صفر کا مہینہ - قرآن و سنت کی روشنی میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-25

صفر کا مہینہ - قرآن و سنت کی روشنی میں

Safar second islamic monnth
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ "صفر " ہے۔
اس مہینہ سے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے نہ نحوست۔"صفر"کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً عربوں کے گھر خالی رہتے تھے،کیوں کہ وہ ذی القعدہ ،ذی الحجہ اور محرم الحرام کے مہینوں میں ---ان کے حرمت والا ہونے کی وجہ سے جنگ و جدال بند رکھتے تھے اور یہ مہینے مسلسل ہوتے ہیں،اس لیے ان کے گزرتے ہی عرب اپنی موقوف جنگوں کو ازسرِ نو شروع کر دیتے تھے اور سفر پر چلے جاتے تھے،جس سے مکان خالی ہو جاتے تھے۔اس پر عرب کہتے"صفر المکان"۔صفر کی جمع "اصفار"ہے۔
(انظر تفسیر ابن کثیر:7/195)
"صفر" کے مفہوم کی وضاحت کرنے کے لیے مختلف اقوال وارد ہوئے ہیں،جن کا خلاصہ تین باتیں ہیں:
(1) اول یہ کہ اس سے مراد مشہور ماہِ صفر ہے۔
(2)دوم یہ کہ اس سے مراد پیٹ کے کیڑے ہیں۔
(3)سوم یہ کہ اس سے مراد "نسی"ہے یعنی اشہرِحرم میں سے کسی مہینہ کی عظمت کو طول دے کراس میں دوسرا مہینہ شریک کر لینا۔
(ماثبت بالسنۃ:18،وانظر لطائف المعارف:148)

زمانۂ جاہلیت میں لوگوں نے بہت سی غلط اور بے بنیادباتیں اس مہینے سے منسوب کر رکھی تھیں اور وہ مختلف وجوہ سے اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے، وہ پیٹ کے کیڑے کو صفر کہتے تھے اوران کا ماننا تھا کہ پیٹ میں ایک سانپ ہے جو بھوک کے وقت ڈستا ہے، اسلام نے ان سب باتوں کو باطل قرار دیا۔(بذل المجہود:16/242-243) چوں کہ ان کے ہاں اس مہینے سے متعلق بہت سی بے سروپا باتیں منسوب تھیں،اس لیے وہ ان بد فالیوں سے بچنے کے لیے اس ماہ کی تقدیم و تاخیر کے مرتکب تھے۔
اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(اِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَۃٌفِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِءُوْا عِدَّۃَ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوْا مَاحَرَّمَ اللّٰہُ، زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِھِمْ، وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِین)۔ (التوبۃ:37)
ادب کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کردینا کفر میں بڑھ جانا ہے،اس سے کافر گمراہی میں پڑ ے رہتے ہیں۔ایک سال تو اس کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام،تاکہ ادب کے مہینوں کی؛ جو اللہ نے مقرّر کیے ہیں،گنتی پوری کر لیں اور جو اللہ نے منع کیا ہے،اس کو جائز کر لیں۔ان کے برے اعمال ان کوبھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
بعض لوگوں کے نزدیک صفر سے مراد نسی ہے،یعنی ماہِ محرم کے ایام کو بڑھاکر صفر کا مہینہ اس میں شامل کر لینا اور ماہِ صفر کو ماہِ محرم ٹھہراکراسے ایک معزز مہینہ بنا لینا۔(ما ثبت بالسنۃ:18)
زمانۂ جاہلیت کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بلاشبہ زمانہ اپنی اسی اصل حالت پرلوٹ آگیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے مقدر فرمایا تھا۔سال؛بارہ مہینے کا ہوتا ہے،ان میں سے چار مہینے احترام وادب والے ہیں۔تین مہینے مسلسل؛ذی القعدہ،ذی الحجہ،محرم الحرام اور ایک مہینہ مضر کا رجب ہے،جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔(مسنداحمد:20347، البخاری:67، مسلم:1679)
اس حدیث میں ماہِ رجب کی نسبت قبیلۂ مضَر کی طرف اس لیے کی گئی کہ یہ قبیلہ دیگر قبائل کے بالمقابل اس ماہ کی حرمت کے سلسلے میں زیادہ متشدد تھا۔

ماہِ صفر کی حیثیت:اسلام میں
اسلام سے قبل لوگ اس ماہ کو منحوس سمجھتے تھے،لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس توہم کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا: صفر کے مہینے میں نحوست کی کوئی حقیقت نہیں۔(بخاری:5757،مسلم:2220)اس حدیث میں صراحتاً رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرما دیا کہ مرض کی تعدی کوئی چیز ہے نہ بدفالی،الّو کے بولنے سے کوئی نحوست آتی ہے اور نہ ماہِ صفر میں نحوست ہے۔

ایک بے اصل روایت اور اس کا حکم
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛ بعض کتبِ تصوف میں ایک حدیث لکھ دی ہے: (من بشرنی بخروج صفر،بشرتہ بالجنۃ) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے ماہِ صفر کے گزرنے کی بشارت دے گا،میں اس کو جنت کی بشارت دوں گا۔
اس روایت سے بعض لوگوں نے اس ماہ کی نحوست پر استدلال کیا ہے، مگر یہ دلیل ثبوتاً ودلالتاًدونوں طرح مخدوش ہے۔علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ نے اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔
(کتاب الموضوعات:2/348ندیم)
یعنی نہ تو یہ حدیث ثابت ہے اور نہ یہ مضمون اس پر دال ہے۔اگر یہ روایت صحیح بھی ثابت ہو جائے تو اس کا اصل مفہوم یہ ہوگا کہ آپ ﷺ کی وفات چوں کہ ماہِ ربیع الاول میں ہونے والی تھی اور آپ ﷺ انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار وملاقات کے مشتاق تھے،اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے اور صفر کے پورا ہونے کی خبر کا آپ ﷺ کو انتظار تھا۔پس اس خبر کے لانے پر آپ ﷺ نے بشارت کو مرتب فرمایا۔چناں چہ کتبِ تصوف میں اسی مقصد کے اثبات وتائید کے لیے اس کو وارد کیا ہے۔بہر حال!نہ یہ دلیل ثابت ہے اور نہ اس کی دلالت ثابت، پس دعویٰ نحوست باقی اور درست نہ رہا۔(زوال السنۃ:8-9، بتغیر)
معلوم ہوا کہ ماہِ صفر میں نہ کوئی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے نہ نحوست۔مسلمان کا بڑا کام اور سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ کا اتباع کریں اور اتباع کرنے میں اس کو اچھی طرح علماء سے تحقیق کریں کہ یہ قول وفعل حضور ﷺ سے ثابت ہے یا نہیں،سنی سنائی بے سند باتوں کی اتباع کرنا گناہ ہے۔(اغلاط العوام:38بتغیر)

تیرہ صفر کو سفر نہ کرنا /ماہِ صفر میں نکاح وغیرہ نہ کرنا
بعض لوگ 13/صفرکو گھر سے باہر جانا یا سفر کرنا--ممنوع سمجھتے ہیں،لیکن قرآنِ وحدیث اور فقہ--کہیں سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ 13/صفر کو سفر کرنا جائز نہیں۔(خیر الفتاویٰ:1/80، جامع الفتاویٰ:1/344)
مفتی سید عبد الرحیم لاجپوری علیہ الرحمہ نے خوب لکھا ہے:
واقع میں دن،مہینہ یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے۔نحوست تو بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے۔ماہِ صفر اور اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو منحوس سمجھ کر شادی ،منگنی اور سفر وغیرہ جیسے کاموں سے رک جانا سخت گناہ ہے۔'نصاب الاحتساب ' میں ہے کہ کوئی شخص سفر کے ارادہ سے گھر سے نکلے اور کوے کی آواز سن کر سفر سے رک جائے تو بزرگوں کے نزدیک وہ شخص کافر شمار ہوتا ہے۔(مجالس الابرار:248)مشرکین ماہِ صفر کوتیرہ تاریخوں تک منحوں سمجھتے تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے (اس نحوست )کی تردید فرمائی۔افسوس!مسلمان اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے فرمان کے خلاف مشرکین کے عقیدہ کی اقتداء کر رہے ہیں۔(فتاویٰ رحیمیہ جدید:2/22ملخصاً، ترتیبِ پالنپوری)

ماہِ صفر کاآخری بدھ
بعض لوگ ماہِ صفر کے آخری بدھ کو خوشی کی تقریب مناتے ہیں اور مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں،جب کہ یہ سب بلا دلیل ہے۔لوگوں میں اصلاً یہ غلط بات مشہور ہو گئی کہ اس دن حضرت نبی کریم ﷺ نے غسلِ صحت فرمایا تھا اور آپ کے مرض میں افاقہ ہوا تھا۔جب کہ یہ درست نہیں ،البتہ شدتِ مرض کی روایت وارد ہوئی ہے۔(انظر مدارج النبوۃ:2/707، سیرۃ المصطفیٰ:3/157)
ہاں لیکن چوں کہ مسلمان رسول اللہ ﷺ کے مرض میں شدت ہونے کی یہ خوشی نہیں مناتے اور نہ یہودیوں کی موافقت میں ایسا کیاجاتا ہے،پھر یہ امر فی نفسہٖ بھی کفر وشرک نہیں ہے،اس لیے ان حالات میں اس عمل پر کفر وشرک کا حکم نہیں لگایا جائے گا،لیکن یہ ایک نامناسب طریقہ ہے،اس لیے اس سے بچنا چاہئے۔یہ بھی خیال رہے کہ غیروں کی مشابہت دانستاً کی جائے یا نا دانستہ طور پرہو جائے،بچنا اس سے بھی چاہئے۔
اب شاید کسی کو یہ خیال آئے کے چوں کہ اس ماہ میں خلاصۂ کائنات کا مرض شدت اختیار کر گیا تھا،اس لیے یہ مہینہ نامبارک ہے۔یہ خیال بھی دررست نہیں۔اس لیے کہ اس مہینہ میں آپ ﷺ کا مرض بڑھا تھا نہ کہ اس مہینہ کی وجہ سے،دونوں میں واضح فرق ہے۔پھر یہ بھی تو سوچئے کہ اس ماہ میں یہ واقعہ نہ ہوتا تو کسی اور مہینہ میں ہوتا،اور اگر آپ ﷺ کے اس مہینہ میں بیمار ہونے یا بیماری میں اضافہ ہو جانے کی وجہ سے اس مہینے کو نامبارک سمجھتے ہیں تو ربیع الاول کو اس سے زیادہ منحوس سمجھنا چاہئے۔جب کہ ایسا کوئی نہیں سمجھتا۔معلوم ہوا یہ سب واہیات ہیں،شریعت میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں۔(فتاویٰ محمودیہ جدید:3/278-280)

ماہِ صفر کا روزہ
بعض لوگ ماہِ صفر کے آخری بدھ کو خصوصیت سے روزہ رکھتے ہیں، جب کہ اسلام میں اس کی کوئی مشروعیت نہیں۔'امدادالمفتیین' سے ایک سوال جواب ملاحظہ فرمائیں:
آسوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ ، بلادِ ہند میں اس طور پر مشہور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوا پکا کر کھایا جاتا ہے۔ اس روزہ کو کچوری روزہ یا پیر کا روزہ کہتے ہیں ۔شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں ؟
جواب :بالکل غلط اور بے اصل ہے ۔ اس کو خاص طورپر رکھنا اور اس پر خاص ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت او رناجائز ہے ۔حضرت نبی کریم ﷺ اور تمام صحابہ کرامؓ سے ، کسی ایک ضعیف حدیث میں بھی اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی،کیوں کہ کوئی عبادت ایسی نہیں ، جو حضرت نبی کریم ﷺ نے امت کو تعلیم کرنے اور سکھانے سے بخل کیا ہو۔(امداد المفتیین :416 بتصرف)

ماہِ صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا
بعض لوگ کہتے ہیں ؛ چو کہ حضرت نبی کریم ﷺ کو ماہِ صفر کے آخری بدھ میں مرض سے شفا ہوئی تھی ، اس لیے اس دن عمدہ کھانا وغیرہ پکانا چاہیے ۔ اس واقعہ سے اس طرح کا کوئی مسئلہ نکالنا اور اپنے طور پر اس دن کو ہر سال خوشی اور مسرت کا باعث سمجھنا غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے ، اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔ ( مستفاد من أحسن الفتاویٰ :1/360)

بلا اعتقاد اگر نحوست کا خیال آجائے ؟
جو بات مشہور ہوتی ہے، وقت پر اس کا خیال آ ہی جاتا ہے،لیکن اس خیال پر عمل کرنا یا اس کو دل میں جمائے رکھنا،یہ جائز نہیں،بلکہ توکل کو غالب کرے تو باطل خیال فوراًرفع دفع ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ(الفضائل والاحکام للشہور والایام:18)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:"ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس طرح کی کوئی بات نہ آتی ہو،مگر اللہ پر توکل سے یہ دور ہوجاتی ہے۔"(ابو داود:3910)حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص بد فالی سے ڈر محسوس کرتا ہو یا اس سے (اس کے گمان کے مطابق)کچھ نقصان پہنچتا ہو،اس کے متعلق اس طرح دعا کرے:
اللهم لا طير الا طيرك ولا خير الا خيرك ولا إله غيرك
اے اللہ!آپ کے شگون کے سوا کوئی شگون نہیں اور آپ کی خیر کے سوا کوئی خیر نہیں،اور آپ کے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں۔(فتح الباری:10/224)

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

Month of Safar in the light of Quran and Sunnah. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں