ملک کے فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے جدوجہد کی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-01

ملک کے فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے جدوجہد کی ضرورت

communal-harmony
اب اس وقت ملک کو فرقہ واریت، گروہ بندی ، عصبیت اورمنافرت کے ماحول سے نکال کر اتحاد واتفاق، یکجہتی ، بھائی چارگی اور یکسانیت کی راہ پر لانے کی ضرورت ہے ، لیکن اس وقت کچھ گنے چنے مٹھی بھر لوگ جو ملک کی سالمیت اور اتحاد کو برقرار رکھنا نہیں چاہتے، ہندوستان کو جو ہمیشہ ہی سے مختلف تہذیبوں کا سنگم اور گہوارہ رہاہے ، یہاں کی کثرت میں ہی وحدت رہی ہے، اس ملک کی امن وآشتی کی فضا کو مکدر کر کے یہ زہر گھولنے کی کوشش کر رہے کہ ہندوستان ہندوراسٹر ہے ، یہ اس کو ہندو راسٹر بنانے کا پلان کر رہے ہیں ، یہ ملک کی سالمیت اور اس کی امن وامان کی فضا کو مکدر کرنے والے ملک کے وفادار تو نہیں ہوسکتے ، غدار وطن ہی ہوسکتے ہیں ، جو ملک کی تہذیب وثقافت اور ہزاروں صدیوں سے چلے آرہے یہاں کی مختلف المشرب اور مختلف الجہات ، نوع بنوع مذاہب کی شکل میں مختلف رنگ برنگے ، بھانت بھانت کے پھولوں سے سجے اس گلدستہ کی رونق کو ختم کرنا چاہتے ہیں، یہ حقیقت میں ملک کے بہی خواہ نہیں ؛ بلکہ حقیقت اور واقعیت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ملک کے سودے باز ہیں ، ملک کو نفرت کی آماجگاہ بنانا چاہتے ہیں ، ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر کے خاک وخون کی ندیاں بہانا چاہتے ہیں ؛ یہ کیوں کر ملک کے بہی خواہ اور ہمدرد اور اس کی سالمیت اور بقا کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ؟ نفرت، پھوٹ، ملی بھید بھاؤ، فرقہ واریت کی نہ ہی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ دیگر مذاہب اور نہ ہی یہ انسانیت کا شیوہ ہے ،اب اس وقت ملک کا ہردرمند اور بہی خواہ شہری بے چین اور بے کل نظر آرہا ہے ، ہندو نظریات کی کٹرپنتی ملک کے ہر خیر خواہ باسی کوپریشان کئے ہوئے ، اس سلسلہ میں کیرلا مولانا ابوبکر کا امن کارواں کی شکل میں جنوب کے مختلف علاقوں میں ہندومسلم یگانگت واتحاد کے لئے دورہ ہو، یا کلکتہ شہر میں منعقدہ قومی یکجہتی کنونشن کا پیغام ہو ، یا مولانا ارشد مدنی کا اتحاد کا پیغام ہویہ ساری سرگرمیاں اور ساری جدوجہد بس اسی لئے ہے کہ ملک کا اتحاد برقرار رہے ، ہندو مسلم مل جل کر متحد ہو کر زندگی گذاریں، چنانچہ ہندو مذہب کے مشہور عالم اور رہنما سوامی لکشمی شنکر اچاریہ کا مذکورہ کنونشن میں بیان بھی اسی پس منظر میں ہے کہ اس وقت ملک کا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول ختم کرنے کی کوشش تشویشناک ہے ، اس سے ملک اور تقسیم کی طرف بڑھ رہاہے ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام مذاہب کے رہنما سامنے آئیں اور قومی یکجہتی کے قیام میں کلیدی رول ادا کریں،یہ کنونشن کلکتہ شہر کے کلا مندر میں منعقد ہوا تھا جس میں ہزاروں افراد کو حلف دلایاگیا کہ ملک کی اکھنڈتا، ایکتا قومی یکجہتی ، بھائی چارہ اور حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کریں ، ساتھ ہی ملک بھر میں فرقہ واریت میں اضافے کے خلاف قومی یکجہتی کارواں نکالنے کا بھی اعلان کیا گیا۔
سوامی لکشمی شنکر اچاریہ نے مزید کہا کہ : ہندو مذہب کا نام لے کر منافرت پھیلانے والے اصلی ہندو نہیں ہوسکتے ، کیوں کہ سناتن دھرم کی بنیادی تعلیمات میں یہ ہے کہ ایشور سے تعلق پیدا کرنے کے لئے انسانیت کا احترام ضروری ہے ، اس کے بغیر کوئی ایشور کا مقرب نہیں بن سکتا، اس کے علاوہ ہندو مذہب کے مشہور عالم سوامی سروانند سرسوتی نے بھی ملک کی یکجہتی کے بقا پر زور دیا اورکہا کہ نفرت پھیلانے والے سچے ہندوستانی نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کسی مذہب کا سچا پیروکار، انہوں نے مزید کہاکہ: اس ملک میں ہزاروں برس سے مختلف طبقات مل جل کر رہتے ہیں ، اس موقع سے مختلف مذہبی رہنما اور ججس اور مسلم اور عیسائی مذہبی رہنما بھی موجود تھے ۔
آج اس وقت ہمارے ملک کو ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقہ وارنہ ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے بقا اور تحفظ کے لئے ملک کے باشندوں کو دعوت دی جائے ،نہ کہ نفرت اور عداوت اور آپسی بھید بھاؤکی، آپسی نفرت اور فرقہ واریت کا نقطہ نظر یہ بہت بھیانک اور ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ کا باعث ہوسکتا ہے ، اس کے لئے مسلمان علمائے دین، قائدین ملت، ہندو اور دیگر مذاہب کے رہنماؤں کو آگے آنے کی ضرورت ہے اور ملک میں اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسہ کی فضا کو عام کرناہے ، یہ تحریکیں ہندوستان میں پہلی بار نہیں چلیں اس سے قبل بھی ضرورت پڑنے پر اس قسم کی تحریکوں کا سہارا لیا گیااور ملک کی فضاء کو ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، ڈاکٹر محمود صاحب( جو ہندوستان کے وزیر امور برائے خارجہ اور دیگر عظیم عہدوں پر فائز رہے ) انہوں نے یہ ہندومسلم اتحاد اور فرقہ وارنہ ہم آہنگی کی تحریک ۱۹۶۴ء میں چلائے تھی، جس میں حضرت مولانا بو الحسن ندوی، مولانا منظور نعمانی ، مولانا ابو اللیث (جماعت اسلامی) وغیرہ شامل تھے انہوں نے سارے ہندوستان بشمول بہار، بھوپال، کرناٹک ،حیدرآباد، یوپی سمیت مختلف جگہوں کا دورہ کر کے وہاں کے ہندو رہنماؤں اور سیاسی قائدین کو لے کر مختلف پروگرام منعقد کئے تھے ، جس کاکافی اچھا اثر پڑا تھااور ملک کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں اتحاد اور یکسانیت کی فضانظر آرہی ہے ، اس طرح کے پروگراموں کے منعقد کرنے کی اس وقت سخت ضرورت ہے ؛ تاکہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھا جاسکے ، میں نے کئی جگہ پڑھا ہے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منظور نعمانی کے اس حوالے سے ملک کے طول وعرض میں طوفانی دوروں اور ہندو مذہبی رہنماؤں سے ان کی ملاقات وغیرہ کی داستانیں ہندوستان کے طول وعرض میں ابھی تک مختلف ہندو رہنما دلچسپی سے سناتے ہیں ، خصوصا مولانا ابو الحسن ندوی کی اس فکر وتڑپ اور ملک کی سالمیت اور اتحاد کے بقا کے لئے ان کے دورں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں سچا محب وطن قرا ر دیتے ہیں ، اس لئے چپ سادھے رہنے کے بجائے اس طرح کے ملک کے مختلف گوشوں میں پروگرامس کے منعقد کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ اتحاد واتفاق کے ثمرات سے ملک کی عوام واقف ہو ، وقتی اور جذباتی رو میں بہہ کر ملک کی فرقہ وارنہ ہم آہنگی کا سودا نہ کر بیٹھے ، جمیعۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی اور دیگر مشارب ومذاہب سے وابستہ رہنما اس سلسلے میں بڑا کام کرسکتے ہیں ، اس سے نہ صرف یہ کی ملک کے اتحاد کے بقا کاکام ہوگا؛ بلکہ مسلمانوں کے تئیں دوسرے مذاہب کے لوگوں میں اچھا پیغام جائے گااور اسلام کے امن پسند ہونے کاپتہ چلے گا ’’الحق یعلو ولا یعلی ‘‘ کے مصداق حق اور صداقت کی جیت ہوگی اور باطل اپنی موت آپ مر جائے گا۔
اس لئے اس وقت مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ؛ بلکہ اسلام کے امن وآشتی، بھائی چارہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس میں دیگر برادران وطن کو شامل کر کے اس کے عام کرنے کی ضرورت ہے ، مثبت پہلو ہی کامیابی وکامرانی کا ضامن ہوتا ہے ، منفی پہلو سے کبھی بھی کامیابی ہاتھ نہیں آتی ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Need to struggle for communal harmony. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں