کیا عرب دنیا کے لئے امید کی کرن ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-11

کیا عرب دنیا کے لئے امید کی کرن ہے؟

خالد المعینا
عرب نیوز (سعودی عرب)
مشرق وسطی میں بہت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا انہیں ایسے مستقبل کی یقین دہانی کرائی جاسکتی ہے جس میں ان کی ضروریات اور امنگیں پوری ہوسکیں گی ۔ بد قسمتی سے علاقے کے نقشے پر ایک نظر دوڑانے سے کوئی زیادہ حوصلہ افزا تصویر نظر نہیں آتی ہے ۔ نام نہاد عرب ہاریہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ انقلاب مخالفوں، ابن الوقتوں اور موقع پرستوں نے عرب بہاریہ انقلابات کے ثمرات سمیٹے ہیں ۔ جو لوگ جبرو استبداد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور جنہوں نے آمریت کو چلتا کیا تھا، وہ اب جیل کی ہوا کھارہے ہیں۔ مذہبی جماعتوں اور انتہا پسند گروپوں نے عوامی احتجاجی تحریکوں کو یرغمالبنالیا اور اس کے نتیجے میں عرب دنیا کے بہت سے حصوں میں اب طوائف الملوکی کا دو ر دورہ ہے ۔ آج گنجان آباد عرب ریاستوں میں سیاسی طوائف الملوکی جاری ہے اور وہاں متحارب گروہوں کے درمیان خون ریزی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وہ خود کو جمہوریت کے ہر کارے قرارد یتے ہیں ، لیکن وہ اپنے مخالفین کی آوازوں کو خاموش کرانے کے لئے تشدد کو برائے کار لارہے ہیں۔ اس دوران بے گناہ خواتین اور بچے مسلسل روزانہ ہی بم دھماکوں اور توپ خانے کی گھن گرج کا سامنا کررہے ہیں۔ عراق میں مکمل طور پر بد امنی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے ،اس کے نتیجے میں روزانہ ہی خونیں غسل ہورہا ہے حالانکہ پہلے اس ملک میں اس جیسا تشدد دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ شام میں تباہ کن خانہ جنگی جاری ہے اور اس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا ہے ۔ یمن میں انقلاب اور کاؤنٹر انقلاب رونما ہورہے ہیں اور اس کا خمیازہ بے یارومددگار عام یمنی بھگت رہے ہیں۔ پوری عرب دنیا میں ہر جگہ دہشت گردی کے ایسے ٹھکانے موجود ہیں جن سے پورے خطے کے امن اور استحکام کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔
عرب رہنما امن کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہر طرف بڑی تیزی سے طوائف الملوکی پروان چڑھی اور تخریب ہوئی ہے ۔ تیزی سے انحطاط اور چن ایک موجود سماجی اور سیاسی اداروں کی توڑ پھوڑ سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جس سے واپسی ممکن نظر نہیں آرہی ہے ۔ عرب دنیا موجودہ بحران سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ہے اور نہ وہ ان سماجی برائیوں کی ذمے داری سے انکار کرسکتی ہے جن کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تقسیم بڑھی ہے ۔ تاہم امریکہ بھی اس المیے کا برابر کا ذمے دار ہے ۔ اس کی عراق پڑ چڑھائی اور اس کے بعد اس کے تمام اداروں کا خاتمہ ایسا اقدام تھا جس سے مہلک خلا پیدا ہوا اور اس نے عراقی معاشرے کو تار تار کردیا۔ امریکا نہ صہیونی ریاست کی جانب سے جھکاؤ کی حامل کمزور خارجہ پالیسی پر عمل کیا اور اس نے پورے خطے ہی کو ریزہ ریزہ اور خون آلود کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ عرب بہاریہ انقلاب نے عوام کے مسائل کے حل کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ اس میں ناکام رہا ہے ۔ سیاسی اور سماجی شعبوں کے مکمل طور پر ضعف و اضمحلال کا شکار ہونے کی وجہ سے داعش جیسی تنظیموں کے پروان چڑھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔
اس کی قیادت تو بہروپیے لوگ کررہے ہیں لیکن اس نے پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے جو موجودہ’اسٹیٹس کو‘توڑنے کے خواہاں ہیں ۔، آج بہت سے سوالات تشنہ جواب ہیں اور ان کے شفاف انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ کیا ہماری کوئی ایسی واضح حکمت عملی ہے جو ہم کو اس تغیر پذیر گلوبل آرڈر میں آگے لے جاسکے ؟ کیا ہمارے پاس ایسے مدبرین موجود ہیں جو معاشرے کی اس انداز میں تعمیرنو کرسکیں جو عرب عوام کی امنگوں اور ضرورتوں کو ان کے اطمینان کے مطابق پورا کرسکیں ؟ کیا ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بہتر منصوبے سامنے لاسکتے ہیں کیونکہ اس دہشت گردی سے ہمارے معاشروں کے وجود ہی کو خطرات لاحق ہیں۔ کیا ترقی کے خواہاں عربوں کی اکثریت ایک ایسی درمیانی راہ پر چل سکتی ہے جو ایک خوشحال مستقبل کے لئے اہم ہے ؟ ان سوالوں کے ہوش مندانہ جوابات پورے خطے کے مستقبل کا تعین کریں گے اور اس بات کا بھی تعین کریں گے کہ کیا ہم امن و استحکام کی روشنی دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں ؟

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں