی کررہاہے۔ ترقی کایہ عالم ہے کہ جو نریندرمودی بارہ سال پہلے اپنے لیڈر اورتب کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے لئے پریشانی اورپشیمانی دونوں کاباعث تھے وہ خود اب اپنے دیگر ماتحت لیڈروں کی وجہ سے پریشانی اورپشیمانی میں ہیں۔ صرف 12 سال میں تاریخ اپنے آپ کو دہرانے کے لئے پہنچ گئی ۔ گوکہ مودی نے بی جے پی کے منتخب ممبران پارلیمنٹ اوراپنی کابینہ کے وزراء کو نام لئے بغیر حد پار نہ کرنے اور لکشمن ریکھا کے اندر رہنے کامشورہ دیا ہے لیکن وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی بات کوئی نہیں سنے گا کیوں کہ سب کے سب ان ہی کے دکھائے ہوئے راستے پرچل رہے ہیں۔ یہ بہرحال ایک سچ ہے کہ تقریباً تین دہائی کے بعد ہندستانی ووٹرنے کسی ایک پارٹی کو بھرپوراکثریت دے کرمرکز میں حکومت کرنے کااختیاردیا ہے لیکن اسی بھرپور اکثریت کی وجہ سے وہ عناصر بے لگام ہوگئے ہیں جنہیں اس سے پہلے زبان کھولنے میں تکلف ہوتاتھا۔مجلسوں میں ہندومسلمان کی بات ادھر کے بیس برسوں میں ہونے لگی ہے لیکن جس پیمانے پر نفرت کازہر اگلاجارہاہے اس کی نظیر اب سے پہلے کبھی نہیں ملتی۔یہ واضح اکثریت کاکمال ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں اورخاص کر سادھو سنت سماج کے لیڈروں کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مودی توا کے ساتھ اچھی حکمرانی اورترقیاتی ایجنڈے کاجو منترآیاہے وہ ہندو تو سے طاقت پاتاہے۔مئی میں نریندر مودی اقتدار میں آئے اور تب سے 6 مہینوں میں دو متضاد موقف پرحکومت اورحکمراں جماعت اورحکمراں ٹولہ سب چل رہے ہیں۔ مودی نے اس کو اچھی طرح سمجھا ہے کہ وزیراعظم ہونے کے ناطے اب وہ ایسا کوئی موقف اختیارکرنے کے اہل نہیں رہ گئے ہیں جیساموقف انہوں نے گجرات میں وزیراعلیٰ رہتے ہوئے اختیارکیاتھا۔جس پر ابھی یعنی سولہویں لوک سبھا کے انتخابات کی مہم تک ڈٹے ہوئے تھے ۔لیکن وزیراعظم بننے کے فوراً بعدنریندرمودی نے اپنا لہجہ اوراپنی لفظیات بدلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سب کاساتھ ، سب کاوکاس کانعرہ دیا یہ کہا کہ وہ ترقی اوراچھی حکمرانی کے طرف دار ہیں۔ ان کے بارے میں جوعوامی تناظر بناہواتھا ،مودی نے اس سے مطابقت نہیں کی یعنی وہ ایک ہمہ گیر ترقی کاایجنڈا لے کر آئے اور اس کااعلان کیاکہ ملک کو پھر اونچی شرح نمو پر لے جانے کے لئے وہ دس سال تک ذات پات اورمذہب کے بھید بھاؤ سے پنپنے والی سیاست پر رضاکارانہ پابندی لگاناچاہتے ہیں۔یہ 16 مئی 2014 کے بعد کاچہرہ ہے۔ اس سے پہلے کاچہرہ کرخت ہندوتو چہرہ ہے جس نے ہندستان میں ہرسو میں اٹھارہ ووٹر کو نریندرمودی کی طرف راغب کیا اوربی جے پی کی سرکاربن گئی ۔ سرکار بننے کے بعد یہ نیامکھوٹا چڑھایاگیا ہے۔ اتفاق سے نریندرمودی بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں جن کو آرایس ایس نے پرورش کرکے یہاں تک پہنچایاہے۔ اب یہ مرحلہ آگیا ہے کہ مودی کو اس کافائدہ ملے کہ وزیراعظم ہونے کے ناطے وہ ملک کو توڑنے کی نہیں جوڑنے کی بات کررہے ہیں اورنئی پوزیشن اورنئے رول میں ان کے اندرایک نئی شخصیت ابھری ہے لیکن سچ یہی ہے کہ اس طرح سے سوچنا کازیاں ہے۔کیوں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ مرکز میں وزیرکے عہدے پرفائز کوئی خاتون ،جو اپنے نام کے ساتھ سادھوی بھی لکھتی ہو،کسی تقریب میں رام زادے اورحرامزادے جیسے الفاظ استعمال کرے گی ۔ کیا یہ سوچا جاسکتاہے کہ لوک سبھا کاایک رکن جو اتفاق سے پھرایک بار سادھو ہے اور ساکشی مہاراج کے نام سے جاناجاتاہے، مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کومحب وطن کہے گا۔کیااس کاکوئی تصور ہے کہ گورنر کے عہدے پر فائز رام نائک اپنے آئینی عہدے کااحترام بھلاکر آرایس ایس کی آئیڈیولوجی کی پرچم برداری کریں اوراجودھیا میں رام مندر تعمیر کرنے کی بات کریں جب کہ انہیں معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ موضوع آتاہے فرقہ وارانہ جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں۔مودی سرکار کے آنے سے پہلے اٹل بہاری واجپئی کی 6 سال کی تین حکومتوں میں وزارتی عہدوں پررہنے والی سشما سوراج بھگوت گیتاکو قومی کتاب قرار دینے کا مطالبہ کرسکتی ہیں انہوں نے کیا۔وی ایچ پی نے اورآرایس ایس کی دیگر ہمشیر تنظیموں نے جبری تبدیل مذہب کے ذریعہ عیسائیوں اورمسلمانوں کو پھر سے ہندو بنانے کے لئے پرکھوں کی گھرواپسی کے کیمپ لگانے شروع کئے جب کہ ان کاتصور نہیں کیاجاسکتاتھا۔لو جہاد کے نام پر بھرے بازار میں نوجوانوں کی پٹائی ہورہی ہے۔ واجپئی کی سالگرہ منانے کے لئے اسکولوں کو 25 دسمبرکو کرسمس کے دن کھلے رکھنے کے سرکلر جاری کئے جارہے ہیں اورسنسکرت کونصاب میں تیسری زبان کی حیثیت سے شامل کرنے کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ایسے ہرموقع پر اپوزیشن بی جے پی کوگھیرتی ہے۔خاص کر راجیہ سبھا میں جہاں حکمراں جماعت اکثریت میں نہیں ہے۔چار دن سے راجیہ سبھا کااجلاس ہردن ملتوی ہورہاہے صرف اس سوال پر کہ تبدیلی مذہب کے سلسلے میں بحث کی جائے اوروزیراعظم اپنا بیان دیں۔اس وقت نریندر مودی کے سامنے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ان تمام بیانات اورسرگرمیوں سے اپنے آپ کو بے تعلق کریں۔ بی جے پی کے لیڈروں کو لکشمن ریکھا پارنہ کرنے کی ہدایت یہی بے تعلق ہونے کی ایک کوشش ہے۔جبری تبدیل مذہب کے سوال پر پارلیمنٹ میں ان کابیان یقیناًدوسری کوشش ہوگا۔یعنی یہاں صیاد خود اپنے جال میں پھنسا ہواہے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Communal forces engaged in spreading social unrest. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں