ادھر کچھ دنوں سے سمیناروں کی باڑھ آگئی ہے ۔ ساہیتہ اکادمی ، اردو اکادمی، غالب انسٹی ٹیوٹ اور غیر فعال انجمن ترقی اردو کی جانب سے سمینار کرائے جارہے ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ان تمام سمیناروں کو مالی امداد فراہم کراتا ہے اور خود اپنے دفتر مین مختلف طرح کے موضوعات پر چنندہ لوگوں کو مدعو کرتا رہا ہے ۔ تمام سمیناروں اور اجلاس میں جب آپ شرکت کریں گے تو یہ دیکھ کرحیران رہ جائیں گے کہ اسٹیج پر براجمان حضرات سمیت سامعین کے ایک سے ہی چہرے ملیں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرسودہ اور روایتی موضوعات پر سمینار میں شرکت کرتے کرتے سب لوگوں کے کان پک گئے ہیں اردو سے محبت کرنے والوں نے اس سے دوریاں بھی بنالی ہیں ۔ اس لئے سامعین کو سمینار ہالوں میں لانے کی ذمہ داری مقررین کے ہی سپرد کردی گئی ہے۔ دہلی یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات اپنے اپنے طلباء کو سمینار میں شرکت کے لئے دباؤ بھی بناتے ہیں اور انہیں مجبور بھی کرتے ہیں ۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ جن لوگوں کو یونیورسٹیاں خود لاکھوں روپے دیتی ہیں، اسے سمینار کے منتظمین بھی چیک تھماتے ہیں اور جو بچے بڑی مشکل سے اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں اپنا پیسہ لگا کر اس میں شرکت کرنی پڑتی ہے ۔ اکادمیاں اور تنظیمیں کبھی طلباء کے لئے سمینار منعقد نہیں کرتیں ۔ ایک سمینار نئے اور پرانے چراغ کے نام پر یونیورسٹیوں کے استاذ جگہ چھیک لیتے ہیں۔ہونا یہ چاہیے کہ ان اداروں اور تنظیموں کی جانب سے اردو کے طلباء کی حوصلہ افزائی کے لئے ہر ماہ کسی نہ کسی موضوع پر مقابلہ شروع کیاجائے اور اس کی نگرانی کے لئے کسی ایک ماہر کو بلالیاجائے ۔ سال میں تین یونیورسٹیوں کے ایم اے ٹاپرس کو اردو اکادمی کی جانب سے اعزازسے نوازدیاجاتا ہے ۔ اور ذمہ داری پوری کردی جاتی ہے ۔
سمینار کے موضوعات ، غالب، میر، حالی، شبلی ، خواجہ احمد عباس ،کرشن چندر اور ایسے ہی اردو کے کچھ معماروں پر مبنی ہوتے ہیں ، ذرا سوچئے! انہوں نے جو کارنامے انجام دے دئے اور جو تصانیف پیش کردیں، اس کا صفر فیصد بھی ان کے بعد کے لوگوں اور خاص کر لاکھ روپے ماہانی پانے والے پروفیسروں نے پیش کیا۔ کئی پروفیسر حضرات تو بغیر کوئی کتاب لکھے ریٹائر ہوگئے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ ریٹائر منٹ کے بعد ایک ہی نہیں اردو کے دو دو اداروں پر قبضہ تک جما لیا۔ آج کے دور میں سمینار کسی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے قطعی نہیں ہونا چاہئے بلکہ اردو کی ترقی اور اسے روزگار سے جوڑنے کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے ہونا چاہئے ۔ ایک ایسی حکمت عملی جس میں اردو کی بقاء اور اردو پڑھنے والے طلباء کو روزگار فراہم کرانے کے لئے حکومت سے لڑنے اور یہاں تک کہ ریلیاں نکالنے کے لئے تیار کرنے کے لئے ہونا چاہئے ۔ چیک لینے اور سامعین کو مرغا بریانی کھلاکر بجٹ کو ختم کرنے کا دور اب نہیں ہے۔ اب سنجیدہ ہوکر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت میں اردو کا تحفظ کیوں کرکیا جاسکتا ہے ۔ اب ضرورت ہے کہ جدید سائنسی معلومات کو آسان کرکے اردو میں لکھاجائے اور کتابوں کا پڑھنا اور خریدنا اتنا ہی اہم سمجھاجائے جیسے کہ کپڑے ، جوتے، زیور اور دیگر لوازمات کو سمجھاجاتا ہے ، جو کچھ بھی وقت کے ساتھ نہیں چلتا ، وقت اس کو روندتا ہوا گزر جاتا ہے ۔ اردو کو روزگار سے جوڑنے کے مسئلے پر خوب باتیں ہوتی ہیں۔ مقالے پڑھے جاتے ہیں، سفارشیں اور قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور پھر چند گھنٹوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد اس معاملے کو طاق نسیاں کی زینت بنادیاجاتا ہے ۔ یہ معاملہ گھوم پھر کر پھر وہیں آجاتا ہے جہاں ان ہنگاموں سے قبل تھا۔ روزگار سے اردو کے تعلق کا گراف اوپر اٹھنے کے بجائے مزید نیچے چلاجاتا ہے ۔ جنوبی ہند میں صورتحال پھر بھی کچھ غنیمت ہے لیکن شمالی ہند میں جو کہ کبھی اس کا گھر آنگن ہوا کرتا تھا ، حالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ اردو کو روزگار سے جوڑنے کی باتیں حکومتی سطح پر بھی کی جاتی ہیں اور غیر حکومتی سطح پر بھی ۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔ ان روایتی سمیناروں کو بند کیجئے اور اس کی جگہ اردو تحریک پر مبنی سمینار کیجئے جس میں آئندہ کی حکمت عملی طے ہو ۔ لیکن اس سے پہلے اکادمیوں اور اداروں کا انتخابی عمل شفاف بنانے کی ضرورت ہے ۔ بند کمروں میں صدر اور چیئرمین کا تقرر اردو کے علاوہ اور کہاں ہوتا ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اردو کے اداروں کی ممبر شپ میں بھی شفافیت نہیں ہے۔ اس معاملہ میں بھی یہ دیکھاجاتا ہے کہ یہ شخص جو ممبر بننے آیا ہے وہ ووٹنگ کے وقت کس کا ساتھ دے گا۔ یہ کس طرح کا ضابطہ ہے کہ لائف ٹائم کے لئے کوئی صدر بن جائے اور لائف ٹائم کے لئے کوئی سکریٹری منتخب ہوجائے ۔ سرکار کا فنڈ ہو اور عوام کو ہی ان سب سے دور رکھاجائے۔ اردو سے محبت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ ان تمام اداروں سے حساب کتاب مانگیں۔ اگر وہ نہیں دیتے تو پی آئی ایل داخل کریں ۔ آر ٹی آئی سے معلومات حاصل کریں ۔ اتنا تو سمجھ ہی لیجئے کہ پہلے اردو ادیبوں کا گروپ ہوا کرتا اب اردو کے تاجروں کا گروہ پیدا ہوچکا ہے ۔ جو کچھ لوگوں کو نواز کر اپنا الو سیدھا کررہے ہیں ۔
***
زین شمسی
زین شمسی
زین شمسی |
Seminars and Mushaira puts Urdu on the verge of collapse. Article: Zain Shamsi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں