رابطے کی زبان بن چکی ہے اردو - شہپر رسول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-20

رابطے کی زبان بن چکی ہے اردو - شہپر رسول

shahpar-rasool
فراق و وصل کے معنی بدل کے رکھ دے گا
ترے خیال کا ہونا مرے خیال کے پاس

اس معروف جدید شعر کے خالق شہپر رسول نئی غزل کہنے والوں میں ایک معتبر مقام رکھتے ہیں ۔ شہپر رسول کی شاعری میں پیکر تراشی کے سب سے خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔ اگرچہ وہ عوامی مشاعروں سے گریز کرتے ہیں ، لیکن شہپر رسول کی اہمیت عالمی مشاعروں سے لے کر ادبی نشستوں تک دونوں جگہ برقرار ہے۔ شہپر رسول نے غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی کہی ہیں ، لیکن ان کی غزلوں کا بانکپن ہی انہیں روشن اعتبار عطا کرتا ہے ۔ شہپر کی شاعری کے سلسلے ماضی سے حال تک پھیلے ہوئے ہیں اور بہترین مستقبل کی بشارت دیتے ہیں ۔ ان کے کئی شعری مجموعے خواص و عوام میں مقبول ہوئے ، جن میں ’صدر سمندر اور ’سخن سراب‘ کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ مضامین کے مجموعے ’چشم دروں‘ اور ’نقش رنگ‘ دنیائے ادب میں بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ماہنامہ’سہیل ‘اور سہ ماہی’ترکش‘ جیسے معیاری ادبی رسائل نے شہپر رسول پر خصوصی شمارے شائع کئے ۔ یوپی اردو اکیڈمی، دہلی اردو اکیڈمی ، مغربی بنگال اردو اکیڈمی سمیت کئی اداروں نے شہپر رسول کا ادبی خدمات پر ایوارڈ سے نوازا ہے ۔ شہپر رسول جامعہ ملیہ جیسے درسگاہ علم و فن میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جمشید عادل علیگ نے جدید لب و لہجے میں غزل کو نئے پیکر دینے والے شہپر رسول سے اردو کے معیار ، اردو کل اور آج مسلمانوں کی زبان اردو، ہند پاک میں اردو کا حال اور اردو کی نئی بستیوں کے موضوعات تک خصوصی گفتگو کی ہے۔ پیش ہے ڈاکٹر شہپر رسول سے گفتگو کے اقتباسات:

سوال:
ڈاکٹر صاحب اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھاجارہا ہے۔ اس فکر سے اردو کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس غلط فہمی کو کیسے دور کیاجائے ؟
جواب:
اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے، یہ ہندوستان کے عوام کی زبان ہے ۔ دراصل ہمارے ملک کی سیاست اور حالات بھی کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ اردو کو مسلمانوں سے جوڑا جارہا ہے ۔ حالانکہ اس زبان کے فروغ میں غیر مسلموں کا بھی زبردست رول ہے ۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اردو کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ غیر مسلم اردو نواز شخصیتوں کو جوڑا جائے ، جو لوگ اب تک اردو کے سلسلے میں حوصلہ اور خلوص کے ساتھ کام کررہے ہیں اسی طرح اب اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ کام ہورہا ہے ۔ غیر مسلم ادب نواز حلقے اب سامنے آرہے ہیں ۔ این پی سی یو ایل کے کئی ممبران غیر مسلم ہیں۔ اسی طرح ملک کے دیگر ادبی اداروں و تنظیموں سے بھی غیر مسلم اردو والوں کو جوڑنے کا سلسلہ دراز ہونا چاہئے ، یہ عمل اردو کی گنگا جمنی تہذیب کو جلا بخشے گا۔

سوال:
اردو کی خستہ حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے اسے صرف اپنی زبان سمجھ رکھا ہے ، دوسروں کی نظروں میں اردو مسلمانوں کی جاگیر ہے ؟
جواب:
یہ فکر غلط ہے ، مسلمان اس کو جاگیر سمجھتے تو اس کی ترقی کے لئے آگے آتے ، یہ اور بات ہے کہ اردو میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنے دم خم سے آج تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ مائل بہ سفر بھی ہے ۔ مسلمانوں کی زبان کہنا تو اردو کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں ہے ۔ اردو کی خستہ حالی تو تغیر زمانہ کا کرشمہ ہے ، جس طرح دریا اپنے راستے بدل لیتے ہیں تو اسی طرح زبانیں بھی علاقے بدل لیتی ہیں ۔ آج کرناٹک ، مہاراشٹرا ، آندھر اپردیش میں اردو کی حالت بہت بہتر ہے ، یہ اور بات ہے کہ یوپی میں اردو بد ترین دور سے گزر رہی ہے ، اس نے اپنا علاقہ تو بدل لیا ہے ، اردو سے نئی نسل کی عدم دلچسپی کا بھی گلہ کیا جاتا ہے ۔ جنوب میں اردو نئی نسل میں اپنی جگہ بنارہی ہے ، بچوں کا رسالہ، مہاراشٹرا اور آندھرا میں خوب بک رہا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ بچے اردو پڑھ رہے ہیں، نئی نسل اردو کی طرف راغب ہورہی ہے ، تو بھائی اردو کا رونا رونے کے بجائے ہمیں اس کے فروغ کے لئے عملی طور پر حکمت عملی بنانی چاہئے ۔ اردو کے سلسلے میں جب تک ہم اپنا احتساب نہیں کریں گے اور کہاں کہاں ہماری کمیاں ہیں اسے درست نہیں کریں گے تو اردو کا بھلا نہیں ہوگا۔

سوال:
اردو کی ریڈر شپ کم ہورہی ہے ، اردو تہذیب زوال پذیر ہے کیا اس کے لئے اردو کی روٹی کھانے والے ذمہ دار نہیں ہیں؟
جواب:
میں نے جیسا اوپر کہا کہ زمانہ تغیر پذیر ہے ۔ اردو ریڈر شپ کی کمی شمالی ہند میں ہوسکتی ہے، لیکن جنوبی ہند میں بڑھ رہی ہے ۔ اردو کی نئی نئی بستیاں قائم ہورہی ہیں۔ امریکہ، انگلینڈ ، دبئی، کویت ، متحدہ عرب امارات وغیرہ میں اردو کا جلوہ ہے ۔ ہاں البتہ اردو کا معیار زوال پذیر ہے ، ہر شعبہ حیات آج ایک اجتماعی زوال کا شکار ہے بھلا اردو کیسے بچ سکتی ہے ۔ اردو ہی کیوں ہندی کی بھی حالت بہتر نہیں ہے ۔ اردو تہذیب کی خوشبو معاشرے میں گم ہوگئی ہے، لوگ مادیت کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔ اسی مادیت پرستی کی وجہ سے تہذیبی اقدار زوال پذیر ہیں ، بہت سارے جامعات کے معیار میں بھی فرق آیا ہے ، لیکن بہت ساری یونیورسٹیاں بھی ایسی ہیں جو آج بھی اپنے معیار اور تہذیب کو قائم رکھے ہوئے ہیں، وہاں اردو نئے دم خم کے ساتھ موجود ہے ۔ اردو کا عروج و زوال کا سلسلہ دراز ہے ۔، اس کے عروج میں گنگا جمنی تہذیب کی خوشبو کا اہم رول ہے اور زوال میں اس تہذیب کے زوال پذیر ہونے کا ہاتھ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب کو ساتھ لے کر اس کی تہذیب کو زندہ رکھیں ۔ یہ دنیا بھر میں پھیل رہی ہے، لیکن اپنے یہاں اس کی قدر نہیں۔ دنیا میں اردو رابطے کی زبان بن چکی ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں اردو ہمارے بچے بھی نہیں بول رہے ہیں ۔ اس تہذیب کو لانے کی ضرورت ہے ۔ اس کی شروعات اپنے گھر سے کرنی چاہئے، خاص کر خود کو اردو کے خادم کہنے والے حضرات کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے ۔ ارود کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ، لیکن ستم تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو اردو سے تعلق رکھتے ہیں، خاص کر اردو کی زیادہ خدمت کررہے ہیں ، جن کا تعلق کسی اور میدان سے ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ دنیا میں بولی جانے والی چوتھے نمبر کی زبان اردو ہے ، لیکن یہ زبان تمام سیاست اور بے توجہی کے باوجود آج تک زندہ ہے ۔ یہ مستقر بدل رہی ہے ، علاقہ بدل رہی ہے ، بیشتر ممالک میں آج اردو پڑھائی جارہی ہے ۔ میں قطر میں تھا تو وہاں بھی اردو کی تعلیم کا منظر نامہ نظر آیا ، ارود کا خاص کا م نئی بستیاں کررہی ہیں ، اس کا اندازہ مجھے ایئر پورٹ، غیر ممالک کے بازار میں ہوا ۔ میں جدہ گیا تھا ، مجھے وہاں کچھ گولڈ خریدنا تھا تو میں ایک عربی جاننے والے دوست کو ساتھ لے کر مارکیٹ گیا ۔ میں اس سے اردو میں بات کرتا تھا اور میرا دوست عرب دکاندار سے کہتا تھا ، پھر میرا دوست اسے مجھے بتاتا تھا ۔ یہ دیکھ کر عرب دکاندار براہ راست مجھے اردو میں مخاطب ہونے لگا ،۔ عرب دکاندار بھی اردو جانتے ہیں ، کیونکہ اس میں ان کا بزنس چلتا ہے ۔ عرب ممالک میں اردو بزنس کی زبان بھی بن چکی ہے ۔

سوال:
مدارس آج بھی اردو کا گہوارہ ہیں ، لیکن ان کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کرتا، اکاڈمیاں و اردو ادارے انہی کو نوازتے ہیں جنہوں نے چند کتابیں لکھ لیں یہ اور بات ہے کہ انہیں کوئی نہیں پڑھتا؟
جواب:
صحیح ہے مدرسے اردو کی گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بلا شبہ مدرسے آج اردو کے لئے فیڈنگ ایجنسی بن چکے ہیں ۔ اسکولوں سے کہیں زیادہ طلباء ان مدارس سے نکل رہے ہیں، جن کی اردو کے تئیں معلومات کی سطح بھی اسکولوں سے بہتر ہے، وہاں کے طلبان تلفظ کی صحیح ادائیگی بھی کرتے ہیں ، واقعتا مدرسہ والے اردو زبان کی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ وہاں کے طلباء ادب بھی لکھ رہے ہیں اور زبان کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں۔ مدارس کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

سوال:
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اردو کے فروغ میں مشاعروں کا بھی زبردست رول ہے۔ جب کہ سیمنار محض خانہ پری کررہے ہیں، سمیناروں سے اردو کا بھلا نہیں ہوگا؟
جواب:
یہ درست نہیں ہے ، مشاعرے اور سمینار اردو کی مقبولیت اور فروغ کا حصہ رہے ہیں ، اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اگرچہ مشاعروں کی تہذیب و معیار بہت مسخ ہوچکا ہے ۔ لیکن زبان کی تہذیب کا ایک پلیٹ فارم مشاعرے ہیں، لیکن یہ تہذیب اب کہاں برقرار ہے ۔ مشاعرے اور سمینار اپنی اپنی جگہ اردو کی خدمت کررہے ہیں ، لیکن ستم تو یہ ہے کہ مشاعرے عوامی ہوچکے ہیں اور سمینار خواص کے تسکین ادب کا حصہ بن چکے ہیں ۔ دونوں میں عوام و خواص شریک ہوتے ہیں۔ لہذا سمیناروں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرنا بھی نا انصافی ہے ۔

سوال:
کہاجاتا ہے کہ پاکستان میں مشاعرے کم ہورہے ہیں ، ادب کی خدمت زیادہ ہورہی ہے ، جب کہ ہندوستان میں مشاعرے زیادہ ہورہے ہیں، ادب کم تخلیق ہورہا ہے ؟
جواب:
یہ صحیح ہے کہ پاکستان میں مشاعرے کم ہوتے ہیں ، لیکن بہت معیاری ہوتے ہیں ،۔ لیکن ہندوستان میں مشاعرے صنعت کا روپ اختیار کرچکے ہیں ۔ اس سے خرابیاں بھی پیدا ہوچکی ہیں ، معیار مین بھی زوال آیا ہے ، لیکن پاکستان میں بھی ہندوستان سے معیاری شاعر جاتے ہیں ،۔ یہ غلط فہمی ہے کہ یہاں معیاری ادب شائع نہیں ہورہا ہے ۔ دراصل ہندوستان کا معیاری ادب پاکستان نہیں پہنچ رہا ہے ۔ رسائل بند ہیں ، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وہاں کے مشاعروں میں بھی وہی مشاعرہ باز جاتے ہیں، جو یہاں کے مشاعروں کے سرخیل ہیں ۔ ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ ادبی کام ہورہا ہے ۔ ایک بار پاکستان میں لوگوں نے پوچھا کہ ہندوستان میں کتنے لوگ اردو پڑھتے ہیں تو میں نے بتایا کہ آج بھی اردو ہندوستان کی باہمی رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے ۔ پاکستان کی آبادی سے بھی زیادہ ہندوستان میں اردو والے موجود ہیں ،۔ وہاں ہر سمت پنجابیت حاوی ہے ۔2003میں ایک بار ایک اردو سمینار میں شرکت کے لئے پاکستان گیا تھا ، وہاں ہر آدمی پنجابی بول رہا تھا، پاکستان میں دوسری زبانوں کا غلبہ ہے ۔

Urdu becomes the language of communication, Shahpar Rasool

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں