سوامی لکشمی شنکر اچاریہ نے مزید کہا کہ : ہندو مذہب کا نام لے کر منافرت پھیلانے والے اصلی ہندو نہیں ہوسکتے ، کیوں کہ سناتن دھرم کی بنیادی تعلیمات میں یہ ہے کہ ایشور سے تعلق پیدا کرنے کے لئے انسانیت کا احترام ضروری ہے ، اس کے بغیر کوئی ایشور کا مقرب نہیں بن سکتا، اس کے علاوہ ہندو مذہب کے مشہور عالم سوامی سروانند سرسوتی نے بھی ملک کی یکجہتی کے بقا پر زور دیا اورکہا کہ نفرت پھیلانے والے سچے ہندوستانی نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کسی مذہب کا سچا پیروکار، انہوں نے مزید کہاکہ: اس ملک میں ہزاروں برس سے مختلف طبقات مل جل کر رہتے ہیں ، اس موقع سے مختلف مذہبی رہنما اور ججس اور مسلم اور عیسائی مذہبی رہنما بھی موجود تھے ۔
آج اس وقت ہمارے ملک کو ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقہ وارنہ ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے بقا اور تحفظ کے لئے ملک کے باشندوں کو دعوت دی جائے ،نہ کہ نفرت اور عداوت اور آپسی بھید بھاؤکی، آپسی نفرت اور فرقہ واریت کا نقطہ نظر یہ بہت بھیانک اور ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ کا باعث ہوسکتا ہے ، اس کے لئے مسلمان علمائے دین، قائدین ملت، ہندو اور دیگر مذاہب کے رہنماؤں کو آگے آنے کی ضرورت ہے اور ملک میں اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسہ کی فضا کو عام کرناہے ، یہ تحریکیں ہندوستان میں پہلی بار نہیں چلیں اس سے قبل بھی ضرورت پڑنے پر اس قسم کی تحریکوں کا سہارا لیا گیااور ملک کی فضاء کو ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، ڈاکٹر محمود صاحب( جو ہندوستان کے وزیر امور برائے خارجہ اور دیگر عظیم عہدوں پر فائز رہے ) انہوں نے یہ ہندومسلم اتحاد اور فرقہ وارنہ ہم آہنگی کی تحریک ۱۹۶۴ء میں چلائے تھی، جس میں حضرت مولانا بو الحسن ندوی، مولانا منظور نعمانی ، مولانا ابو اللیث (جماعت اسلامی) وغیرہ شامل تھے انہوں نے سارے ہندوستان بشمول بہار، بھوپال، کرناٹک ،حیدرآباد، یوپی سمیت مختلف جگہوں کا دورہ کر کے وہاں کے ہندو رہنماؤں اور سیاسی قائدین کو لے کر مختلف پروگرام منعقد کئے تھے ، جس کاکافی اچھا اثر پڑا تھااور ملک کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں اتحاد اور یکسانیت کی فضانظر آرہی ہے ، اس طرح کے پروگراموں کے منعقد کرنے کی اس وقت سخت ضرورت ہے ؛ تاکہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھا جاسکے ، میں نے کئی جگہ پڑھا ہے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منظور نعمانی کے اس حوالے سے ملک کے طول وعرض میں طوفانی دوروں اور ہندو مذہبی رہنماؤں سے ان کی ملاقات وغیرہ کی داستانیں ہندوستان کے طول وعرض میں ابھی تک مختلف ہندو رہنما دلچسپی سے سناتے ہیں ، خصوصا مولانا ابو الحسن ندوی کی اس فکر وتڑپ اور ملک کی سالمیت اور اتحاد کے بقا کے لئے ان کے دورں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں سچا محب وطن قرا ر دیتے ہیں ، اس لئے چپ سادھے رہنے کے بجائے اس طرح کے ملک کے مختلف گوشوں میں پروگرامس کے منعقد کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ اتحاد واتفاق کے ثمرات سے ملک کی عوام واقف ہو ، وقتی اور جذباتی رو میں بہہ کر ملک کی فرقہ وارنہ ہم آہنگی کا سودا نہ کر بیٹھے ، جمیعۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی اور دیگر مشارب ومذاہب سے وابستہ رہنما اس سلسلے میں بڑا کام کرسکتے ہیں ، اس سے نہ صرف یہ کی ملک کے اتحاد کے بقا کاکام ہوگا؛ بلکہ مسلمانوں کے تئیں دوسرے مذاہب کے لوگوں میں اچھا پیغام جائے گااور اسلام کے امن پسند ہونے کاپتہ چلے گا ’’الحق یعلو ولا یعلی ‘‘ کے مصداق حق اور صداقت کی جیت ہوگی اور باطل اپنی موت آپ مر جائے گا۔
اس لئے اس وقت مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ؛ بلکہ اسلام کے امن وآشتی، بھائی چارہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس میں دیگر برادران وطن کو شامل کر کے اس کے عام کرنے کی ضرورت ہے ، مثبت پہلو ہی کامیابی وکامرانی کا ضامن ہوتا ہے ، منفی پہلو سے کبھی بھی کامیابی ہاتھ نہیں آتی ۔
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
![]() |
رفیع الدین حنیف قاسمی |
Need to struggle for communal harmony. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں