بین الاقوامی یوم انسداد بدعنوانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-09

بین الاقوامی یوم انسداد بدعنوانی

9th December International Anti-Corruption Day
9؍ دسمبر کو بین الاقوامی یوم انسدادِ بدعنوانی(Anti curruption day) کے طور پر منایا جاتا ہے، جس میں عام روایت کے خلاف قدرے زور شور سے بدعنوانی کے خلاف نعرے اور بیان بازیاں ہوتی ہیں۔31اکتوبر 2003کو اقوام متحدہ کی اسمبلی میں قرارداد 58/4کے تحت کرپشن و بدعنوانی کی روک تھام کے لیے عوام میں شعور و بے داری پیدا کرنے کی غرض سے اس دن کو اینٹی کرپشن ڈے کے طور پر تجویز کیا گیا۔ بعض مقامات پر اس حوالہ سے خصوصی تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں، جب کہ ایسی بہت سی تقاریب کا مقصد ان میں صَرف ہونے والی رقم سے زیادہ کا بِل بنا کر مالی منفعت حاصل کرنا ہوتا ہے، جو خود ایک بدعنوانی ہے۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ چور کو ہی نگہبانی کی ذمہ داری سپرد کر دی جاتی ہے۔ ہماری پولس اپنے منصب کے تئیں کس حد تک وفادار اور سنجیدہ ہے، یہ کوئی کہنے کی بات نہیں اور عوام کے ذریعے منتخب نمائندوں کی ایمان داری پر سوال اٹھانا تو گویا خود ایمان داری پر سوال اٹھانا ہے۔ شرافت تو گویا ان کے ماتھے ٹپکتی ہے، ورنہ اگر یہ منتخب عوامی نمائندے صحیح معنوں میں اس طرح کی بدعنوانیوں کے ازالہ کا تحیہ کر لیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے میں اصلاح کی شروعات نہ ہو۔ ان کے لیے یہ ویسے بھی آسان ہے، اس لیے کہ انھیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کس کس آسامی پر کیا کیا بدعنوانیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں؟ اس لیے گویا کہ وہ اس پوذیشن میں ہوتے ہیں کہ ان بدعنوانیاں کو روکنے کے لیے اہم سرکاری آسامیوں تک، جہاں کہ بد عنوان اور نااہلوں کا قبضہ ہے، وہاں ایمان دار، فرض شناس اور اہل حضرات کو پہنچانے میں مدد کریں۔ یہ لائحۂ عمل سرکاری آسامیوں پر بدعنوانیوں کو روکنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس پر شاید وہ کہیں گے کہ بدعنوانی کو روکنے کے لیے سارازور انھیں پر کیوں ڈالا جاتا ہے؟ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ وہ ہی عوام کی طرف سے منتخب نمائندے ہیں، عوام نے انھیں اپنی نمائندگی کے طور پر چنا ہے اور پھر عوام کا براہ راست تعلق حکومت سے نہیں ہوتا، اپنے نمائندوں سے ہوتا ہے۔ عوام کے انتخاب کی بنا پر ان نمائندوں کو ہی اختیارات ملتے ہیں، جنھیں بروئے کار لاکر وہ ایسے سماجی بگاڑ کی اصلاح بآسانی کر سکتے ہیں۔
کرپشن کی تاریخ بہت قدیم ہے، یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پر کبھی مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تمام ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں، اس سے جمہوری ملک کی گویا عمارت چرمراکر رہ گئی ہے۔ بدعنوانی انصاف میں رکاوٹ اور معاشی و معاشرتی ترقی میں سُستی کی محرک ہے۔ آج کے برق رفتار زمانہ میں ہر چیز شاخ در شاخ ہوتی جا رہی ہے، آج نیکیوں کے راستے بھی اَن گِنت ہیں اور گناہ کے بھی، یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے کیا پسند کرتا ہے۔ 'رشوت' جو کہ ہمارے سماج کا ایک ناسور ہے، جس نے نہ جانے کتنی زندگیاں تباہ و برباد کر دیں ، لیکن اس پر کسی طرح روک تھام لگتی نظر نہیں آتی۔ آج کے اس 'ترقی یافتہ دور' میں اس کی کوئی خاص صورت متعین کر پانا نہایت مشکل امر ہو گیا ہے، اب یہ معاملہ محض نوٹوں کے سہارے ہی نہیں طے پاتا بلکہ کوئی 'ہدیہ'' تحفہ'بھی اس کے قایم مقام ہو سکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر رشوت، بدعنوانی کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں نقد یا تحفہ وغیرہ دے کر، وصول کرنے والے کے طرزِ عمل میں بدلاؤ لایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد وصول کندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔کبھی یہ پیش کش دینے والوں کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی لینے والے، اسے کمیشن یا ڈونیشن جیسے نام سے موسوم کرکے اسے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی اصل حقیقت سب پر عیاں ہے۔رشوت، یوں تو خود ہی ایک لعنت ہے، جس کے سبب انسان خدا کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے، لیکن کسی مظلوم سے رشوت کامطالبہ کرنا انسانیت سے نہایت درجہ پست اورگرا ہوا عمل ہے، جیسا کہ بعض جگہوں پر قیدیوں کے لواحقین سے بھی رشوت وصول کی جاتی ہے اور اس کے بدلے قیدیوں کو بدسلوکی سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اسلام نے ہر اس ذریعہ اکتساب کو ممنوع قرار دیا ہے، جس میں کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا لازم آتا ہو، منجملہ ان ذرائع کے رشوت بھی ہے۔ یہ ایک سنگین جرم ہے، جو ہمارے پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں جگہ جگہ اس کے خاتمہ کی باتیں تو کی جاتی ہیں، لیکن ایسا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا، جس کا فائدہ یقینی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور طب کے ادارے؛ جو کہ خالص انسانی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں آتے ہیں، وہ بھی بدعنوانیوں سے پاک نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ وہاں جو 'سوشل ورکر' بیٹھے ہوئے ہیں، وہ بھی اس بدعنوانی میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے ہیں، لیکن کوئی انھیں پوچھے والا نہیں۔عوام بھی اس کے عادی ہو چکے ہیں اور حکومت کی تو شاید انھیں سرپرستی حاصل ہے۔
مفتی تقی عثمانی کے بقول: رشوت ایک ایسا جرم ہے، جو شاید کسی بھی نظامِ حیات میں جائز نہ ہو۔ ہمارا( ملکی) قانون بھی اسے ناجائز قرار دیتا ہے، لیکن ملک کی جیتی جاگتی زندگی میں آکر دیکھیے تو وہی رشوت؛ جسے قانون میں بدترین جرم کہا گیا ہے، نہایت آزادی کے ساتھ لی اور دی جا رہی ہے۔ ایک معمولی کانسٹیبل سے لے کر اونچے درجے کے افسران تک، اسے شیرِ مادر سمجھے ہوئے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس کی جیب گرم ہو، وہ سیکڑوں جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دندناتا پھرتا ہے اور جس کی جیب خالی ہو، وہ سو فیصد معصوم اور برحق ہونے کے باوجود انصاف کو ترس کر جان دے دیتا ہے، اس صورتِ حال کو مضبوط اور ایمان دارانہ انتظامیہ ہی ختم کر سکتی ہے۔ اگر اونچے درجے کے رشوت خور افسروں کو چند بار علی الاعلان عبرت ناک جسمانی سزائیں دی جائیں اور آئندہ رشوت کے لیے کچھ اور سخت سزائیں مقرر کر دی جائیں، تو رفتہ رفتہ یہ لعنت مٹ سکتی ہے۔
مضمون نگار کا خیال ہے کہ جو لوگ اور جو تنظیمیں9دسمبر کو یوم انسدادِ بد عنوانی کے نام سے مناتی ہیں یا منانا چاہتی ہیں--- انھیں اصلاً اس طرف پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ سر جوڑ کر ان تمام قباحتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں، جو اس بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ممد و معاون ہوں۔ اس حوالے سے سفارشات کی تیاری، ان پر عمل درآمد کرنے کا طریقہ وضع کرنا اور انھیں قانون ساز اداروں کے اراکین تک پہنچانا اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے کی طرف بار بار توجہ طلب کرنا---ہی 'اینٹی کرپشن ڈے ' منانے کا کسی حد تک جواز فراہم کر سکتا ہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ ہم عالمی اینٹی کرپشن ڈے کو محض رسمی طور پر منانے کی بجائے مثبت اقدامات کی فکر کریں، یہی ہمارے اور ہمارے ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

9th December, International Anti-Corruption Day. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں