آئی اے این ایس
مرکزی حکومت اور وقف بورڈ( کے وکلاء) نے آج دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری کے فرزند(شعبان بخاری) کی بحیثیت نائب امام دستار بندی تقریب’’غیر قانونی‘‘ ہے۔ چیف جسٹس ، جسٹس جی روہنی اور جسٹس آر ایس اینڈ لا پر مشتمل ڈویژن بنچ کو دہلی وقف بورڈ نے بتایا کہ امام کے تقرر کو اس بورڈ نے کوئی قانونی حیثیت نہیں دی ہے ۔ اس تعلق سے غور کے لئے بہت جلد اجلاس منعقد ہوگا ۔ دستار بندی تقریب، شنبہ22نومبر کو مقرر ہے ۔ عدالت نے مباحث کی سماعت کے بعد اپنا حکم محفوظ رکھا ۔ عدالت میں مفاد عامہ کی تین درخواستوں کی سماعت جاری ہے ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ جامع مسجد، دہلی وقف بورڈ کی جائیداد ہے اور مولانا سید احمد بخاری (شاہی امام) اس کے ملازم ہیں جو اپنے فرزندکو نائب امام مقرر نہیں کرسکتے ۔ گزشتہ کل سماعت کے دوران آر کیالوجیکل سروے آف انڈیا( اے ایس آئی) اور مرکزی حکومت کے وکلاء نے بتایا تھا کہ جامع مسجد ایک تاریخی یادگار ہے اور یہ فیصلہ کیاجانا باقی ہے کہ امام کے جانشینی کے معاملہ پر بڑے بیٹے کے تقرر کے قاعدہ کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے ۔
درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ19سالہ شعبان بخاری کو نائب امام مقرر کرنے کا، مولانا احمد بخاری کا فیصلہ غلط ہے ۔ قانون وقف میں امام کے موروثی تقرر کی کوئی دفعہ/گنجائش نہیں (یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ہندوستان کی اس سب سے بڑی جامع مسجد کی تعمیر عہد مغلیہ میں ہوئی تھی) مفاد عامہ کی مذکورہ درخواستوں میں عدالت سے التجا کی گئی ہے کہ جامع مسجد کے شاہی امام کی حیثیت سے مولانا بخاری کے تقرر کو ناجائز قرا ر دیا جائے گا۔ درخواستوں میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ شاہی امام نے’’ اختیارات کا غلط استعمال کیا اور مکمل بد نظمی سے کام لیا۔‘‘ یہاں یہ بات بھی بتادی جائے کہ مولانا احمد بخاری نے اپنے فرزند کی تقریب دستار بندی میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو مدعو کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حال ہی میں ایک تنازعہ چھیڑ دیا ہے ۔ مولانا بخاری نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مدعو کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
Syed Ahmed Bukhari's decision to anoint his son next Shahi Imam of Jama Masjid has no legal sanctity: Delhi HC
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں