منصف نیوز بیورو
تلنگانہ اسمبلی میں قائداپوزیشن کے جانا ریڈی نے آج ایوان میں سال2014-15کے عام بجٹ پر جاری مباحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیر فینانس ای راجندر کا پیش کردہ بجٹ، حقیقت سے کوسوں دور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں وہ صرف تصوراتی ہیں اور ان کے ذریعہ کچھ بھی حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ قائد اپوزیشن نے مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مالیاتی خسارہ17393کروڑ ورپے بتایا گیا ہے جس پر حکومت کوئی تعمیری منصوبہ نہیں رکھتی کہ کس طرح اس کی پابجائی کی جائے گی ۔ اس موقع پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور وزیر فینانس ای راجندر نے یہ کہتے ہوئے مداخلت کی کوشش کی کہ حکومت نے آمدنی کے تمام ذرائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے بجٹ کی تیاری عمل میں لائی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اراضیات کی فروخت کے ذریعہ6500کروڑ روپے اکٹھا کئے جائیں گے اور ماباقی خسارے کی مرکز ی حکومت اور بیرونی قرض کے ذریعہ پابجائی عمل میں لائی جائے گی ۔ اس بات پر قائد اپوزیشن کے جانا ریڈی نے کہا کہ صرف ترقی کے باعث ہی آپ کو2545کروڑ کے فاضل بجٹ کے ساتھ اقتدار حاصل ہوا ہے تاہم ٹی آر ایس حکومت نے فاضل معیشت کو ایک خراب معیشت میں تبدیل کردیا ۔انہوں نے راست چیف منسٹر سے اس کا جواب طلب کیا اور یہ بھی پوچھا کہ کس بینک نے اور کونسی مالیاتی کمپنی نے حکومت کو قرض کا پیشکش کیا ہے اور آئندہ چار ماہ میں آپ کتنا سرمایہ ریاست کو لانے والے ہیں ۔ انہوں نے چیف منسٹر سے یہ بھی سوال کیا کہ ریاست میں کون سی مرکزی اسکیم پرعمل آوری کی جارہی ہے ۔ کہ مرکزی فنڈس یہاں پہنچ سکیں ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دس سالوں کی کانگریس حکمرانی کے دوران سرکاری اراضیات کی فروخت کے ذریعہ فنڈس اکٹھا کرنے کی گنجائش پیدا کی گئی تاہم اس عرصہ میں صرف ایک ہزار کروڑ روپے ہی اکٹھا کیے جاسکے ۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ٹی آر ایس کی پانچ ماہ کی حکمرانی کے دوران کتنی اراضیات فروخت کی گئیں اور مالیاتی سال کے ماباقی مہینوں میں اور کتنی اراضیات فروخت کی جانے والی ہیں ۔قائد اپوزیشن کے ان سوالات کا چیف منسٹر یا وزیرفینانس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ قائدا پوزیشن نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مالیاتی سال کے تحت بجٹ مینجمنٹ کا استعمال کرتے ہوئے ریات کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اپنی جملہ گھریلو پیداوار کا تین فیصد قرض حاصل کرے جو پیش کردہ بجٹ میں گیارہ ہزار کروڑ روپے بنتا ہے ۔، انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں اسے 4.79فیصد بتایا گیا ہے ۔ انہوں نے سول کیا کہ آیا مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کو اس کی اجازت دی ہے یا پھر ریاستی حکومت نے اس سلسلہ میں مرکزی حکومت سے کوئی رسمی درخواست بھی کی ہے ؟ قائد اپوزیشن نے دیگر ٹیکسس کے ذریعہ آمدنی کے بارے میں کہا کہ برقی بحران اور ریاست کی تقسیم کے پیش نظر چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کی بڑی تعداد تلنگانہ سیدیگر ریاستوں کو منتقل ہورہی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی نئی کمپنی اپنے صنعتی یونٹس تلنگانہ میں قائم کرنے آگے نہیں آرہی ہے حالانکہ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں بیمار صنعتوں کے احیاء کا بھی وعدہ کیا تھا۔
جانا ریڈی نے کہا کہ بجٹ اس موضوع پربھی خاموش ہے ۔ قرض اور سود کی واپس ادائیگی کے بارے میں بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت تمام غریبوں کو دو بیڈروم والے مکانات کی فراہمی کا وعدہ کرتے ہوئے انہیں گمراہ کررہی ہے کیونکہ اس اسکیم پربجٹ میں صرف ایک ہزارکروڑ روپے مختص کئے گئے ۔ حکومت ایک طرف وعدے کرتی ہے اور دوسری طرف سبسیڈیز میں کٹوتیاں کررہی ہیں ۔، انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اقلیتوں ، ایس سی ایس ٹی ، بی سی اور دیگر طبقات کی آبادی سے متعلق صحیح اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں ہے ۔ بجٹ میں بتایاگیا ہے کہ ریاست میں اقلیتوں کی آبادی، جملہ آبادی کا گیارہ فیصد ہے تاہم اب کہاجارہا ہے کہ اقلیتیں جملہ آبادی کا14.46فیصد حصہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اقلیتوں اور درج فہرست قبائل کو تعلیم اور ملازمتوں میں بارہ فیصد تحفظات کی فراہمی پربھی ہنوز خاموش ہے ۔ جانا ریڈی نے کہا کہ حکومت کو اپنے پیش کردہ بجٹ پر کام کرنا مشکل ہوگا اور اگر حکومت اپنے نشانے حاصل کربھی لیتی ہے تو اسے صرف اور صرف ایک کرشمہ قرار دیاجاسکے گا۔
Telangana budget was far from reality - Jana Reddy
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں