معاملہ صرف اتنا تھا کہ مسلم یونیورسٹی طلباء یونین کے انتخاب کے بعد جب وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ عبداللہ گرلز کالج پہنچے تو طالبات نے یہ مطالبہ کیا کہ انہیں یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری جاکر اسٹڈی کرنے کا موقع دیاجائے ، جس پر وائس چانسلر نے کہا کہ لائبریری میں جگہ کی قلت ہے اور لڑکیوں کے وہاں جانے سے دشواری بڑھ جائے گی ۔ اسی کے ساتھ لڑکیوں کی آمد و رفت کے دوران ان کے تحفظ کا مسئلہ بھی پیدا ہوگا ۔ وائس چانسلر کی اس تقریر کو انگریزی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا نے خوب مرچ مسالہ لگا کر شائع کیا اور لکھا کہ مسلم یونیورسٹی کی لائبریری میں طالبات کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اتنا ہی اخبار نے اس خبر کو سنسنی خیز بنانے کے لئے وائس چانسلر کا یہ بیان بھی جوڑ دیا کہ لڑکیوں کے لائبریری جانے سے وہاں طلباء کی تعداد چار گنی ہوجائے گی اور اس ہجوم کو قابو کرنا مشکل ہوگا ۔ واضح رہے کہ عبداللہ گرلز کالج میں طالبات کے لئے ایک علیحدہ لائبریری قائم ہے اور انہیں حسب ضرورت مولانا آزاد لائبریری سے استفادہ کرنے کی بھی سہولت دستیاب ہے ۔ مسلم یونیورسٹی سے واقفیت رکھنے والوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہاں انڈر گریجویشن کی طالبات کے لئے ایک علیحدہ کالج ہے ۔ مسلم معاشرہ کے خاص مطالابت کے پیش نظر مسلم یونیورسٹی میں کچھ ایسے انتظامات کئے گئے ہیں جو دیگر یونیورسٹیوں میں موجود نہیں ہیں اور ا س کی ایک پوری تاریخ ہے ۔جو معاشرتی تحفظ لڑکیوں کو مسلم یونیورسٹی میں حاصل ہے ، وہ کسی دوسری یونیورسٹی کا طرہ امتیاز نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی تہذیب کے دلدادہ مسلمانوں کے علاوہ ایسے سینکڑوں ہندو والدین ہیں جو اپنی بچیوں کو مسلم یونیورسٹی کے عبداللہ گرلز کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل کراتے ہیں ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وائس چانسلر جس تقریب میں شرکت کے لئے عبداللہ گرلز کالج گئے تھے وہ دراصل طالبات کی نئی یونین کی حلف برداری کی تقریب تھی ۔ بجائے اس کے کہ میڈیا اس بات کو اجاگر کرتا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے دقیانوسی ادارے میں طلباء کے ساتھ ساتھ طالبات کی بھی ایک علاحدی یونین ہے اور اس کا باقاعدہ الیکشن ہوتا ہے اور کامیاب طالبات کو اپنے حقوق کے لئے جدو جہد کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔ میڈیا نے وائس چانسلر کی تقریر کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے یہ تاثر قائم کرنا چاہا کہ مسلم یونیورسٹی کی لائبریری میں لڑکیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس معاملے کی تہہ میں جائے بغیر دہلی میں بیٹھے ہوئے مودی سرکار کے وزیروں نے مسلم یونیورسٹی پر شکنجہ کسنا شروع کردیا ۔ فروغ انسانی وسائل کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی سے لے کر اقلیتی امور کے نوزائیدہ وزیر مملکت مختار عباس نقوی تک سب نے اس معاملے پر لن ترانی کی۔یہ معاملہ قومی خواتین کمیشن کی چیئرمین کو بھی حرکت میں لے آیا۔ سمرتی ایرانی نے دہلی میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ ’’اس قسم کی خبریں انہیں ایک خاتون کے طور پر اذیت پہنچاتی ہیں اور انہیں مشتعل بھی کرتی ہیں کہ جب ہمیں آزادی ملی تو یہ تسلیم کیا جاتاتھا کہ تعلیم اور آئینی حقوق سب کے لئے مساوی ہیں اور اب یہ ایسی خبریں مل رہیں جو بیٹیوں کی توہین کے زمرے میں آتی ہیں۔‘‘ اقلیتی امور کی مرکزی وزیر نجمہ ہپت اللہ نے اس خبر کو خوفناک قرار دیا ۔ قومی خواتین کمیشن کی چیئرمین للتا کمار امنگلم نے کہا کہ’’مسلم یونیورسٹی کو اس بات کا حق کس نے دیا ہے کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ جنسی تفریق کاسلوک روا رکھے۔‘‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مولانا آزاد لائبریری کا قیام1960ء میں عمل میں آیا تھا اور یہ لائبریری صرف طلباء کے لئے مخصوص تھی ۔ جب کہ عبداللہ گرلز کالج (قائم شدہ1936) کی طالبات کے لئے وہاں ایک علیحدہ لائبریری قائم کی گئی تھی ۔ اس وقت یونیورسٹی میں چار ہزار سے زائد گریجویشن کی طالبات ہیں، اگر انہیں مولانا آزاد لائبریری میں آنے کی اجازت دی گئی تو جگہ کی قلت کے باعث لائبریری میں بیٹھنا مشکل ہوجائے گا۔ یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے وائس چانسلر نے طالبات کو وہاں آنے کی اجازت نہیں دی ۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ فروغ انسانی وسائل نے اس معاملے میں وائس چانسلر کو ایک نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے ۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ خواتین کے بنیادی حقوق کی پامالی کا سوال ہے اور کسی بھی صورت میں بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فروغ انسانی وسائل کی مرکزی وزیر کو مسلم طالبات کے بنیادی حقوق کی اتنی فکر لاحق ہے لیکن سرکاری سطح پر اور خود حکمراں جماعت کے ذریعے قدم قدم پرمسلمانوں کے حقوق کی جو پامالی کی جارہی ہے اس کی فکر کسی کو دامن گیر نہیں ہے۔ اس معاملے میں میڈیا کے منفی کردار کے خلاف خود مسلم یونیورسٹی کی طالبات نے ایک زبردست احتجاجی مارچ نکالا اور منفی پروپیگنڈہ کرنے والے اخبارات کو نذر آتش کیا گیا ۔ اس موقع پر فروغ انسانی وسائل کی مرکزی وزیر سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اگر انہیں طالبات کی اتنی فکر لاحق ہے تو وہ یونیورسٹی لائبریری کی توسیع کے لئے فنڈ فراہم کریں تاکہ وہاں طالبات کو بیٹھنے کی جگہ مل سکے ۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ میڈیا نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنی پراگندہ ذہنی کے تحت نشانہ بنایا ہے بلکہ اگر غور سے دیکھاجائے تو یہ میڈیا ایک مستقل اورمنافع بخش کاروبار ہے ۔ اس کاروبار کو فرقہ پرست اور فسطائی ٹولے کی سرپرستی حاصل ہے ۔ پچھلے دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ نے ایک نجی ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا تھا کہ انہیں علی گڑھ سے شائع ہونے والے ہندی اخبارات کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا ہے ، جو یونیورسٹی کو بدنام کرنے اور وہاں کے تعلیمی ماحول کو پراگندہ کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں ۔حیر ت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو فرقہ پرست عناصر مسلمانوں پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ جہالت کی زندگی جی رہے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے دور رکھتے ہیں ، دوسری طرف یہی عناصر اعلیٰ تعلیم کے مسلم اداروں کو اپنی ریشہ دوانیوں کا مرکزبنانے سے باز نہیں آتے ۔ اس معاملے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ان کا خاص ہدف ہے کیوں کہ یہ واحد ادارہ ہے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی نظام قائم ہے اور طلباء اور طالبات کو ان کے تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ مسلم یونیورسٹی کے طلباء میں جو خود اعتمادی اور ملت کا درد پایاجاتا ہے وہ کسی دوسرے تعلیمی اداروں کے طلباء میں نہیں پایاجاتا۔ دراصل یہی وہ چبھن ہے جو سیاسی طالع آزماؤں کو مسلم یونیورسٹی کے خلاف ریشہ دوانیوں پر مجبور کرتی ہے ۔
***
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی |
The wrath of the media on AMU. - Article: Masoom moradabadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں