کتاب عرض ہے - علی رضا عدیل کا منظر عاشور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-16

کتاب عرض ہے - علی رضا عدیل کا منظر عاشور

Manzar-e-Aashur-by-Ali-Raza-Adeel
کتاب : منظرِ عاشور
مصنف : علی رضا عدیل
مبصر : تحسین منور

ہمیں نہیں خبر گزشتہ دو ہفتوں سے ہم پر ایسی کیا کاہلی طاری تھی کہ دو کتابیں پڑھنے کے باوجودہم نے انھیں عرض ہی نہیں کیا۔ ہم کو یہ تو یقین ہوگیا تھا کہ کوئی نہ کوئی کتاب ایسی اپنے لئے راہ بنا رہی ہے کہ جس کے لئے دو ہفتہ کا ناغہ درکار ہے۔ شبِ عاشور گھر آئے تو ہماری کمپیوٹر ٹیبل پر" منظرِ عاشور "نظر آیا۔کربلا والوں سے ہماری خاص عقیدت بھی ہے۔ کربلا میں اگر حضرت امام حسینؑ نے اپنی آل اور انصار کے ساتھ عظیم قربانی نہ دی ہوتی تو اسلام باقی نہ رہ پاتا۔ روزِ عاشور فجر کی نماز سے فارغ ہوکر ہم نے یہ منظرِ عاشور اٹھالیا تب ہمارے نظروں میں ایک ایسے شاعر کا جذبہء عقیدت سماگیا جوکربلا والوں کو اپنے نوحوں کے ذریعے بہترین خراجِ عقیدت پیش کرتا رہاہے۔ ہم کو خیال آیا کہ اس دن ہمارا سماج کے مُدیر خالد انور صاحب کہہ رہے تھے کہ کوئی صاحب آپ کا فون نمبر یا پتہ مانگتے ہوئے ان کے دفتر آگئے تھے ۔وہ کوئی کتاب دینا چاہتے تھے۔ ہمیں یاد آیا کہ ان صاحب نے ہمیں ٹیلی فون بھی کیا تھا اور ہم نے کہا تھا کہ آپ کسی کو بھی کتاب دے دیجئے گا ہم تک پہنچ جائے گی ۔ویسے ہم نے انھیں ٹالنے کے لئے یہ بھی کہا تھا کہ آپ کسی اور سے کتاب پر تبصرہ کروالیجئے کہ ہم ناقد نہیں ہیں مگر وہ ضد کرتے رہے کہ آپ کو ہی کتاب دینی ہے۔ تو یقیناً یہ وہی صاحب تھے۔ اب ان کا نام علی رضا عدیلؔ کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے جو اس کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچاہے۔
کتاب کے سرورق پر منظرِ عاشور کے نیچے عدیلؔ صاحب نے جو اپنی تصویر لگادی ہے وہ کہیں بھی منظرِ عاشور سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔اس سے کتاب کا سرورق خراب ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے جو شعر لکھا ہے اس سے کہیں زیادہ اچھے اشعار کتاب کے اندر موجود ہیں۔وہ اپنی تصویر اگر پشت پر استعمال کر لیتے تو بہتر تھا۔ اس لئے پہلی نظر میں ہم نے اس کتاب کو اہمیت نہیں دی۔روزِ عاشور تھا تو ممکن ہے اس لحاظ سے ہم نے اس کتاب کو اٹھا لیا ہوگا۔دسمبر 2013ء میں شائع یہ کتاب ڈیڑھ سو روپئے کی ہے۔ ملنے کا پتہ ، دفترِ تنظیم الاصلاح(بزمِ ادب) سانکھنی ضلع بلند شہر یوپی اور 64 پی گلی نمبر 18 ،برہم پوری ،نزد حیدری حال ،دہلی 53 درج ہے۔منظرِ ِ عاشور میں کتاب کے حوالے سے کئی مضامین ہیں۔ جن میں پہلا مضمون نوحہ، مظلوم صنفِ سُخن کے عنوان سے ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ جس طرح دیگر رثائی ادب کو اہمیت دی جاتی ہے اس طرح نوحوں کو کیوں نہیں دی جاتی۔کیوں نوحوں کو ادب و تعلیم کا حصّہ نہیں بنایا جاتا۔ماہنامہ ناصر دہلی کے مدیر سیّد رئیس احمد جارچوی نے اسے تحریر کیا ہے۔ وہ یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم انیسؔ اور دبیرؔ کا نام تو بہت لیتے ہیں مگر ابھی تک دہلی میں انیسؔ اور دبیرؔ کے نام سے کوئی تحقیقی مرکز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دہلی ہی کیا لکھنؤ اور فیض آباد تک میں ایسی کوئی یادگار نہیں ہے جبکہ دہلی میں غالبؔ کی یادگار ہے ۔یہ بتاتی ہے کہ یہ بے خبری حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ ان لوگوں کی طرف سے ہے جو خود کو میر انیسؔ سے جوڑتے ہیں خواہ روزی کے حوالے سے ،خواہ مرثیہ خوانی کے حوالے سے۔
قابلِ غور سوال ہے کہ نوحہ اور سلام بھی تو آخر رثائی ادب کا حصّہ ہیں۔ انیسؔ اور دبیر ؔ کے کہے سلام اور نوحے بھی ملتے ہیں ۔پھر نوحوں کو لے کر ہمارے یہاں تحقیق اور تخلیق پر' اتنا سنّاٹا کیوں ہے بھائی 'والی کیفیت کیوں طاری ہے۔منظرِ عاشور سے گزرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ حالانکہ واقعات سب یکساں ہی ہوتے ہیں مگر کلام کہنے کا ہُنر اسے جدابنا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے نوحوں میں تازگی اور نئے نئے رُخ بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ نوحوں اور سلام سے ہمارے تحقیقی اداروں کی غفلت یقیناً یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ ابھی ہمارے اردو کے ڈاکٹر صاحبان نئی سمت میں رواں نہیں ہو پارہے ہیں اور ایک ہی سمت اور ایک جیسی ہی کھوج میں لگے ہیں۔ کچھ ایسی ہی بات اردو اکیڈمی دہلی کے ایک پروگرام کے دوران جسٹس آفتاب عالم نے بھی کہی تھی کہ تحقیق میں نئے نئے باب تلاشنے کی ضرورت ہے۔ جارچوی صاحب تو سیدھے سیدھے اسے تعصب سے جوڑ رہے ہیں۔اگر ایسا ہے تو یہ بھی کمال ہی بات کہی جائے گی کہ وہ اردو جو خود تعصب کا شکار ہے اس کے اندر بھی تعصب کا غلبہ ہے۔ کہیں ہماری زبان غیروں کے کم اور اپنوں کے زیادہ ستم کی تو شکار نہیں ہے۔
ہم بھی کہاں سے کہاں جاپہنچے۔دراصل کتاب کا تعلق کربلا سے جڑا ہے اس لئے حق بیانی اپنے آپ ہی ہونے لگتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم سر کٹانے سے زیادہ سر جھکانے میں یقین رکھنے لگے ہیں مگر کیا کریں کبھی کبھی سچائی ابلنے لگتی ہے۔ اب جب حق بیانی موضوع ہوہی گیا ہے تو یہ بھی بتا دیں کہ یہ علی رضا عدیل ؔ سانکھنوی صاحب صحافی بھی ہیں۔ لیجئے دو آتشہ ہوگیا ۔صحافی بھی اور کربلائی بھی۔ یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے کتاب کے اندر ہی می گویم کے عنوان سے اپنے بارے میں لکھتے ہوئے ایک کانگریسی ایم ایل اے اور ایک صحافی اور ہمارے دوست کی نام لے کر ملامت کی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے انپے اخبار کی جلد ہی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے صبر پر چلنے کی بات بھی کہی ہے۔ ان کی بات کو پڑھ کر ہمیں انپے والدمرحوم پروانہ ؔ رُدولوی یاد آگئے جو حق گوئی میں اسی قسم کے تھے اس لئے نہ اپنے لئے اور نہ اپنی اولادوں کے لئے کچھ زیادہ کر پائے۔تو جناب عدیلؔ صاحب اس قسم کی حق بیانی پر ہم آپ کے لئے تالی تو بجاسکتے ہیں مگر آپ کو آگاہ بھی کردیں کہ آج کے دور میںآئینہ بن کر گھومنے والے کرچی کرچی ہوجاتے ہیں۔ سچ کہنا سولی چڑھنا ہوتا ہے۔ ہشیار رہئے گا۔مولا آپ کی مدد کریں۔۔۔!
خیر ۔۔۔! کتاب میں ڈاکٹر عباس نقوی ،رضا زیدی انسانؔ سیتھلی،اطہر صدیقی،دلدار علی جعفری،انور ظہیر میرٹھی وغیرہ نے بھی اس شاعرِ اہلِ بیت کی شاعری اور شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم جب ان کا کلام دیکھتے ہیں تو حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ شاعر کیا بچپن میں ہی بوڑھا ہوگیا تھا کہ اس گہرائی اور گیرائی کے ساتھ کربلا کے واقعات کو اپنے اشعار کے سانچے میں ڈھال رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ انھوں نے سرورق پر اپنی تصویر کیوں چھاپ دی ہے کہ کہیں کوئی انھیں غلطی سے بزرگ (بوڑھا)شاعر نہ سمجھ لے۔ان کے نوحے ملک کی کئی جانی مانی انجمنوں کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔
کربلا کے واقعات کو نوحوں میں کہنا تو آسان ہے مگر ایک ہی بات کو مختلف انداز سے اس طرح کہنا کہ پڑھنے اور سننے والے پر رقت طاری ہوجائے اور تاریخ کا یہ ظُلم ایک سے دوسرے کی یادوں میں منتقل ہوجائے تاکہ تا قیامت ظلم در در منہ چھپائے پھرے یہی ایک مقصد رثائی ادب کا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ جو شاعر ان واقعات کو ایک نئی فکر کے ساتھ سامنے لاتا ہے اس کے کلام میں یہ طاقت ہوتی ہی ہے کہ وہ زیادہ لوگوں تک پہنچ پائے۔اب عدیلؔ کا یہ شعر جو انھوں حضرت فاطمہؑ کے درد کو سامنے رکھتے ہوئے تحریر کیا ہے ،دیکھئے۔
غم ایسے ملے ہر بار مجے
موت آئی بہتّر بار مجھے
انھوں نے اس مختصر سے شعر میں جو پوری تاریخ رقم کردی ہے وہ اپنے آپ میں یہ اعلان ہے کہ وہ نوحہ کہنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔لیکن صرف نوحہ ہی کیوں ان کی نعت شریف کو اگر دیکھیں تو وہ اس میں بھی اپنے تخیل کو ایک بلندی عطا کردیتے ہیں۔
عدیلؔ ِ خوش بیاں مشکل سفر ہے نعت کا لیکن
خدا نے پیدا کیں آسانیاں نامِِ محمد پر
دنیا نبی ؐ کے نقشِ قدم پر اگر چلے
ہوجائے گایہ ختم جہالت کا سلسلہ
یا حمد کا یہ شعر دیکھئے ۔
ہزاروں نام تیرے ،ایک تو ہے
مگر وحدانیت کی آبرو ہے
اس قسم کے اشعار یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ عدیلؔ کی شاعری یوں ہی مجلس و ماتم میں شرکت کرتے کرتے شعر گوئی تک نہیں آئی ہے بلکہ وہ اپنی شاعری کو فکر کی راتوں کے حوالے کر کے نئی روشنی سے اسے منور کرتے ہیں۔منظرِ عاشور میں منقبتوں کا بھی نذرانہ موجود ہے۔
تشنہ نہریں ہیں تو دریاؤں کا ہے دل پیاسا
ایسا لگتا ہے کوئی ہے سرساحل پیاسا
رکھی دریاؤں نے مقتول کے قدموں پہ جبیں
خون پی کر بھی رہا خنجرِ قاتل پیاسا
اسی منقبت کا یہ شعر آج کے دور کی نذر لگتا ہے۔
لوگ چلتے ہیں یزیدوں کی روش پر جس میں
ایسی بستی سے گزرجاتا ہے سائل پیاسا
منظر عاشور میں عقیدتوں کے بے شمار چاند تارے روشن ہیں لیکن اگر ہم اپنی عقیدت کو چند لمحوں کے لئے فراموش کرکے صرف کلام کی خوبی پر ہی نگاہ ڈالیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاعر بزرگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہا ہے۔اس لئے اس کی شاعری میں روایات کا پاس بھی ہے اور اپنی حق گوئی کی روش کے چلتے صاف صاف بات کہنے کا ہنر بھی ہے۔
عزمِ محکم ہے تو مل جائے گی منزل بھی ضرور
صاف گوئی سے ترا دل آئینہ ہوجائے گا
دل سے بتائیے اس شعر میں کیا یقیں محکم عمل پیہم والی بات نہیں ہے۔ ہم نے یہاں پر جتنے بھی اشعار رقم کئے ہیں تو وہ یہ سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ نوحوں میں شاعری کا الگ جہان موجود ہوتا ہے۔آخر میں چند اور اشعار اور آپ کی زحمت تمام۔
دھار ہے خنجر کی اور سوکھا ہوا حلقوم ہے
اس طرف ظُلم عدو ہے اُس طرف مظلوم ہے
تپتا صحرا ،تشنگی اور سامنے نہرِ فرات
ساقیء کوثر کا بیٹا آب سے محروم ہے
پتھر برس رہے تھے ہر سمت رنج و غم کے
طوفان اٹھ رہے تھے جب راہ میں ستم کے
اسی طرح ان کا نوحہ جو جنابِ زینب کے حال پر ہے وہ کربلا سے شام تک کے اس منظر کو سامنے لے کر آتا ہے جب نبیؑ زادیاں بے پردہ بازاروں میں پھرائی گئیں اور کربلا کے بعد جب علیؑ کی بیٹی نے حسینیت کے پیغام کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
کہتا تھا بشیرِ نوحہ کُناں اب زینبؑ آنے والی ہے
پردے میں رہے ہر پیر و جواں اب زینبؑ آنے والی ہے
نے شیرِ غضنفر ساتھ میں ہے ،نے سبطِ پیمبرؐ ساتھ میں ہے
نے عون و محمد ساتھ میں ہے ،نے ابنِ شبّؑ ر ساتھ میں ہے
نے گود میں ننھا اصغر ؑ ہے،نے شاہ کی دختر ساتھ میں ہے
لیلیٰ کا گُلِ تر ساتھ میں ہے،نے شاہ کا لشکر ساتھ میں ہے
کربل میں لُٹا کے اپنے جہاں اب زینب ؑ آنے والی ہے
پردے میں رہے ہر پیر و جواں اب زینب ؑ آنے والی ہے
آپ جتنا ان کے نوحوں کو پڑھتے ہیں ان کے تخیلات کی بلند پروازی عیاں ہونے لگتی ہے۔اس نوحہ میں آپ شاعری کا خوبصورت رنگ دیکھئے۔
اندھیری رات ارادوں پہ بوجھ لگتی ہے
وطن کی یاد خیالوں پہ بوجھ لگتی ہے
حیات اب میری سانسوں پہ بوجھ لگتی ہے
سکون دل کو نہیں جاؤں اب کہاں امّاں
پرندے لوٹ گئے اپنے اپنے گھر امّاں
ہمارا کارواں سارا بکھر گیا امّاں
وطن کو چھوڑے زمانہ گذر گیاامّاں
دلوں میں جینے کا ارمان مر گیا امّاں
وطن کی کوئی بھی لے کر خبر نہیں آتا
اجالا دور تلک بھی نظر نہیں آتا
ہوا کا کوئی بھی جھونکا ادھر نہیں آتا
یہ کیسی شام ہے ظلم و ستم کے زنداں میں
چراغ زیست بھڑکتا ہے جس کے طوفاں میں
سکینہؑ روتی ہے جب پہلوئے پھوپھی جاں میں
اجل کی دھوپ ہے سر پر نہ کوئی سایہ ہے
ہمیں ہمارا مقدر کہاں پہ لایا ہے
غموں کی آندھی نے دل کا دیا بجھایا ہے
اسی قسم کا کلام ہمیں منظرِ عاشور میں جابجا مل جاتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کربلا کا غم منانے والے ہی ہوں تب آپ منظرِ عاشور سے ہوکر گزریں۔ ہمارے ملک میں تو غیرمسلم نوحہ کہنے والے بھی ہیں اور صاحبِ بیاض بھی ہیں۔ اس لحاظ سے نوحوں کو لے کر آغاز میں سوال اٹھایاگیا تھا وہ اب بھی موجود ہے کہ نوحوں پر اس انداز سے کیوں نہیں تحقیق کی جاتی جس انداز سے رثائی ادب کی اہم صنف مرثیوں پر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ نہ جانے کتنے عدیل ؔ نوحہ کہہ کر گمنامی میں چلے جاتے ہیں ۔بس ان کا انعام تو وہ اشک عزا ہی ہوتے ہیں جو ان نوحوں کو پڑھنے کے بعدکسی آنکھ سے چھلکتے ہیں۔

***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book "Manzar-e-Aashur" by Ali Raza Adeel. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں