کتاب عرض ہے - بزرگ کشمیری شاعر فاروق نازکی کا لفظ لفظ نوحہ ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-03

کتاب عرض ہے - بزرگ کشمیری شاعر فاروق نازکی کا لفظ لفظ نوحہ ہے

Lafz-lafz-nauha-Farooq-Nazki
کتاب : لفظ لفظ نوحہ
مصنف : فاروق نازکی
مبصر : تحسین منور

بات کا فی پرانی ہے۔1990 ء کے آس پاس کی۔ دہلی کے براڈکاسٹنگ ہاؤس کے کاریڈور میں چلتے ہوئے ایک شخصیت نے ہمیں روک لیا تھا۔کہنے لگے کہ میاں آپ ماشااللہ سے سادات میں سے ہیں۔کم سے کم خبریں پڑھتے ہوئے رسولِ مقبول کے نام کے ساتھ صل اللہ و علیہ والہ وصلعم تو لگا لیا کیجئے۔ ان کے بات کرنے کا انداز اور لہجہ بہت ہی متاثر کُن تھا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ فاروق نازکی صاحب ہیں جو ریڈیو کشمیر سری نگر کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہیں ۔ہمیں اس وقت یہ نہیں خبر تھی کہ ان کے ساتھ ہمارا تعلق آگے چل کر اس قدر مضبوط ہوگا کہ ہم خود کو ان کے خاندان کا ایک حصّہ سمجھنے لگیں گے۔ کچھ مدت کے بعدایک دن دوردرشن پر ہندی خبریں پڑھنے والی رماپانڈے نے ہم سے کہا کہ تحسین، فاروق صاحب تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس وقت کشمیردوردرشن کے لئے بنائے جا رہے ان کے کچھ پروگرام کا حصّہ تھے۔ان کے شوہر جموں و کشمیر حکومت میں کسی بڑے عہدے پر تھے۔ اسی کے آس پاس ہمارے ساتھ دوردرشن پر اردو خبریں پڑھنے والی اورآل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کی اہم رُکن ثریا ہاشمی صاحبہ نے بھی ہم سے فاروق صاحب کے بارے میں کہا کہ ان سے بات کرلو۔ہم نے جب فون پر ان سے بات کی تو کہنے لگے کشمیر چلو ،تم دیکھنا گھر گھر میں تمہارا نام ہوگا۔
یہ 1990 ء کا وہ پُرتشدد دور تھا جب کشمیر میں روزانہ حالات نئی کروٹ لیتے تھے۔ دوردرشن کے اسٹیشن ڈائریکٹر لسا کول دہشت گردوں کی گولیوں کا شکار ہو چکے تھے۔اس کے بعد یہ زمہ داری فاروق نازکی صاحب کے کاندھوں پر آئی تھی۔ ہم اس دوران دہلی سے ریڈیو کشمیر سری نگر کے لئے بھی خبریں پڑھتے تھے۔ دہشت گردوں کو لگتا تھا کہ یہ سید محمد تحسین کوئی ہندو ہے جو مسلمان نام سے خبریں پڑھ رہا ہے۔ اس دوران ہمارے ایک ساتھی کشمیری نیوز ریڈر کو ملے دھمکی بھرے خط میں ہمیں بھی تنبیہ کی گئی تھی کہ اپنے آپ کو سید محمد تحسین کہنے والے کے موت کے پروانوں پر بھی دستخط کئے جاچکے ہیں۔ ایسے حالات میں 1990ء کے آس پاس ہم فاروق نازکی صاحب کے ساتھ سری نگر دوردرشن کیندر سے نشر ہونے والی اردو کی خبریں پڑھنے کے لئے پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد کے حالات کسی کتاب کا حصّہ ہو سکتے ہیں مگر مختصر یہ کہ جیسا انھوں نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ مگر حالات ایسے تھے کہ شام کے بعد کوئی گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا۔کس مہ پرسی کا عالم تھا ۔یہیں زندگی میں پہلی بار ہم نے بارود کی بو اسی دن محسوس کی تھی جس دن ہمارے پہنچتے ہی قریب کہیں گرینیڈ کا حملہ ہوا تھا۔وہ بارود کی بو آج تک سانسوں سے نہیں جا پائی ہے۔ ہم سوچتے تھے کہ ایک با اعتبار ،باوقار اور حساس خاندان سے تعلق رکھنے والے فاروق نازکی ان حالات میں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے کیا کرتے ہوں گے۔ہم اکثر اپنی حفاظت کوطاق پر رکھتے ہوئے رات کو بھی ان کے گھر پہنچ جاتے۔ وہ مطالعہ کرتے ملتے۔ ان کے والد میر غلام رسول نازکی جو کشمیر کے پہلے براڈکاسٹر تھے اور نعت گوئی میں انھیں کمال حاصل تھا ،وہ بھی کسی کتاب کے ساتھ ہی دکھائی دیتے۔ ہمارا سوال یہی ہوتا کہ اس پُر آشوب دور میں وہ اظہار کے لئے کون سی راہ اپناۂ ہوئے ہیں۔ اور ہمیں جلد ہی جواب مل گیا جب لفظ لفظ نوحہ ہمارے ہاتھ میں آیا۔
شہر سارا ہی کربلا سا تھا
جو بھی تھا خون کا ہی پیاسہ تھا
حصارخوف وحراس میں ہے ،بتانِِ وہم و گماں کی بستی
مجھے خبر ہی نہیں کہ اب میں جنوب میں یا شمال میں ہوں
برداشت کر نہ پاؤں گا وحشت کی رات میں
اے شامِ انتظار بپھرنے لگا ہوں میں
جنوں آثار موسم کا پتہ کوئی نہیں دے گا
تجھے اے دشتِ تنہائی صدا کوئی نہیں دے گا
دیکھتے دیکھتے بستی میں لگ جاتی ہے آگ
روز لُٹ جاتا ہے کوئی مُسکراتا گھر نیا
سکوتِ مرگ طاری ہر شجر پر
یہ کیسا موسمِ تیغ و سناں ہے
چمن افسردہ گُل مرجھا گئے ہیں
خزاں کی زد پہ سارا گلستاں ہے
کتاب پر سنِ اشاعت 1984 چھپا ہے جو غلط ہوگا کیونکہ یہ کتاب 1994ء میں چھپی ہوگی ۔ سرورق مایہ ناز مصورغلام رسول سنتوش نے بنایا ہے۔ان کی کتاب کے فلیپ پر موجود رائے میں پروفیسر آلِ احمد سرور ؔ لکھتے ہیں" آپ کی شاعری کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ اس دور کے ممتاز شعرا میں جدید حسّیت اور موزونِ اظہار دونوں کے لحاظ سے ممتاز ہیں۔جدید دور کے شعرا کے انتخاب میں آپ کا کلام ضرور شامل کرنا ہوگا"۔مظفر حنفی کے مطابق " اپنے اندر کے طوفان کو جس سہار اور سبھاؤ ،جس ندرت اور جدت،جس مٹھاس اور رچاؤ کے ساتھ نازکی نے غزل کے پیرائے میں ڈھالا ہے اس کے نتیجے میں انتشار و شوریدگی کے پہلو بہ پہلو ان کے کلام میں غنائیت اور تغزل بھی کم نہیں۔ اور یہی ان کی انفرادیت ہے"۔عمیق حنفی کے مطابق " یہ ایک ایسے شاعر کا مجموعہ ہے جو باوصف رومانی ،پُر تکلف ،اور نیاز مند نظر آنے کے کھرا ہے۔اس کا ظاہر اور باطن ایک ہے ۔ان میں دوئی نہیں ہے۔اس لئے کشمکش نہیں ۔اس کی لڑائی اپنے آپ سے ہے اور اس کا اندر اور باہر متوازی آئینے ہیں جن میں ایک ہی عکس بے شمار نظر آتا ہے"۔ فاروق نازکی کا لفظ لفظ نوحہ اگر حالات کی ستم ظریفی کا اظہار ہے تو وہیں دوسری جانب اس اظہار کے لئے وہ اپنے کشمیر کے موسموں ،اپنے مناظر ،اپنے رنگوں اور اپنے کشمیر کی خوبصورتی اور دلکشی کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔
موسموں کی حسین شہزادی
چھپ گئی میرے استعاروں میں
پہلی بارش سے برف موسم تک
میں اکیلا ہی سہ گیا سب کچھ
میں نے پوچھا تیری متاعِ حیات
بولا جہلم کہ بہہ گیاسب کچھ
مینہ برسے گا جاڑے میں
اور مصیبت لائے گا
ہے تضادوں کا چمن میرا وجود
فصلِ گُل کا مرثیہ گاؤں گا میں
سنگ باری کے لئے موسم نہیں مخصوص اب
سنگ باری ڈھونڈ لیتی ہے ہمیشہ سر ناا
خس وخاشاک کی مانند انسان
وِتستا میں بہائے جا رہے ہیں
ان کی شاعری میں ایک نیا پن ہے جو کبھی ناصر کاظمی ،کبھی محمد علوی،کبھی میرا جی کی طرزِ بیان کے قریب ہمیں لے جاتی ہے۔ مگر کہیں نہ کہیں وہ فیضؔ کی پیروی میں کچھ زیادہ آگے بڑھتے نظرآتے ہیں۔
دشت در دشت یہاں پھیل رہے ہیں سائے
شہرِ گُلریز سے پھر مجھ کو صدا دے کوئی
عالمِ یاس میں خوابوں میں اترنا تیرا
جیسے بیمار کو جینے کی دعا دے کوئی
تیری مرضی نہ دے ثبات مجھے
بے یقینی سے دے نجات مجھے
ان کی نظریں اٹھیں مری جانب
یاد ہے پہلی واردات مجھے
روز ملتا ہوں میکدے میں اسے
خوب پہچانتی ہے رات مجھے
خسرو کی زبان بولنے والے نازکی کے یہاں مصحفی ؔ کا انداز بھی جھلکتا ہے۔ وہ رومانیت کے اظہار کے لئے اپنے ماحول کے دائرے سے باہر نکل کر بھی زبان و بیان کا استعمال کرتے ہیں ۔
ان نینن کے صدقے جاؤں جو برسیں ہیں ساون ساون
پائے طلب ہے صحرا صحرا ،دست جنوں ہے دامن دامن
شہر کو چھوڑا بن میں آئے ،سوچا تھا بسرام کریں
آنکھ لگی تم دھیان میں آئے ،پھر ہم تھے اور الجھن الجھن
کشمیر سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھوں نے قدرت کو بے انتہا لباسوں میں برہنہ دیکھا ہے۔ وہ قدرت کے قریب ہیں۔ اس لئے ان کے یہاں روحانیت کا بھی شاعری میں امتزاج مل جاتا ہے۔
صحرا صحرا کس نے بانٹے رشد و ہدایت کے یہ موتی
گلشن گلشن پہنچایا اِلہام تمہارا کس نے ،بولو
صحن گلشن میں پتّے پتّے سے
کیجئے کردگار کی باتیں
لیکن اس معاملے میں بھی ان کی بیباکی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
تو خدا ہے تو بجا مجھ کو ڈراتا کیوں ہے
جا مبارک ہو تجھے تیرے کرم کا سایہ
کامیابی میرا مقدر کر
زور کے ساتھ مجھ کو زر دیدے
اب فقیری میں کوئی بات نہیں
حشمت و جاہ و کرّ و فر دیدے
اڑتے ہوئے لمحوں کو پکرنا ہے اگر
خلوت سے نکل صاحبِ جلوت ہوجا
ہاتھیوں کی زد پہ ہے کعبہ میرا
کب ابابیلوں کے لشکر آئیں گے
گردش حالات نے ان کی شاعری کو نئی فکر کی بلندی عطا کی ہے۔ اس لئے وہ حالات سے مایوس نہیں ہیں۔ کم سے کم ان کی زبان پر فیض ؔ کی طرح مہریں تو نہیں ہیں۔
اتنی خراب صورتِ حالات بھی نہیں
جو کہہ نہ پاؤں ایسی کوئی بات بھی نہیں
ہم نے تمہاری راہ میں آنکھیں بچھائی تھیں
تم نے ہماری راہ میں کانٹے بچھا دئے
فاروق نازکی نے ایک زمانہ دیکھا ہواتھا۔وہ جانتے تھے کہ جو کہا جارہا ہے ضروری نہیں ہے کہ سب کچھ سچ ہی ہو۔ اس لئے وہ ان ذہنوں کی تربیت بھی کرتے چلتے ہیں جو بند آنکھوں سے کسی بھی سمت کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جنھیں کوئی بھی ورغلا سکتا ہے۔ کوئی بھی کسی ہوا کے رُخ کے حوالے کر سکتا ہے۔ یہی کام تو عاقلوں کا ہے کہ وہ اپنے علم سے ان لوگوں کو راہ دکھائیں جو کچھ سمجھتے بوجھتے نہیں ہیں۔اس کے لئے وہ خود کو تختہء مشق بنانے سے بھی پر ہیز نہیں کرتے۔
جب کسی محفل میں میرا ذکر ہو
چپ رہو اتنی نوازش تو کرو
میرا کہنا حرفِ آخر بھی نہیں
میری مانو آزمائیش تو کرو
ہم کو خود پہ بھی اعتبار نہیں
ہم سے کیا اعتبار کی باتیں
تم کیا جانو کشمیری
دلّی میں کیا ہوتا ہے
فاروق نازکی کے لفظ لفظ نوحہ میں نظموں کا بھی ایک الگ جہان ہے۔ان نظموں کو پڑھنے کے بعد آپ اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ دونوں میں سے کیا بہتر ہے۔ بقول محمود ہاشمی " دونوں اصناف میں فاروق کا اظہار ایک دوسرے سے مختلف ایک دوسرے سے نبرد آزما اور مفاہیم کی تازہ کار کائنات سے ہم کنار ہے"۔
بہار آئی
مگر پیڑوں پر سیب لگے نہ بگو گوشے
بلکہ انسانوں کی کھو پڑیاں لگ گئیں
ہم بہت خوش ہوئے
اور ہم نے اپنے ہمز ادوں کی دعوت کی
اور جنوں کو کاک ٹیل پر بلایا
ان کی ایک نظم مشورہ ہے جو یقینی طور پر نیک مشورہ کہی جا سکتی ہے۔
بند کمروں میں بہت وقت گزارا تم نے
کھڑکیاں کھول دو
در کھول دو
آجانے دو
نرم چمکیلی طرحدار ہوا کے جھونکے
جسم دیوار بنے
اس کو ہٹا دو ایسے
جیسے دیوار سے تصویر ہٹا دے کوئی
'یہ کیسی رُت آگئی جنوں کی ' میں وہ ایسے حالات سے گزرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جہاں اپنا سایہ تک شک کی نگاہ میں آگیا ہو۔جہاں صرف لکھی ہوئی بات ہی بولنا آسان سا لگتا ہے۔
میں اپنی بیوی سے بات کرتے
نپے تلے لفظ بولتا ہوں
میں اپنے دفتر میں ساتھیوں سے
لکھی ہوئی بات بولتا ہوں
میں اپنے لختِ جگر سے اکثر
نظر ملانے سے کانپتا ہوں
یہ کیسی فصلِ بہار آئی
صبا سے خوشبو ڈری ہوئی ہے
یہ کیسی رُت آگئی جنوں کی
نسیم گُلچیں سے مل گئی ہے
وہ کہیں نہ کہیں حالات سے باہر نکلنے کی راہ بھی سُجھاتے ہیں۔ وہ چاہے ان کی نظمیں ہو یا پھر غزلیں سبھی میں کسی بھی واقعے کو دیکھنے کا ان کا نظریہ زمانے سے جدا ہی ہے۔ سُرخیاں میں وہ جس طرف اشارا کر رہے ہیں کاش اس تک ان کی بھی نگا ہ پہنچ پاتی جو دیدہ ور ہونے کا دعوہ کرتے ہوئے اندھیروں کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔
۔۔۔معصوم الاسلام کی عظیم موت
والدین کو مجاہدوں کے سربراہ نے قرآنِ حکیم کا
نسخہ پیش کیا
جو معصوم الاسلام کی ان پڑھ ماں نے مخمل کے غلاف میں
بند کرکے طاق پر رکھ دیا
کھڑکی سے جھانکتی ہوا نے کہا
" اقراء "
فاروق نازکی کا یہ لفظ لفظ نوحہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ انھوں نے اندر اور باہر دونوں طرف کی آگ کو محسوس کیا ہے۔ یہ ہر اس زمین کا نوحہ ہے کہ جہاں موسموں کو،ہواؤں کو ،رنگوں کو ،پھولوں کو ،خوشبوؤں کو،وفاؤں او ر دعاؤں کو کسی کی نظر لگ جاتی ہے۔ایسے میں صرف لکھی ہوئی بات بول کر ہی حساس لوگ اپنے اندر کی تڑپ کو کم کرنے کی راہ نکالتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے ہر لفظ نوحہ بن جاتا ہے۔

***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book "Lafz Lafz Nauha" by Faruq Nazuki. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں