دہشت گردی کا خوفناک کھیل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-09

دہشت گردی کا خوفناک کھیل

' رام' اور' رحیم' والی تفریق کا نمونہ ہے عارف اور پرتیک کی گرفتاری،ایک خبر میڈیا کیلئے کیوں اہم ہوجاتی ہے اور دوسری کیوں نظرانداز؟

عراق کی جہادی تنظیم"دولت اسلامیہ"کیا ہندوستان پر نظریں جما چکی ہے؟کیا ہندوستانی نوجوانوں کویہ تنظیم جہاد میں شامل کرنے کے خوفناک منصوبہ پرکاربند ہے؟کیا بڑی تعداد میں ہندوستانی نوجوانوں کو گمراہ کیاجارہاہے ؟کیاواقعی بے روزگار ہندوستانی نوجوانوں کو ممالک غیر میں ملازمت کے نام پراس بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم میں باضابطہ بھرتی کاسلسلہ بھی شروع کردیاگیا ہے؟کیا اس خوفناک منصوبہ میں شامل افراد ، تنظیم یا گروہ کی سرگرمیوں سے ہماری حکومت پوری طرح واقف ہے اور حفظ ماتقدم کے طورپر کوئی ایسی کارروائی کی گئی ہے جو اطمینان بخش کہلائے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو جواب طلب ہی نہیں بلکہ اضطراب آمیزبھی ہیں اور باعث تشویش بھی ۔ حالانکہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی اس خدشہ کا اظہارکیاہے کہ ہندوستان کے نوجوانوں کوآئی ایس آئی ایس نامی تنظیم جہاد میں شامل کرانے کیلئے راغب کرارہی ہے۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان اُس پیش رفت کے بعد سامنے آیاہے جس کے تحت مہاراشٹر کے ایک نوجوان عارف ماجد کوترکی سے واپسی کے بعد گرفتارکیا گیاہے۔ کل ہی یہ نوجوان ترکی کے راستہ ہندوستان پہنچا جس کے بعد این آئی اے نے اسے گرفتارکرکے تفتیش کاایک سلسلہ شروع کردیا ہے۔
ممبئی کے کلیان کارہنے والایہ نوجوان اس سال مئی میں اپنے تین دوسرے دوستوں کے ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے عراق گیاتھا جس کے بعداُس کی گمشدگی کی خبر ملی اور معاًبعد یہ خبر ذرائع ابلاغ میں توجہ کامرکز بن گئی تھی کہ ممبئی سے مبینہ طورپر عراق جانے والے یہ چار نوجوان دولت اسلامیہ نامی تنظیم کے جنگجو کے طورپر جنگ میں شامل ہوگئے ہیں۔ ابھی اس خبر کی تصدیق بھی آزاد ذرائع سے نہیں ہوئی تھی کہ یہ خبربھی اڑا دی گئی کہ عارف دوران جنگ موت کی آغوش میں پہنچ گیا لیکن بعد ازاں خبروں کے مطابق عارف نے خود ہی20نومبرکو اپنے اہل خانہ کو فون کرکے یہ اطلاع دی کہ وہ عراق سے ترکی پہنچ چکاہے اور وطن واپسی کا خواہش مندہے۔بعض اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عارف کے اہل خانہ نے اس کی اطلاع وزارت داخلہ کود ی اوروزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے اس کے اہل خانہ کی ملاقات بھی ہوئی جس کے بعد ترکی سے اُس کی وطن واپسی کویقینی بنایاگیا اور ممبئی پہنچتے ہی اسے گرفتارکرلیاگیا۔اب تفتیش کاریہ پتالگانے میں لگ گئے ہیں کہ عراق میں برسر پیکارجنگجوتنظیم سے اور کتنے ہندوستانی وابستہ ہوئے ہیں یا ہورہے ہیں ۔ عارف کی ممبئی واپسی اور اس کی گرفتاری کی خبر آتے ہی ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاع توجہ کامرکز بن گئی اور یہ پیغام بھی ڈھکے یا چھپے اندازمیں دیاجانے لگاکہ ہندوستان کے مسلم نوجوان گمراہ ہورہے ہیں اور نتیجتاً وہ دولت اسلامیہ نامی تنظیم سے اپناتعلق جوڑنے پر مجبورہیں۔ خصوصاً ٹیلی ویژن چینلوں پر اس ضمن میں مباحثہ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور مثبت ومنفی تبصروں وتجزیوں کا ایک سلسلہ چل پڑاہے۔ گویا ایک طرح سے یہ کوشش شروع ہوگئی ہے کہ اس معاملہ کو مذہبی رنگ دیا جائے اور اس پیغام کو شدت کے ساتھ ابھاراجائے کہ ہندوستان کے مسلمان عالمی دہشت گرد تنظیم سے کہیں نہ کہیں وابستگی رکھتے ہیںیااس تنظیم کے تئیں اُن کے دل میں نرم گوشہ موجود ہے۔ حالانکہ یہ سوال بجائے خود بحث کا متقاضی ہے کہ جو خبریں ذرائع ابلاغ میں آئی ہیں، ان کی صحت کیا ہے اور یہ بھی کہ تفتیش کاروں کی جو کہانی میڈیا کی زبانی بیان کی جارہی ہے،وہ کس حد تک معتبر ہے؟ اگر 4نوجوانوں کی عراق کی جنگجو تنظیم سے وابستگی ثابت ہوبھی جاتی ہے تو آخر یہ کیسے مان لیاجائے کہ 20کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی یہ 'چارگمراہ مسلم نوجوان' ترجمانی کرتے ہیں۔ اس نکتہ پربحث ضروری ہے لیکن قبل اس کے کہ اس ضمن میں گفتگو کے سلسلے دراز کئے جائیں ، یہ لازمی معلوم ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ نامی تنظیم کے حوالہ سے سامنے آنے والی اُس دوسری خبرکو بھی مرکز توجہ بنایاجائے جو ہندوستان سے متعلق بھی ہے اور یہاں کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا بادی النظرمیں پیغام بھی دیتی ہے مگراس کے باوجود یہ خبر اس طرح مشتہر نہیں کی گئی جس طرح کلیان کے نوجوان کی عراق سے ترکی کے راستے وطن واپسی اور اس کی گرفتاری ٹیلی ویژن چینلوں پر بحث کا متقاضی بنی۔ جس وقت مختلف ٹیلی ویژن چینلوں پر عارف کے تعلق سے خبریں نشر ہورہی تھیں ٹھیک اسی وقت پٹنہ سے ہمیں یہ خبر موصول ہوئی کہ بہار پولیس نے ایک ایسے گروہ کا پردہ فاش کیاہے جو ریاست کے نوجوانوں کو بیرون ملک ملازمت دینے کے نام پر جعل سازی اور فریب کاری کی کوشش کررہاتھا اور اس ضمن میں اس کے عزائم نہایت خطرناک تھے ۔ پولیس نے پہلی نظرمیں اس معاملہ کو خوفناک صورتحال کا اعلامیہ قرار دیاہے کیونکہ اسے بادی النظرمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ پٹنہ سے تعلق رکھنے والایہ گروہ دولت اسلامیہ کا ایک طرح سے ایجنٹ تھا اور یہ بھی کہ وہ نوجوانوں کو نہایت ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ روزگار دلانے کے نام پر بیرون ملک بھیجتا تھا بالفاظ د یگر باضابطہ دولت اسلامیہ نامی تنظیم میں بھرتی کا سلسلہ چل رہاتھالیکن خبرمیں جونکتہ سب سے زیادہ ہمارے لئے توجہ کامرکز بنا و ہ یہ کہ اس گروہ میں شامل افراد مسلمان نہیں ہیں بلکہ پکڑاگیانوجوان مذہباً ہندوہے جس کانام پولیس نے امن پرتیک بتایاہے ۔ بہار پولیس نے کل جب رادھاسوامی اپارٹمنٹ میں چھاپہ مارا تووہاں ایک دوسرا نوجوان اسی اندازمیں یرغمال دکھائی پڑا جس طرح دولت اسلامیہ کے جنگجو بوقت ضرورت نوجوانوں کو یرغمال بنایاکرتے ہیں۔نیرج کمار نامی نوجوان کے منھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ نہایت زخمی حالت میں یہاں محصور تھا پولیس آگے کی تفتیش کررہی ہے اور امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ امن پرتیک سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پرکچھ چونکادینے والے حقائق سامنے لائے جاسکیں گے۔ بہارپولیس کے دعوؤں کو اگر حق بجانب قرار دیاجائے تو اس کا واضح بین السطور یہ سامنے آتاہے کہ امن پرتیک نامی نوجوان دولت اسلامیہ کیلئے ہندوستانی نوجوانوں کو بھرتی کرنے کاکام کررہاتھا۔اس سچائی سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ دہشت گردی میں مبتلاعناصر اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے بے روزگاروں کو اپنے دام میں پھنساتے ہیں اور پھر خوفناک عزائم کی تکمیل کیلئے ان سے کام لیتے ہیں لیکن نوٹ کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ جب دہشت گردی کے کسی ایسے معاملہ میں کسی غیر مسلم گروہ ،فرد یا تنظیم کانام سامنے آتاہے تومیڈیا کے ذریعہ ایسی خبروں کو مشتہر نہیں کیاجاتاہے،لیکن اگر ایسا ہی معاملہ مسلمانوں کے حوالہ سے سامنے آجاتاہے توپورے دن یہ خبر ذرائع ابلاغ کیلئے سنسنی خیزی برپاکرنے اوراندیشہ ہائے دور دراز کا اظہارکرنے کابھی موجب بن جاتی ہے۔
ایک ہی دن ،ایک ہی تنظیم کے حوالہ سے ان دونوں خبروں کے ساتھ کیسا رویہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے اختیار کیا، اس کو سمجھنے کیلئے عارف ماجد اورامن پرتیک کے معاملوں پرایک نگاہ دوڑا لینا کافی کہلا سکتاہے۔ داعش سے دونوں کی بادی النظرمیں وابستگی کا احساس ہوتاہے ۔ دونوں کو کسی نہ کسی شکل میں پولیس یاتفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ گرفتارکیاجاتاہے لیکن ایک خبرزیادہ تر ٹیلی ویژن چینلوں پر پورے دن چلتی ہے جبکہ دوسری خبرکا چرچہ تک نہیں ہوتا یہ اور با ت ہے کہ کچھ اخبار ات میں یہ خبر الگ الگ انداز سے پیش کردی جاتی ہے ۔ یہ صورتحال کیوں درپیش ہورہی ہے اورکسی خبر کو دبانے اورکسی اطلاع کو مشتہر کرنے کی دانستہ وشعوری کوشش کیوں ہورہی ہے؟ یہ سوال بحث کا متقاضی ہے۔
ہندوستانی مسلمان دہشت گردی کو قابل ملامت فعل تصورکرتے ہیں، یہ ایک مسلمہ سچائی ہے لیکن اس سچائی سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑنے کی شعوری کوشش ہورہی ہے۔ ایسے درجنوں معاملات سامنے آچکے ہیں جن میں دہشت گردی کے عفریت کو مسلمانو ں سے متعلق قراردینے کی کوشش کی گئی لیکن حق کی سربلندی کے نتیجہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش گویا ایک طرح سے بارآور ثابت نہ ہوسکی۔ مکہ مسجد سے لے کر خواجہ اجمیر ی کی درگاہ میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرنے کی کیسی کیسی کوششیں کی گئیں، یہ ہم سبھوں کے سامنے ہے۔ اکشر دھام کاواقعہ ہو یا پھر سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں بلاسٹ کامعاملہ ،جدھربھی دیکھئے، پہلی نظر میں مسلمانوں کو بالعموم قصو رواروذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ تفتیشی ایجنسیوں کا رویہ ہو یاارباب اقتدار کا نظریہ یاپھر میڈیا میں اٹھنے ولا شور، بار بارہمیں یہ دیکھنے کو ملا کہ مسلمانوں کو بے قصور ہونے کے باوجود ان واقعات میں پھنسانے کی کوشش گئی ۔ اطمینان کی بات بہر حال یہ رہی کہ پولیس کے دعوؤں اور تفتیشی ایجنسیوں کے مفروضوں کو عدالتوں نے یکے بعددیگرے مسترد کیا اور ہمارے سامنے درجنوں ایسی مثالیں موجودہیں جن میں پکڑے گئے نوجوانوں کو عدالتوں نے باعزت بری کرنے کاحکم صادر کیا اوربعض معاملات میں توحکومت کو ان بے قصوروں کے تعلق سے خصوصی سند سے بھی نوازاجانا ضروری ہوگیا جنہیں دہشت گردی کے معاملوں میں خواہ مخواہ پھنسایاگیاتھا۔ مکہ مسجد سانحہ میں پکڑے گئے نوجوانوں کے تعلق سے ریاستی حکومت کا'معذرت نامہ' اس کی بہترین مثال قرار پاسکتا ہے۔ گویا ایک طرح یہ بات اپنے سیاق وسباق کے ساتھ واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی کے معاملوں میں مفروضوں کی بنیاد پر جو کارروائیاں کی جاتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر لاحاصل قرار پاتی ہیں اور عدالتیں انجام کار ملزمان کو معاملوں سے بری الذمہ قرار دے دیتی ہیں۔
جہاں تک ممبئی کے نوجوان کی عراقی جنگجوؤں سے وابستگی کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اہل خانہ کارویہ اور پیش رفت دونوں ہی اُن لوگوں کیلئے مشعل راہ قرار پاسکتاہے جو دہشت گردی کے معاملہ میں مخصوص طبقہ کو مورد الزام ٹھہرانے کی حماقت کرتے رہے ہیں۔عارف ماجد کے والد نے جس طرح وزارت داخلہ یاوزیرداخلہ سے رجو ع کیا اورجس اندازمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صورتحال سے واقف کرایا، وہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا قدم کہلاسکتاہے۔ ان لوگوں کیلئے بھی جو خواہ مخواہ دہشت گردی سے متعلقہ معاملوں میں قصورواروں کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں جس طرح عارف کے والد نے آگے بڑھ کر ارباب اقتدا ر کو صورتحال سے واقف کرایا، ایسی صورتحال ہمیں دوسری جانب دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ،کرنل پروہت اور اب امن پرتیک اس کی مثال کہلاسکتے ہیں جن کے اہل خانہ کیا، دور کے متعلقین نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ متذکرہ لوگوں کی سرگرمیاں ملک مخالف حکمت عملیوں کاحصہ ہیں یا دہشت گردی سے متعلق۔چنانچہ یہ کہاجاسکتاہے کہ دہشت گردی کے معاملوں میں ایماندارانہ رویہ اختیارکرنے والوں کی قلت صاف طورپردیکھی جاسکتی ہے۔ معاملہ اگر کسی خاص طبقہ سے متعلق ہوتاہے تو رائی کو پہاڑ بناکر پیش کردیاجاتاہے اوراگر یہی معاملہ دوسرے فرقوں اور طبقوں سے جڑا ہواہوتاہے تو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بھی ایسی خبروں کو دبایاجاتا ہے اور جب ایسے معاملوں میں تفتیشی ایجنسیاں پیش قدمی کاکوئی مظاہرہ کرتی ہیں تو وہاں بھی سرد مہریاں دکھائی جاتی ہیں۔
دہشت گردی کوبجائے خود مذہب سے جوڑنا درست نہیں، یہ تقریباًہرکوئی مانتاہے ۔خود ہمارے موجودہ وزیراعظم بھی ایک عالمی پلیٹ فارم پر یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کو مذہب سے متعلق قرار دینا درست نہیں لیکن یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ دہشت گردی کے معاملوں میں تفتیشی ایجنسیوں کاکردار اور میڈیا کا طریقہ کار کیا یہ ظاہر کرتاہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی ہی سمجھاجائے، اسے مذہب سے جوڑکرنہ دیکھاجائے۔ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی گنجائش کم دکھائی دیتی ہے اور ہمارے اس خیال کو تقویت پہنچانے کیلئے درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں نظریاتی سطح پر تفریق برتنے کا احساس نمایاں طورپرہوتاہے ۔ کہاجاسکتاہے کہ دہشت گردی کے معاملوں میں جب تک ایمانداری اور ذمہ داری کافقدان رہے گا ،اس لعنت کاخاتمہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ دہشت گردی کی سرکوبی کیلئے یہ شرط اول ہے کہ' رام' اور'رحیم'کے درمیان کوئی تفریق نہ برتی جائے کیونکہ دہشت گردصرف اور صرف دہشت گرد ہوتا ہے اور اس کا مذہب دہشت گردی!


(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
shahid.hindustan[@]gmail.com
شاہد الاسلام

The alarming game of Terrorism. Article: Shahidul Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں