نیشنل کانفرنس اور کانگریس گزشتہ چھ سال سے ریاست میں متحدہ طور پر انتخابات میں حصہ لیتی رہیں لیکن ان دونوں نے اس مرتبہ اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انتخابی مہم کے دوران ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف شدید ریمارک کئے۔2002ء تا2008ء کانگریس کے ساتھ اتحاد کے ذریعہ حکومت کرنے والی پی ڈی پی نے بھی اپنی حریف پارٹیوں پر تنقید کی ہے ۔ جاریہ انتخابات بی جے پی کے لئے امتحان ثابت ہوں گے ۔ جو جموں و کشمیر میں پہلی مرتبہ انتہائی سنجیدگی سے مقابلہ کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ کانگریس کے لئے بھی فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ جسے امید ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد کم از کم ریاست میں وہ برقرار رہے گی ۔ بی جے پی نے ’’مشن44‘‘ کے نام سے اپنی جارحانہ مہم شرو ع کی ہے ۔ 44جادوئی آنکڑا ہے حکومت بنانے کے لئے44نشستیں کافی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے واحد مسلم اکثریقی ریاستی میں بی جے پی داخلے پر بھی یہ نتائج فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں ۔ پارٹی نے چیف منسٹر کے لئے کسی نام کا اعلان نہیں کیا ۔ گزشتہ اسمبلی میں بی جے پی کے11ایم ایل اے تھے۔ اس تعداد میں اضافہ مودی کی کامیابی سمجھی جائے گی۔ دریں اثناء 87اسمبلی حلقوں کے لئے ووٹوں کی گنتی کے مقامات پر زبردست سیکوریٹی انتظامات کیے گئے ہیں ۔ یہ انتخابات ریاست میں پانچ مرحلوں میں منعقد کئے گئے ۔ ووٹنگ کا اوسط66فیصد رہا ۔ اوپنین پول کے مطابق معلق اسمبلی وجود میں آئے گی ۔لیکن پیپلز ڈیمو کریٹک پرٹی واحد سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرنے کا امکان ہے، انتظامیہ نے دفعہ144کے تحت بعض علاقوں میں امتناعی احکامات نافذ کئے ہیں۔ اس کے علاوہ پٹاخوں کی فروخت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے ۔ اگرچہ علیحدہ پسند قائدین کی بڑی تعداد یا تو گرفتار کی گئی یا انہیں اپنے گھروں میں نظر بند کیا گیا تھا ، اب انہیں رہا کردیا گیا ہے ۔ لیکن حریت کانفرنس کے چیرمین سید علی شاہ گیلانی اور جے کے ایل ایف کے قائدین کو کوئی راحت نہیں ملی ۔
Counting of votes for the 87 Assembly seats in Jammu & Kashmir tomorrow
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں