کتاب عرض ہے - تھوڑی سی روشنی میں پرویز مظفر کی ساری روشنی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-01

کتاب عرض ہے - تھوڑی سی روشنی میں پرویز مظفر کی ساری روشنی

thodi-si-roshni
کتاب : تھوڑی سی روشنی
مصنف : پرویز مظفر
مبصر : تحسین منور

ہم بہت دنوں سے تھوڑی سی روشنی کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔لیکن اس کو عرض کرنے کو لے کر ہمارے اندر وہ جوش وخروش اور ولولہ نظر نہیں آرہا تھا جس کو لے کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ جب کہ اس کا سر ورق دیکھیں تو وہ کافی جاذب نظر اور دلکش ہے ۔اس میں ایک سمندر یا جھیل ہے جس پر چاندنی پڑرہی ہے۔ یہ نیلگوں آبِ رواں جو ٹھہرا ہوا سا ہے یقیناً چاندنی میں ہی نہایا ہے کیونکہ اوپر بائیں جانب ایک سفید سا گولہ جس کے گرد ہلکہ ہرا سا ہالہ ہے اور پھر اس کے گرد ایک اور سفید ہالہ ہے یہ احساس دلا رہا ہے کہ یہ چاند ہے ۔کیونکہ اگر یہ روشنی آفتاب کی ہوتی تو یقیناً یہ سمندر یا جھیل کا احساس ایک ایسے منظر میں بدل گیا ہوتا جس سے ہماری یہ الجھن ضرور دور ہوجاتی ہے کہ یہ سمندر ہے یا جھیل ہے مگر جو بھی ہے ایک خوبصورت احساس ضرور پیدا ہوتا ہے اور دل میں روشنی سی پھوٹنے لگتی ہے۔ پھر آخر کیا وجہ تھی کہ ہم اس کو عرض کرنے کو لے کر اس قدر سنجیدہ نہیں ہو پارہے تھے۔ جب کہ ان کے بڑے بھائی ان سے جو بہت محبت اور شفقت رکھتے ہیں با ر بار ہر موقع پر ہمیں یہ یاد دلانے سے نہیں چوک رہے تھے کہ آپ کے پاس تھوڑی سی روشنی موجود ہے پھرآپ کیوں اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ہم نے اس پر غور کیا اور بار بار غور کیا کہ آخر ہم اس کتاب کو لے کر اتنا بھاؤ کیوں کھا رہے ہیں ۔
پرویزؔ مظفر کے چھوٹے بھائی سہیل مظفر ہمارے ساتھ جامعہ اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ واقعی پڑھتے تھے اور ہم پڑھنے کی اداکاری کرتے تھے۔ ایسے میں ان کا حق تو زیادہ ہوجاتا تھا کہ ہم اس کتاب کو عرض کر دیں لیکن پھر بھی ایسی کوتاہی ؟ کیا یہ کتاب عرض اس قدر مقبول ہوگیا ہے کہ اب ہم آسمان پر اڑنے لگے ہیں کہ مرضی ہوگی تو لکھیں گے اور اپنوں کو ہی لٹکا دیں گے۔اس سوال کا جواب ہم بار بار کھوج کر بھی نہیں کھوج پا رہے تھے۔ آپ خود بتائیے جس کتاب کے تین صفحات پلٹنے کے بعد آپ کو انتساب میں مظفر ؔ حنفی صاحب کا نام لکھا مِل جائے تو کیا آپ ہمت کریں گے اس کتاب کے بارے میں کچھ کہنے کی ۔اور وہ بھی اس انداز کے ساتھ ۔ ’’والدِ محترم پروفیسر مظفر ؔ حنفی کے نام جو عظیم شاعر اور بہت اچھے اور سچے انسان ہیں انھیں کے اس شعر کے ساتھ
تھوری سی روشنی ہے اُسے جو بھی لوٹ لے
جگنو میاں کے پاس خزانہ تو ہے نہیں
سمجھے آپ ۔ہم اس لئے ہچکچا رہے تھے کہ مظفر ؔ حنفی صاحب جیسے عظیم شاعر کے بیٹے کی کتاب پر اگر ہم نے تھوڑی سی بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی تو ہمارے اندر کے اندھیرے لوگوں پر ظاہر ہو جائیں گے کہ یہ جو خود کو بڑا مصنف سا سمجھنے لگا ہے چند کتابو ں کو الگ انداز سے عرض کرکے یہ تو اتنا بھی نہیں جانتا کہ مظفرؔ حنفی صاحب کے بیٹے کی شاعری کو کس انداز سے دیکھنا ہے۔ یقینی سی بات ہے کہ یہ ہمارالکھا حنفی صاحب تو ضرور پڑھیں گے ۔اگر انھوں نے اقبال ؔ والی چئیر پہ بیٹھ کر پڑھا تو سب سے پہلے ہمارے ہر جملے کی وہ خامیاں ان کے سامنے بے شرمی سے ننگی ہو جائیں گی جن پر ہم کسی طرح لفظوں کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں بزرگوں کے سامنے بر ہنگی کا رواج نہیں ہے اس لئے ہم تھوڑا محتاط سے ہوگئے تھے مگر اب یہ بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے اس لئے اتارنا فرض ہے۔ لیجئے تھوڑی سی روشنی عرض ہے۔
۲۰۱۲ ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب تین سو روپئے بھارتی قیمت کے حساب سے ہے ۔اگر آپ برطانیہ میں اسے خریدیں گے تب آپ کو سات پونڈ اور امریکہ میں دس امریکی ڈالر ادا کرنے پڑیں گے ۔بہتر ہے اسے یہیں خرید لیں۔ اس کتاب کا ہمارے پاس ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے پاس دس ڈالر موجود ہیں۔ جب امریکہ جائیں گے تو کیش کرالیں گے ۔موڈرن پبلشنگ ہاؤس اس کے ناشر ہیں اور یہ کتاب پریم گوپال متّل کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔ اس لئے بھی اس کتاب کو دیکھ کر اس قسم کی تحریک ضرور اٹھتی ہے کہ اس کو شائع کرواتے وقت کافی اہتمام کیا گیا ہے۔ آغاز میں ہمارے لئے سبھی محترم حضرات یعنی فرمان فتح پوری، مظفر ؔ حنفی،خالد ؔ محمود اور منور ؔ رانا صاحب نے پرویز ؔ کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے بات کی ہے۔ مظفر ؔ حنفی صاحب مگر شاعری پر بات نہیں کرتے بلکہ ایک ایسے بچے کے بارے میں بتاتے ہیں جواس قدر فرمانبردار رہا ہے کہ وطن سے دور جانے کا فیصلہ لیتے وقت بھی حکم پدر کے انتظار میں حسرت کی تصویر بنا رہا۔باہر جانے کے بعد بھی وہ آج بھی اپنی جڑوں سے جُڑا ہوا ہے۔ ان کی شاعری پر تبصرہ نہ کرتے ہوئے وہ اتنا ضرور آخر میں کہتے ہیں ۔
’’ پرویز میرا بیٹا ہے ،اس کی غزلیں بھی میں ہی درست کرتا ہوں (نظموں پر اصلاح ساقیؔ فاروقی فرماتے ہیں) پچھلے پندرہ برسوں سے میں نے اسے اپنے مجموعہ ء کلام کی اشاعت سے باز رکھا ہے تاکہ اس کی شاعری کچھ ’بالغ‘ ہوجائے۔اب اس کا مجموعہء کلام چھپ رہا ہے ۔ کون ایسا باپ ہے جو بیٹے کی شہرت اور ترقی سے خوش نہیں ہوگا۔سو میں بھی ہوں البتہ اس کی شاعری پر کچھ لکھنا ؟ میراخیال ہے یہ دوسرے ناقدین کا حق ہے کہ میں جو کچھ بھی کہوں گا اس میں معروضیت نہ ہوگی۔۔اس کی غزلوں میں جو کچا پن ہے مجھے تو وہ بھی اچھا لگتا ہے جیسے ناریل کی مزیدار کچّی گری۔آخر والدین کو اپنے بچوں کی تتلاہٹ اور معصوم شرارتوں پر بھی تو پیار آتا ہے ۔میرے منع کرنے کے باوجود وہ غزلوں میں گھوم پھر کر میرے رنگ پر جاتا ہے۔کہاوت ہے نا ’’ باپ پہ پوت پتے پر گھوڑا‘‘۔
یہ پورا پیرا گراف بار بار پڑھنے لائق ہے کہ جس میں مظفر ؔ حنفی صاحب نے کتاب پر لکھتے وقت اپنے اندر کی کشمکش کو کس انداز سے سنبھالا ہے۔انھوں نے قلم کا حق بھی ادا کیا ہے اور اپنے لختِ جگر کی الفت کا بھی اظہار کیا ہے۔ جسے وہ کچی گری کہہ رہے ہیں دراصل وہی تو پرویزؔ کا اصلی رنگ ہے۔ وہی بارش کی سوندھی سی خوشبو جو پہلی بوند کے ساتھ پیاسی دھرتی شکرانہ ادا کرتے وقت پیش کرتی ہے۔ بس اس تھوڑی سی روشنی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر مظفر ؔ حنفی صاحب نے انھیں اتنے برس نہ روکا ہوتا تو اس کی ضخامت کچھ کم ہوجاتی ۔ہمیں تو پہلی نظر میں یہ پی ایچ ڈی کا مقالہ سا لگا ۔چار سو چونسٹھ صفحات کا یہ مجموعہ کافی بھاری ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ دوچار شعرا کی کلیات سے کچھ کم ہی ہوگا یا اس کے برابر۔یہ بتاتا ہے کہ یہ شاعر کس قدر حساس ہے اور اس پر کیسے کیسے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی ہوگی اور وہ بھی شاعری کی صورت میں۔ اس میں ۲۱۷ صفحات تک نظمیں ہیں اور اس کے بعد ۴۵۴ صفحات تک غزلیں ہیں ۔آخر کے دس صفحات قطعات اور ہائیکو کے لئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم ان کا کلا م پیش کریں کچھ اور حضرات کے ان کے بارے میں خیالات تک آپ کو ضرور پہنچا دیتے ہیں۔افتخار امام صدیقی صاحب فلیپ پر لکھ رہے ہیں ’’ پرویز کی شاعری میں اپنے بزرگوں سے انحراف اگر ہے تو وہ اس نسل کی سوچ کے عین مطابق ہے ورنہ تو جدت ،تلخی ،طنز ،بے خوفی ،وغیرہ ان کی بزرگوں کا اثاثہ ہے۔پرویزؔ کا شعری آہنگ اگر تلخ ہے تو اس کے یہاں موسیقی اور شاعری کے تال میل سے جو سمفنی بنتی ہے اس کی نغمگی روح پر محسوس کی جاسکتی ہے‘‘۔
پروفیسر سحر انصاری فلیپ پر ہی لکھتے ہیں ’’ محسوسات کی بندھی ٹکی ڈگر سے ہٹ کر بیان کرنے کی خواہش اور کاوش نے یقیناً پرویزؔ کے کلام میں ندرت پیدا کردی ہے۔معاشرے کے ظاہری قوانین اور تصوراتِ اقدار جس ماحول کو گندا اور ناقابلِ برداشت تصور کرتے ہیں ان سے اگر ذہنی اور نظریاتی رشتہ قائم ہوجائے تو پھر ایک نیا کارواں ،ایک نئی بستی اور ایک نئی رفاقت کا احساس آدمی کو تقویت دینے لگتا ہے ‘‘۔
خیر اس مضمون کو لکھتے وقت ہم کئی بار امتحان سے خود گزرے ہیں کہ دو بار کمپیوٹر نے دھوکہ دیا اور ہمارا سارا لکھا غائب ہوگیا ۔ایک بار بجلی جو ہے اس تھوڑی سی روشنی کو چرانے کے لئے غائب ہوگئی۔ ہم نے کسی طرح اس کو جگنو سا مٹھیوں میں قید کر لیا۔ پھر کچھ ایسا نہ ہوجائے کہ ہم اس مضمون کو بھیج ہی نہ پائیں یہ سوچتے ہوئے آپ کے سامنے چند وہ اشعار رکھ رہے ہیں جنھیں کتاب میں موجود مضمون نگاروں نے پسند کرکے تحریر کیا ہے۔ فرمان فتح پوری صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ ان کے اشعار کی لفظیات اور لفظوں کی بنت صاف بتاتی ہے کہ ان کا تعلق ابلاغ کی ایسی سطح سے ہے جو قاری کے ذہن کو براہِ راست متوجہ کرتی ہے اور جس کے ادراک و معنی میں قاری یا سامع کو غیر ضروری ذہنی ورزش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا‘‘۔ان کے مضمون میں جو اشعار دیے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
بھاگ اس مقبولیت سے جس کو پانے کے لئے
سر کو خم کرنا پڑے ،جو ہے اٹھانے کے لئے
سزا تو ملتی ہے پرویز ؔ بے خطاؤں کو
بلا سے جرم نہ ثابت ہو غم کے ماروں کا
گاؤں سے لوگ شہروں کو جانے لگے
شاید اپنی حویلی ٹھکانے لگے
جن غریبوں کا کوئی بھی والی نہیں
نام لیوا ہیں وہی اسلام کے
کتنے اندر سے دکھی ہیں پرویز ؔ
ساری دنیا کو ہنسانے والے
بدلے میں اسے دنیا طعنوں سے نوازے گی
پرویز ؔ کے شانے پر پرچم ہے بھلائی کا
ایک ظلمت کا سمندر ہے ہمارے اندر
جگمگاتے ہوئے بازار میں ہم رہتے ہیں
خطہء غیر میں پرویز ؔ ہمیں کون بچائے
خود کو ہم نرغہء قاتل سے نکالیں خود ہی
یہ تمام اشعار کہیں نہ کہیں ہمارے وقت کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ پرویزؔ مظفر نے ان اشعار کو کہتے وقت کوئی ڈھکی چھپی بات کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔جو جیسا ہے ویسا کہہ دیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سچ کہہ دیا ہے۔ انھیں سچ بہت عزیز لگتا ہے۔ حق بیانی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے ان کا فسلفہء حیات ہے ۔تبھی تو وہ آج کی کڑوی سچائی کو بھی وہ چاہے مذہب کے حوالے سے ہی کیوں نہ ہو صاف صاف کہہ دیتے ہیں۔ وہ کئی دنیا دیکھ چکے ہیں۔ ایک اپنے ملک کی دنیا اور ایک مغربی دنیا ۔ان دونوں دنیاؤں کے میل نے ان کے اندر بھی ایک نئی دنیا آباد کر رکھی ہے جس کے ذریعے وہ ساری دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔یہی ان کی شاعری کی اور ان کے احساس کی دنیا ہے۔
پروفیسر خالد محمود صاحب نے ان کی شاعری کو بہت غور سے پڑھا ہے اورجب وہ انپے مضمون کے آغاز میں پرویز ؔ مظفر کا یہ شعر پیش کرتے ہیں تو آج کے نوجوان کا ایسا درد سامنے آجاتا ہے جو آج کی بہت پُردرد حقیقت ہے۔ جو بھی نوجوان اس شعر کے دور سے گزر رہا ہوگا اگر اس شعر کو پڑھ کر اس کی آنکھ نہ بھیگ جائے تو کہئے گا۔ شاعر جب آپ کے کرب سے گزرتا ہے تبھی تو اس کی کچی گری میں وہ ناریل کے خول کی سختی آتی ہے۔ کیا کرے شاعر کو ناریل ہونا پڑتا ہے۔ اوپر سے سخت اور اندر ہی اندر سارے زمانے کا کرب ؂
سایہ ہو کہ بستر ہو آرام نہیں ملتا
مجبور جوانوں کو جب کام نہیں ملتا
ہم صرف اس ایک شعر کے لئے زندگی بھر پرویزؔ مظفر کے احسان مند رہیں گے کہ اس دور سے نہ جانے کتنی بار خود گزرے ہیں۔ محبوب کی جدائی میں نیند نہ آنا اور بات ہے مگر دنیا کی خدائی میں اپنی رسوائی کو لپیٹنے کے بعد کروٹیں بدلنا الگ دنیا ہے۔ ان کی شاعری میں خلوص کا یہ عنصر دیکھئے۔
ڈوب جاؤں گا ،پھر بھی سورج کو
مجھ ستارے کی بھی دعا کہنا
یہ شعر جو معصومیت کے ساتھ بڑی بات کہہ دیتا ہے۔ یہ وہ ہی لوگ جان سکتے ہیں جن کو آئینوں سے پر ہیز نہیں ہے۔
اس کو دیکھے کتنی صدیاں بیت گئیں
آئینے میں بیٹھا ہوں حیرانی سا
ان کے چند اشعار اور، خالد محمود صاحب کے مضمون سے ؂
پل بھر کے لئے شاخوں پہ لہرائے تھے پرویزؔ
پھر ہم نے انھیں پھولوں کوگلدان میں دیکھا
جانے کیا باتیں کرتے رہتے ہیں
چار درویش ایک الاؤ کے ساتھ
دیکھتا کیا ہوں کہ میں ضائع ہوا
غیر کے سانچے میں خود کو ڈھال کر
یہ تو سچ ہے اپنے بس میں رہنے میں عافیت ہے
لیکن اپنے بس میں رہنا اپنے بس کی بات نہیں
تیری بندوق میرے شانے پر
اور میں ہی تیرے نشانے پر
ہم سے ہنس کر ملیں گے وہ پرویز ؔ
اور بیٹھک عدو کے گھر ہوگی
کُل ملا کر پرویزؔ مظفر کی شاعری ہر حال میں پختگی سے ہم کنا رہے۔ مظفر ؔ حنفی صاحب جہاں یہ کہتے ہیں کہ باپ کو تو بیٹے کی تتلاہٹ بھی پسند آتی ہے اور انھیں ناریل کی کچی گری بھی کہتے ہیں تو وہ وہاں معافی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایسا کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ باپ کے سامنے بیٹا کبھی بڑا نہیں ہوتا۔ پرویزؔ مظفر بڑے شاعر ہیں ۔آخر میں اس بڑے شاعر کا ایک شعر جو منورؔ رانا صاحب نے اکیلا تحریر کیا ہے اور جو ہمیں بھی بہت پسند آیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ کہ تھوڑی سی روشنی پر یہ ہماری تھوڑی سی روشنی عرض ہے۔ باقی روشنی آئندہ پھر کبھی ۔
آ گلے مل درد کا رشتہ ہے اپنے درمیاں
اتنے زوروں سے نہ ہندوستان پاکستان کر

***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book "Thodi si Roshni" by Parvez Muzaffar. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں