پارلیمنٹ میں کام کاج ٹھپ - مودی سرکار چھ مہینے میں ہی بےبس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-23

پارلیمنٹ میں کام کاج ٹھپ - مودی سرکار چھ مہینے میں ہی بےبس

Parliament-Disruptions-Modi-govt-helpless
کسی پالیسی اورپروگرام کے بغیر حکومت چلانے کی آرزو کیسی مشکلات سے دوچارکرتی ہے ا س کااندازہ جتنا وزیراعظم نریندرمودی کوہورہاہے کسی کو نہ ہواہوگا۔ من کی ترنگ،90 سال پرانے ایجنڈے پر بالکل بدلے ہوئے حالات میں کام کرنے کادباؤ، ترقی کے بنیادی فلسفے کو سمجھے بغیر ترقیاتی ایجنڈا اپنانے کاسوانگ اور ہرطرف پھیلاہوا خلا، اس وقت نریندرمودی کے سامنے ایک ایسا سچ بن کرآیاہے جس کاسامناکرنے میں انہیں دشواری ہورہی ہے۔اقلیت دشمنی خاص کرمسلم دشمنی کی بنیاد پر الیکشن جیت کراقتدار میں آنا جتنا آسان ہے ، اقتدار میں آئینی تقاضوں کاپابند رہ کر برقرار رہنا اتناہی مشکل ہے۔مودی جب آئے تھے توہندستانی معاشرے کاسمجھدار طبقہ کسی طرح کی ضد یاچڑ کے بغیراقتدار میں بی جے پی کی آمد کوعوامی فیصلہ مان کران کاخیرمقدم کرنے کو تیارتھا۔ایسے دانشوروں کی تعداد کم نہیں ہے جن کی سوچ یہ تھی کہ مودی گجرات میں برسراقتداررہتے ہوئے جوکچھ کرچکے ہیں اس سے زیادہ نہیں کریں گے۔ شاید یہ ممکن بھی نہیں ہے لیکن ان چھ مہینوں میں بہت بڑے پیمانے پر خیرسگالی اورغیراعلان شدہ درگزر کے باوجود نریندرمودی کو نہ توان کاماضی چھوڑ رہاہے نہ ان کاحال ان کے بس میں ہے نہ وہ مستقبل کی صورت گری کرنے کے اہل ہیں۔منموہن سنگھ نے گدی چھوڑنے کی دھمکی ترقی پسنداتحاد کے اقتدار کے دوردوئم میں بہت بعدمیں دی تھی ۔وہ مخلوط حکومت کی مصلحت اورمجبوریوں سے اوبے ہوئے تھے ۔ نریندرمودی نے چھ مہینے میں ہی واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں رہتے ہوئے گدی چھوڑنے کی دھمکی دی اوراس کااثر کسی نے نہیں لیا۔نہ تو وشو ہندوپریشد ان کی بات سننے کو تیارہے، نہ آرایس ایس نہ جاگرن سمیتی نہ کوئی اورہندو تنظیم۔جب کہ نریندرمودی ہندوستان میں ان تمام طاقتوں کا مکمل چہرہ اورپیکر ہیں۔مودی بحیثیت وزیراعلیٰ ، مودی بحیثیت پی ایم امیدوار اورمودی بحیثیت وزیراعظم جن تین ارتقائی مراحل سے گزرکر یہاں تک پہنچے ہیں جہاں نہ پارلیمنٹ کے اندر ان کی بات سنی جارہی ہے نہ پارلیمنٹ کے باہر وہاں یہ دیکھنا بہت ضروری ہوگیاہے کہ محض عوامی جذبات کو مشتعل کرکے اقتدار تک آنے والی پارٹی یالیڈر کے سامنے راستے اورسمت کی گمشدگی سے نکلنے کا کیاراستہ ہے؟ اس ہفتے دودن کام کاج کے بعد پارلیمنٹ کاسرمائی اجلاس مکمل ہورہاہے۔ راجیہ سبھا پچھلے ہفتے سے ہی نہیں چل رہی ہے۔ اجلاس پوری طرح ٹھپ ہے۔ لوک سبھا میں بھی شوروغل کے سوا کچھ اورنہیں ہورہاہے ۔ سوال یہ ہے کہ قانون سازی کاکام پارلیمنٹ میں روکنے کیلئے کون ذمہ دار ہے۔ مرکزی وزراء اپوزیشن کو ذمہ دار کہتے ہیں ،اپوزیشن حکومت کو ذمہ دار گردان رہی ہے لیکن اصل ذمہ دار وہ بے لگام طرز فکرہے جس کی پہچان کیلئے ہندو طالبانیت کی اصطلاح زیادہ مناسب ہے۔ ہندو طالبانی پورے ہندستان کو ہندو راشٹر بنانے پرتلے ہیں۔ جب کہ آئینی اعتبار سے ہندستان ایک جمہوری ملک ہے اوربعد میں کی گئی ایک آئینی ترمیم کے تحت اب سیکولر ملک بھی ہے۔ ہندستان کی سیکولر جمہوری پہچان مٹانے کی کوئی کوشش وہ ہندستانی بھی پسند نہیں کرے گا جوادھر کے تیس برسوں سے مخلوط حکومت کی مصلحتوں اورمجبوریوں میں دبی ہوئی مرکزی حکومتوں کو بے دم ہوتاہوا دیکھ کر پہلی بار ایک مستحکم حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کوبھرپوراکثریت دے کر اقتدار میں لے آیا۔بی جے پی کاایک نعرہ کانگریس مکت ہندستان ہے ۔ ہندستان کانگریس سے مکت نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ کانگریس ایک اہم سیاسی فکری دھارا ہے اور اقتدار میں ہونے یانہ ہونے کی دونوں صورتوں میں اس کی موجودگی محسوس ہوگی۔ نریندرمودی نے ذہنی طورپر اپنی تربیت کئے بغیر ملک کے وزیراعظم کاعہدہ سنبھالا اورفکری طورپر آرایس ایس کے پرچارک رہے یعنی شروع سے ہی ان کی فکرمندیوں میں سنگھ کی فکر مندیاں شامل ہیں سنگھ سے باہر کے ہندستانی معاشرے کی فکرمندی سے وہ واقف نہیں ہیں۔پلاننگ کمیشن توڑنے کااعلان ویسے تو ایک انقلابی قدم لگاتھا لیکن ااس کے اندرنہروین لائن سے الگ ہونے اورکانگریس کے دورمیں بنائے گئے اداروں کومنہدم کرنے کاوہ رجحان چھپاہواتھا جو اب سب کچھ منہدم کرنے پرتلاہواہے۔ظاہر ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کسی نظام کے اندر تو بھاری پڑ سکتی ہے پورے ملک پرغالب نہیں ہوپاتی۔اپوزیشن نے جوان گنت خیموں میں بٹی ہوئی ہے ایک ہونے کافیصلہ کیا توپارلیمنٹ کے دونوں ایوان ٹھپ کردئے۔مودی کو اس سے سبق لیناچاہئے اوربھارتیہ جنتاپارٹی کواس پرغورکرناچاہئے کہ وہ قوم دشمن اورسماج دشمن ایجنڈے کو قوم پرستی کانام دے کرتھوڑی دیر کے لئے اپنی تسلی کرسکتی ہے ہندستانی عوام ایسی کسی شدت پسندی کاساتھ دینے کونہ کل تیار تھے نہ آج ہیں۔اگر شدت پسندی کی حمایت کرنی ہوتی تو رام مندر،دفعہ 370 اوریکساں کوڈ بل بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے میں مردہ شقوں کی طرح موجود نہ رہتے ۔ نہ ہی سنگھی تنظیموں کو لو جہاد اور پرکھوں کی گھرواپسی جیسے نئے پینترے اپنانے کی ضرورت پیش آتی۔ سب کاساتھ سب کاوکاس کے نعرے کو نریندرمودی صدق دلی سے اپنانعرہ بنائیں اور شدت پسند طاقتوں کو ان کی اوقات بتادیں کیوں کہ جیسے وہ واجپئی کے قابو میں نہیں آئے تھے ویسے ہی دوسرے لوگ ان کے قابو سے باہرہوجائیں گے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Disruptions in the Parliament and the helplessness of Modi govt. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں