بردوان بم دھماکہ اور سیاست - ممتا کا سنگھیوں پر سازش کا الزام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-25

بردوان بم دھماکہ اور سیاست - ممتا کا سنگھیوں پر سازش کا الزام

burdwan-blast
بردوان کے پرسکون اور ہم آہنگ ٹھنڈے ماحول میں پچھلے دنوں کھگڑا گڑھی محلہ میں ایک مکان کے اندر بم کے پھٹنے کے بعد ایسی گرما گرمی آئی ہے کہ پورا بنگال ہیجان میں مبتلا ہوگیا ہے۔
یہ اگر لاء اینڈ آرڈر کا سیدھا سا مسئلہ ہوتا تو اسے کب کا سنبھال لیا جاتا۔ کھگڑاگڑھی بلاسٹ میں سنسنی خیزی سیاست کی پیداوار ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان اپنی سرحدوں پر سرگرم انتہا پسندی سے پریشان ہے۔ پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش سب کسی نہ کسی سیاسی اور سماجی بحران میں مبتلا ہیں اور ان کا اثر ہندوستان کے سماجی ماحول پر بھی پڑتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان معاملات کو سلیقے سے سنبھالنے کے بجائے سیاست کا بازار گرم کرکے حالات بگاڑ دئیے جاتے ہیں۔
کھگڑاگڑی بلاسٹ کے بعد ایک چھوٹی سی واردات اتنی بڑی ہوگئی کہ اس کا پھیلاؤ پورے ملک میں نظر آرہا ہے۔ شہر میں بھی گرفتاریاں ہورہی ہیں۔ شہر کے باہر شمال مشرق اور جنوب میں بھی۔ اسی طرح ضبطیاں عمل میں آرہی ہیں۔ ریاستی پولیس اور قومی تفتیشی ایجنسی اپنی اپنی تحقیقات میں کبھی ایک سمت میں چلتی ہیں اور کبھی ایک سے زیادہ مخالف سمتوں میں۔ کیس پوری طرح سلجھ نہیں سکا ہے۔ سارے عقدے نہیں کھلے ہیں۔ لیکن سیاست خوب بڑے پیمانے پر ہورہی ہے۔ سیاست ہونے کا سبب ہے۔ مغربی بنگال ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کا کوئی اثر نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کی فکر نمائندے مغربی بنگال میں نہ ہوں۔ غیر بنگالی آبادی بایاں محاذ اورترنمول کانگریس یا کانگریس سے ہمیشہ دور رہی۔ بی جے پی کو ایسی آبادیوں میں کافی طاقت ملتی ہے جو غیر بنگالی تجارت پیشہ شہریوں کی ہے۔ لیکن سیاسی تقسیم ترنمول کانگریس اور سی پی ایم کے درمیان ہی ہے۔ بایاں محاظ کا دور اقتدار ختم ہوجانے کے بعد دیگر لیفٹ پارٹیوں کے ساتھ سی پی ایم کا زور بھی کم ہوا ہے۔ ممتا بنرجی تین دہائی تک اکیلے لڑتے لڑتے تھکنے کے قریب آرہی تھیں کہ اچانک مارکسیوں کی پے درپے غلطیوں نے ان کا سیاسی مقام محفوظ کردیا۔ رضوان الرحمن مرڈر کیس، نندی گرام اور سچر رپورٹ نے مسلمانوں میں بایاں محاظ کی گرفت بالکل ختم کردی۔
پوری بھیڑ ایک جھٹکے سے ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کی طرف چلی گئی جس نے اسمبلی اور کانگریس میں ترنمول کی سیٹوں میں کافی زبردست اضافہ کردیا۔ سیاسی منظر سے سی پی ایم یا اپوزیشن کا غائب ہوجانا بنگال کے لئے فعالِ نیک نہیں۔ کیونکہ یہ جگہ کسی اپوزیشن سے ہی پر ہوگی اور سی پی ایم کی عدم موجودگی میں بی جے پی کو اپوزیشن کی جگہ گھیرنے کا موقع مل جائے گا۔
کھگڑا گڑھی میں یہ ہوا کیونکہ اس واردات پر احتجاج کے لئے بی جے پی کی ریاستی صدر راہل سنہا نے جو احتجاجی جلسہ کیا اس میں ہزاروں لوگ شریک ہوگئے۔ بردوان میں بی جے پی کے ہزاروں حامیوں کا سڑک پر نکل آنا ایک بڑی واردات ہے۔ کیونکہ وہاں بی جے پی کبھی طاقت سے باہر نکلنے کے لائق نہیں تھی۔ جس چیز نے بی جے پی کے پرچم تلے غیر بنگالی مظاہرین کو جمع کیا وہ تھا اسلامی آتنک کا نعرہ۔ کھگڑا گڑھی والے مکان میں جو بم بنائے جارہے تھے وہ بنگلہ دیش کی ایک انتہا پسند تنظیم کو بھیجنے کے لئے بنائے جارہے تھے۔ یہ بھی سلامتی ایجنسیوں کا دعویٰ ہے۔ اگر خاموشی کے ساتھ افراد کا ایک گروہ سرحد پار کرکے ہندوستان میں داخل ہوتا ہے اور بدعنوان افسروں کے ہاتھ پر پیسے رکھ کر سرکاری کاغذات بنالیتا ہے تو اس میں کرایہ پر مکان دینے والے سیدھے سادھے مقامی مسلمان کا کیا قصور؟
اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ کھگڑا گڑھی بلاسٹ کی جائے واردات سے تعلق رکھنے والے مالک مکان کے ساتھ پولیس یا سلامتی ایجنسی کا رویہ ذاتی طور پر جارحانہ یا غیر مخلصانہ نہیں رہا لیکن پورے بنگال کے مسلمانوں کو دہشت گردوں کا ہمدرد بتانے سے بی جے پی چوکی بھی نہیں۔ کیونکہ جھگڑا ترنمول کو بدنام کرکے بی جے پی کے لئے سیاسی جگہ نکالنے کا ہے۔ اس لئے مرکز میں حکمران جماعت اور اس کے ماتحت سرکاری ادارے کچھ نہ کچھ ایسا کر رہے ہیں کہ بردوان کا سماجی ماحول فرقہ وارانہ ہوتا جارہا ہے۔
اب تو مرکز اور ریاستی حکومت کے درمیان اس سوال پر باضابطہ تکرار شروع ہوچکی ہے۔ مرکزی حکومت ممتابنرجی کی ترنمول حکومت کانگریس کو ملزم گردان رہی ہے اور ترنمول کانگریس نے مرکز پر جان بوجھ کر کھگڑا گڑھی بلاسٹ کرانے کا الزام لگادیا ہے۔ ممتا کی پارٹی کا کہنا ہے کہ آرایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں بڑی نفاست کے ساتھ رچی گئی سازش کے تحت یہ بلاسٹ کیا گیا اور اس کی تحقیقات جو ایجنسیاں کر رہی ہیں وہ حکمران جماعت کی پیروی کرنے کو مجبور ہیں۔
سیاست کی یہ بازی گری بردوان کے حق میں نہیں۔ اس چھوٹے سے خوش مزاج اور دھیمے دھیمے زندگی کرنے والی قصبہ کو کسی ہیجان میں مبتلا کرنے سے گریز کیا جائے تو شہر والوں پر عنایت ہوگی۔ بردوان ہندو مسلم، بی جے پی، مرکز ریاست تفریقات میں بٹا ہوا نہیں ہے۔ وہاں تو سب مل کر رہتے ہیں۔ زیادہ کی خواہش نہیں کرتے۔ تھوڑے میں گزارہ کرلیتے ہیں۔
ایسے پیارے شہر کو نفرت کی آگ میں جھونکنا انسانیت دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Burdwan blast and politics, Mamata accused of plotting. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں