ماہر تعلیم اور اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر سید حامد کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-30

ماہر تعلیم اور اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر سید حامد کا انتقال

syed-hamid
نئی دہلی
یو این آئی
ممتاز ماہر تعلیم سید حامد آئی اے ایس سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وجامعہ ہمدرد کا آج94سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ اہلیہ کا دو سال پہلے انتقال ہوگیا تھا ۔ کل بروز منگل نماز ظہر کے بعد جامعہ ہمدرد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ۔ اور سہ پہر تین بجے لودھی روڈ پر واقع قبرستان پنچ پیراں میں ان کی تدفیل عمل میں آئے گی ۔ 1920ء میں فیض آباد اتر پردیش میں پید ا ہونے والے سید حامدکا ہندوستان کے چند اولین مسلم آئی اے ایس افسروں میں شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے اتر پردیش میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ وہ مرکز ی حکومت میں جوائنٹ سکریٹری کے عہدہ پر فائزہ رہے ۔ حکیم عبدالحمید بانی ہمدرددواخانہ کی وفات کے بعد سید حامد صاحب نے چانسلر کی حیثیت سے جائزہ لیا تھا۔

نئی دہلی سے سلیم صدیقی/ ایس این بی کی رپورٹ کے بموجب سر سید تحریک کے نقیب، حکیم عبدالحمید کے تعلیمی جانشین، قوم کے بے لوث خدمتگار ، جامعہ ہمدرد کے سابق چانسلر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد کا آج شام مجیدیہ اسپتال میں انتقال ہوگیا ۔ وہ94سال کے تھے۔ انہیں10روز قبل بخار کے بعد سینے میں انفکشن اور نمونیا کی شکایت پر اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا ، جہاں آج شام تقریباً5:45بجے انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ان کی تدفین کل بروز منگل بعد نماز ظہر قبرستان پنج پیراں حضرت نظامالدین میں عمل میں آئے گی ۔ سید حامد کے بیٹے ثمر حامد نے بتایا کہ سید حامد کو بخار ہوا تھا، جس کے بعد ان کے سینے میں انفکشن ہوگیا اور انہیں نمونیا کی شکایت بھی ہوگئی ۔ جس کے سبب وہ تقریباً10دن سے جامعہ ہمدرد کے مجیدیہ اسپتال میں زیر علاج تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آج شام ان کا انتقال ہو گیا۔ ثمر حامد کے مطابق ان کے جنازے کی نماز جامعہ ہمدرد کی مسجد میں دوپہر دو بجے ادا کی جائے گی۔ اس کے بعد تدفین حضرت نظام الدین واقع قبرستان پنج پیراں میں ہوگی ۔
سر سید کو اپنا آئیڈیل ماننے والے سید حامد کی پیدائش28مارچ1920ء کو فیض آباد اتر پردیش میں سیدمہدی حسن کے یہاں ہوئی تھی ، جن کا بنیادی تعلق مرادآباد سے تھا۔ جب سید حامد چھٹی جماعت میں تھے تب ان کے والد کے رام پور اسٹیٹ کی ملازمت اختیار کرلی تھی ، اس کے لئے ان کے گھر والے رام پور منتقل ہوگئے ۔لیکن ایک سال کے بعد ہی وہ پھر مرادآباد ہی لوٹ آئے اور انہوں نے گورنمنٹ انٹر کالج مرادآباد سے انٹر کیا۔ وہ اپنے کالج کے ہاکی ٹیم کے کپتان بھی رہے ۔ انٹر کرنے کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے1937-39میں بی اے مکمل کیا۔ اس کے بعد اے ایم یو سے ہی انگریزی اور فارسی میں ایم اے کرنے کے بعد وہ پرونشیل سول سرورسز سے جڑ گئے اور اس دوران انہوں نے بجنور، مرادآباد اور بلند شہر میں خدمات انجام دیں۔1940ء میں انہوں نے آئی اے ایس کا امتحان پاس کیا اور حکومت ہند کی کئی اہم محکموں اور وزارتوں میں ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ وہ وزارت خارجہ ، تجارت اور انڈسٹری کے علاوہ، پلاننگ کمیشن میں بھی جوائنٹ سکریٹری رہے ۔ اس کے علاوہ وہ اسٹاف سلیکشن کمیٹی نئی دہلی کے بانی اور چیئرمین تھے ۔ 26مارچ1985ء کو انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ۔1992ء میں ہمدرد ایجوکیشن سوسائتی کے خیر سگالی سکریٹری ، دارالمصنفین کی منتظمہ کمیٹی کے رکن اور شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے ممبر بنائے گئے ۔1999ء میں انہیں جامعہ ہمدرس کا چانسلر مقرر کیاگیا جس کے بعد جامعہ ہمدرد نے تقری کی نئی منازل طے کیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نے اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر سید محمدحامد کے انتقال پر منگل کے روز عام تعطیل کا اعلان کیا ہے ۔ اے ایم یو ذرائع کے مطابق منگل کے روز یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریٹو بلاک میں صبح10:30بجے ایک تعزیتی میٹنگ کا انعقاد کیاجائے گا ۔ سید حامد کے انتقال کی خبر سے مسلمانوں میں غم و اندوہ کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے چیرمین جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے ان کے انتقال پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ سید حامد کا انتقال ایک ملی خسارہ ہے ۔ انہوں نے مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لے جو کام کئے وہ ناقابل فراموش ہیں ۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا بہت مشکل ہوگا۔ کمشنر فارلنگوئیسٹک مائنارٹی پروفیسر اختر الواسع نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ سرسید ان کے آئیڈیل تھے اور وہ زندگی بھر سر سید کے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ ان کے انتقال سے ہم ایک روشن دماغ سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ امت کے لئے ایک درد مند دل رکھتے اور ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی سے کیسے نکالاجائے ۔ کریسنٹ اسکول کا قیام ہو یا ہمدرد پبلک اسکول یا ہمدرد کوچنگ سنٹر کا معاملہ انہوں نے کسی کام کو چھوٹا نہیں سمجھا اور دل سے کام کیا۔ وہ حکومت کے اعلیٰ ترین مناسب پر بھی فائز رہے ، لیکن جہاں بھی رہے اپنی ایک چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہے ۔ وہ ایک مخصوص ادبی مزاج اور اسلوب کے مالک تھے اور ان کی تحریریں وہ چاہیں زبان و ادب سے متعلق ہوں یا امت کی زبوں حالی سے متعلق ان کا اپنا ایک خاص رنگ اور آہنگ رکھتی ہیں۔

Eminent Muslim educationist Saiyid Hamid dead

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں