جیسا کہ واضح کیا گیا کہ مختلف کمیٹیوں کی رپورٹوں سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت خطِّ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اس کی تعلیمی اورمعاشی و اقتصادی حالت بہتر نہیں ہے، انھیں میدان میں آگے آنے کے لیے ریزرویشن کی نہایت ضروری ہے۔ ریزرویشن کی مخالفت کرنے والے یا اس طرف توجہ نہ دینے والے مسلمان بھلے ہی اس نکتہ کو نہ سمجھتے ہو، لیکن برسر اقتدار حکومت اور اغیار اس نکتہ کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ ہمیشہ چالاکی سے اس میں روڑھا بھی اٹکاتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جب مہاراشٹر کی سابقہ کانگریس و این سی پی حکومت نے مراٹھوں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا، اُسے پہلے تو ہائی کورٹ میں چیلینج کا سامنا کرنا پڑا، جس میں عدالت نے مراٹھوں کا ریزرویشن مکمل طور پر مسلمانوں کا ریزرویشن جزوی طور پر ختم کر دیا، پھر اس پر کمال دیکھیے کہ جب یہ مطالبات کیے جانے لگے کہ نئی حکومت اس تعلق سے اسمبلی میں بل لے آئے اور اس ریزرویشن کو قانونی حیثیت دے، تو ریاستی حکومت نے دوغلے پن کا مظاہر کرتے ہوئے اپوذیشن کی مخالفت اور واک آؤٹ کے باوجود مراٹھوں کو دیا گیا رزرویشن تو بل کی صورت میں لاکر بحال کر دیا، جب کہ مسلمانوں کے تعلق سے منہ سی کر بیٹھ گئی۔ پوری اپوذیشن بشمول کانگریس، این سی پی، سماج وادی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین نے اسمبلی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس بل میں مسلمانوں کے لیے بھی تحفظات فراہم کیے جائیں، لیکن اس پر کان نہیں دھَرا گیا۔ دریں اثنا ایوان کو تین مرتبہ پندرہ منٹ کے لیے ملتوی بھی کرنا پڑا اور آخرکار اپوذیشن نے واک آؤٹ کر دیا۔
ظاہر ہے کہ یہ حکومت کی بد نیتی، جانب داری، تعصب پرستی اور مسلم دشمنی کا واضح ثبوت ہے، ورنہ ایک ساتھ ہوئے ایک ہی طرح کے اعلان میں کیوں اس طرح واضح فرق کیا گیا؟ اگر آپ ہماری باتوں کو واقعی غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں اور ہم دل سے اس کے متمنی ہیں کہ ہماری یہ باتیں غلط ثابت ہوں، تو اُس کے لیے حکومت کو فوری طور پر مسلم ریزرویشن کو بھی قانونی حیثیت دینی ہوگی۔ورنہ ہمیں کہنے دیجیے کہ یہ مسلم دشمنی کا وہ چہرہ ہے، جس پر پڑی نقاب کو حالات کی تند و تیز ہوا نے اُڑا کر بے نقاب کر دیا ہے۔مودی سرکار کے بڑ بول "سب کا وکاس، سب کے ساتھ" کو بالکل جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔بلکہ یہ اصلاً عدلیہ کے ساتھ بھی ایک کھلواڑ اور بھونڈا مذاق ہے کہ جس کے رزرویشن کو وہ برقرار رکھے، اُسے آپ مسترد کر دیں اور جسے وہ مسترد کرے، اُسے آپ بحال کر دیں۔ جیسا کہ اپوذیشن کا بھی کہنا ہے کہ اس تعلق سے بر سر اقتدار فریق نے محض من مانی کی ہے۔ ہمیں تو حیرت اس پر ہے کہ جب قانون ساز اسمبلی ممبران کا عدلیہ کے تئیں یہ رویہ ہے، تو ایک عام شہری کے دل میں عدلیہ کی کیا وقعت و عزت باقی رہے گی؟
***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
![]() |
مولانا ندیم احمد انصاری |
The issue of muslim reservations in Maharashtra. Article: Nadim Ahmed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں