ہندوستان کی حالت زار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-12

ہندوستان کی حالت زار

india-golden-bird
ملک ہندوستان؛ جسے گنگا جمنی تہذیب کا سنگم کہا جاتا ہے، جہاں 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا' جیسے گیت گائے جاتے ہیں، جہاں 'ہندو مسلم سکھ عیسائی، آپس میں سب بھائی بھائی' کے نعرے لگائے جاتے ہیں، جہاں 'وید و قرآن' کا احترام کیاجاتا ہے، جہاں 'رام اور رحیم' ساتھ ساتھ رہتے ہیں، جہاں ملک کی سب سے بڑی جمہوریت قائم ہے---آج اسی ملک میں ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ فاشسٹ سیاسی جماعتوں اور آر ایس ایس نے مل کر اس وقت ملک میں جو ہنگامہ آرائی کی ہے، وہ ہر انصاف پسند کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ یہ ملک مہاتما گاندھی اور ابوالکلام آزاد کا ہے، پھر ان سیاسی مفاد پرستوں کو کیوں ان کے کیے کی سزا نہیں دی جاتی؟کیوں ان پر مقدمے نہیں چلاء جاتے؟ کیوں انھیں سرِعام زہر اگلنے کے لیے جنگلی سانڈ کی طرح کھلے مہار چھوڑ دیا جاتا ہے؟ یہاں مظلومین کی مدد کرنے والی جمیعۃ العلماء کو تو نشانے پر لیا جاتا ہے، لیکن نفرتیں پھیلانے والی آر ایس ایس پر کبھی کمان نہیں کسی جاتی!یہاں اذانوں پر پابندی کی بات تو کی جاتی ہے، لیکن مندروں کے گھنٹے نہیں اتارے جاتے! آخر یہ دوگلا پن، یہ جانب داری اور یہ تعصب پرستی کیسے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے دے سکتی ہے؟ آج کے حالات کو دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی سیکولر ملک ہے، جس میں ایک سیکولر قانون نافذ ہے، جس میں تمام مذاہب کو یکساں حقوق فراہم کیے گئے ہیں! آخر ملک کی یہ حالتِ زار کیسے درست ہوگی؟ کیا اِنھیں اچھے دنوں کا خواب دکھایا گیا تھا اور کیا یہی سب کا وکاس ہے؟
آگرہ کے دیوی روڈ پر ہوئے تبدیلئمذہبکاواقعہ--- جوخودمیںایکناپاکسازشہے--- جیساکہحادثہکاشکارمسلمانوںکاکہناہےکہانکوبیپیایلکارڈاورایکایکپلاٹکالالچدےکرمحضتصاویرکھنچوانےکےلیےبلایا گیا تھا اور آگے جوکچھ ہوا وہ انھیں مجبوراً کرنا پڑا۔ اس پر پہلے تو صفائی بھی پیش کی گئی، لیکن اپوذیشن کے تیور دیکھ کر حکومت کو اس معاملہ میں ذرا سنجیدہ ہونا پڑا۔ لیکن دھرم جاگرن سمیتی کا خط سامنے آنے سے اس پورے معاملے نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا ہے، جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ تنظیم کو تبدیلئمذہبپرکافیپیسہخرچکرناپڑتاہے،اسلیےکارکنانکودلکھولکرامدادکرنیچاہیے۔آرایسایسکیایکشاخدھرمجاگرنبنچکےعلاقائیسربراہراجیشورسنگھکاایکخطسامنےآنےسے،جسمیںلکھاہےکہایکمسلمانکوہندوبنانے میں فی کس 5لاکھ روپے اورایک عیسائی کو ہندو بنانے پر دو لاکھ روپے کا صَرفہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس خط میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ" ہمیں مسلمان اور عیسائی ہو جانے والے ایک لاکھ لوگوں کو واپس ہندو بنانے کا ٹارگیٹ ہے، مگر تبدیلئمذہبکےاسپروگراممیںبھاری خرچ آئے گا۔ "اس کا نام انھوں نے رکھا ہے 'گھر واپسی ابھیان'۔
ظاہر ہے ملک کی یہ حالتِ زار انتہائی خطرناک ہے، صرف مسلمانو ں کے لیے نہیں، بلکہ تمام ملک کے باسیوں کے لیے، اس لیے کہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا بھی امکان ہے۔ جیسا کہ 'ملایم سنگھ یادو' جی کا بھی ماننا ہے۔ مضمون نگار کی سمجھ سے یہ بالاتر بات ہے کہ کیا ان ناپاک کوششوں کو علمی جامہ پہنانے والوں کو اتنی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ دین و مذہب ایسی چیزیں نہیں، جن پر کسی کا زور جبر چل سکے، یہ تو دل کا اعتقاد ہوتا ہے، جسے کوئی پیسوں کے بَل پر تبدیل نہیں کر سکتا اور آگرہ میں جس جبر و دھوکے کا ان لوگوں نے مظاہرہ کیا، اس سے تو انھیں قطعاًکچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس طرح نہ کوئی ہندو ہوتا ہے اور نہ اُس کا مذہب بدلتا ہے۔
اس پورے واقعے میں ایک بات کا اور اشارہ سب کو مل گیاکہ ان لوگوں کے نزدیک بھی دیگر مذاہب کے بالمقال مذہبِ اسلام اور مسلمانوں کی قیمت زیادہ ہے، تبھی تو عیسائی کو 2لاکھ تو مسلمان کو 5لاکھ دینے کی نوبت آئی۔ ہم تو بس ان حضرات کی خدمت میں یہی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ان کی سعئلاحاصلہے،اسلیےکہایکمرتبہجنکےدلوںمیںایمانواسلامپیوستہوجاتا اور رچ بس جاتا ہے، وہ اپنی جان تو دے سکتے ہیں،لیکن ایمان کا سودا نہیں کر سکتے اور جن کے دل میں ایمان واسلام اترا ہی نہ ہو ان کے ساتھ اگر تم نے یہ ناپاک حرکت کر بھی لی، تو اس سے تمھیں کیا حاصل ہوگا؟ بہتر یہی ہے کہ اس قسم کی گندی اور اوچھی حرکتیں کرکے اپنے دامنِ داغ دار کو مزید آلودہ کرنے سے باز آؤ اور وطن کو ان آلائشوں سے پاک رکھو۔ اس کے ساتھ ہم ان مسلم سیاست دانوں کے بھی گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ ان سب میں ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، اگر ایسے وقت میں بھی انھوں نے اپنا فرضِ منصبی ادا نہ کیا تو کل ان سے سخت پوچھ گچھ ہوگی۔ علاوہ ازیںیہ وقت ان مذہبی رہنماؤں کے بھی سر جوڑ کر بیٹھنے کا ہے، جو محض زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی باتیں کرنے میں رطب اللسان رہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ امت کی صحیح رہنمائی کریں اور ان کے تمام تر مسائل کے حل پیش کرنے میں جفاکشی کی حد تک کوشش کریں۔باقی سمجھ دار کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

India's plight. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں