مولانا نہرو اور آج کی کانگریس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-17

مولانا نہرو اور آج کی کانگریس

Jawaharlal-Nehru
ابھی دو دنوں قبل یعنی14 نومبر کوملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروکا 125 واں جنم دن ہم نے منایا۔
گوکہ پنڈت نہرو کا یوم پیدائش ہم ہندستانیوں کے درمیان غیر معمولی انداز میں منایاجاتارہاہے۔خصوصاًچاچا نہروکا جنم دن کروڑوں ہندوستانی بچوں کے درمیان خوشیوں کی سوغات بن جاتا ہے کیوں کہ اِس دن کو ہم اور آپ"یوم اطفال"کے طورپر بھی مناتے ہیں ،لیکن تبدیل شدہ ماحول میں اس بار پنڈت جی کو سمجھنے،سمجھانے،قد بڑھانے اور گھٹانے کی مسلسل کوششوں کے درمیان اُن کی خوبیوں اور خرابیوں پر سیر حاصل گفتگو کا ایک نیاسلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پنڈت نہرو کی شخصیت کی تفہیم کی ایک نئی کوشش پھر سے شروع ہو گئی ہے، جس میں ان کے مداح انہیں اپنا "ہیرو" بناکر پیش کرنے میں لگے ہیں جبکہ اُن کے مخالفین انہیں نظرانداز کرنے کیلئے ایسی کوششیں بھی کررہے ہیں،جو نہ صرف یہ کہ حیرت ناک ہے بلکہ ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں قابل تشویش بھی کہلاسکتا ہے۔

پنڈت نہرو غیر معمولی لیاقت و وجاہت کے مالک تھے۔بعض مورخین کاخیال یہ بھی ہے کہ اپنے زمانہ میں نہرو کا شمار دنیا کے پانچ بہترین انگریزی زبان کے لکھاریوں میں بھی ہوتا تھا۔کچھ لوگوں نے یہ بھی لکھاہے کہ کسی دوسرے شخص کے لکھے گئے کسی کاغذیا خط پر دستخط کرنانہروکی شان کے خلاف تھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ نہرو کا زیادہ تر وقت خطوط لکھنے یا مراسلہ ڈکٹیٹ کرنے اوراپنی تقریر آپ تیار کرنے پر صرف ہوجایاتا تھا۔ مؤرخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ نہرو کے بہترین خطابات یا تو بغیر کسی تیاری کے اچانک کی گئی تقریریں ہوا کرتی تھیں یا انھوں نے پھر خود ہی اپنی تقاریرکا متن تیار کیا ہوا تھا۔مہاتما گاندھی کے قتل پر کی گئی ان کی مشہور تقریر" ہماری زندگی کی روشنی گل ہو گئی" تحریری تقریر نہیں تھی بلکہ ریڈیوکے ا سٹوڈیو میں فی البدیہہ کیاگیاان کاوہ بلیغ خطاب تھاجس کو سن کر ان کی روشن خیالی اور سیکولر ہندوستان کے تئیں اُن کے دردوکرب اوران نظریہ کو بخوبی سمجھاجاسکتاہے،جسے نہروکے دل کی آواز کہنے میں ہمیں کوئی مبالغہ نہیں۔
نہرو سادگی پسند بھی تھے اوربڑی شان و شوکت کے مالک بھی۔ان کی سادگی و حلیمی کاایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کسی نے لکھا ہے کہ ایک بار سعودی عرب کے دورہ کے دوران انھوں نے ریاض کے جگمگاتے شاہی محل کے ایک ایک کمرے میں جا کرخود اس کی لائٹیں آف کی تھیں۔یعنی انہیں یہ محسوس ہوا تھا یہ لائٹیں بے وجہ جل رہی ہیں،جن سے توانائی ضائع ہو رہی ہے۔اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ بھی مشہورہے کہ ایک بار سردار پٹیل سے کسی نے پوچھا کہ اِس وقت ملک میں سب سے بڑا قوم پرست مسلمان کون ہے۔ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ سرداربلبھ بھائی پٹیل یاتومولانا ابوالکلام آزاد یا رفیع احمد قدوائی کا نام لیں گے، لیکن پٹیل کا جواب تھا 'مولانا نہرو' ۔
مولانا آزاد کے ہی تعلق سے ایک بار کا یہ مشہور واقعہ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ" ایک دن نہرونے اپنے ذاتی سیکریٹری ایم او متھائی سے کہا کہ مولانا صاحب سے فون پر بات کروائیں۔ جب مولانا نے فون لیا اور نہرو آئے تو ان کا پہلا جملہ تھا "جواہر لال تمہاری انگلیوں میں تکلیف ہے کیا کہ تم دوسرے سے فون ملوا رہے ہو۔" نہرو مولانا کا مطلب سمجھ گئے اور بولے آئندہ سے یہ غلطی کبھی نہیں ہوگی!۔کہتے ہیں کہ اِس واقعہ کے بعد نہروسے تازندگی پھر'غلطی'نہیں ہوئی۔

ویسے یہ بھی سچ ہے کہ جواہر لال نہرو کے ناقدین کی کمی نہیں تھی۔پارٹی اور سرکار کے اندربھی اُن کے بڑے بڑے ناقدموجود تھے،اورباہر کی دنیا میں بھی اُن کے مخالفین اپنے وجود کااحساس دلایا کرتے تھے لیکن حقیقت کو سمجھنا ہو تو تاریخ کے صفحات کوبھی پلٹ کردیکھنا ہی ہوگاجس سے نہرو کے داخلی اور خارجی دونوں قسم کے ناقدین تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔جب ہم نہرو کے آخری دنوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ خارجی سطح پر یعنی پارٹی کے باہر آر ایس ایس کی شکل میں نہروکیلئے ایک بہت بڑا خطرہ موجود تھا،جس کے حوالے سے نہرو نے تشویش کا اعلانیہ طور پر اظہار بھی کیا۔موت سے کچھ دنوں پہلے اعلی افسران کے ساتھ میٹنگ میں جب کمیونسٹوں کے اثرات کی توسیع کا خدشہ ظاہر کیا گیاتو نہرو نے کہا کہ' ہندوستان کو خطرہ کمیونسٹوں سے نہیں ہے،بلکہ اکثریتی ہندوفرقہ پرستی ملک کیلئے خطرہ ہے۔اجلاس ختم ہوجانے کے بعدباہر نکلتے ہوئے نہرو دروازے سے لوٹ کرپھر اندر آئے اورانہوں نے زور دے کر کہاکہ 'میں پھر کہہ رہا ہوں، اصل خطرہ اکثریتی ہندو فرقہ پرستی سے ہے'۔

نہرو کی شخصیت واقعی بڑی عجیب و غریب تھی۔وہ مذہباً ہندو تھے لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ انھوں نے کبھی بھی کسی بت کے سامنے سر نہیں جھکایا، کبھی کوئی نذرونیاز نہیں پیش کی اور نہ ہی کسی نجومی سے مشورہ لیا۔ ایک بار 1954 میں کمبھ کے میلے کے دوران لال بہادر شاستری نے انھیں منانے کی کوشش کی کہ مونی اماوسیہ کے موقع پر وہ گنگا میں ڈبکی لگائیں۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان کے کروڑوں لوگ ایسا کرتے ہیں۔ نہرو کو ان لوگوں کا اورگنگا کا احترام کرتے ہوئے ایسا کرنا چاہیے۔ نہرو کا جواب تھا 'گنگا میرے وجود کا حصہ ہے میرے لیے یہ تاریخی دریا ہے لیکن پھر بھی میں اس میں کمبھ کے دوران نہیں نہاؤں گا۔ ویسے اس میں نہانا مجھے پسند ہے، لیکن کمبھ کے دوران ہرگز نہیں۔'

پنڈت جواہر لال نہرو ملک کو آزادی دلانے والوں میں سرفہرست تھے ۔ گاندھی ،آزاد، پٹیل ،کرپلانی اور لوہیاوغیرہ بظاہران کے رفقا ء میں سرفہرست گردانے جانتے ہیں لیکن یہ بھی ایک مسلمہ سچائی ہے کہ جس طرح خارجی محاذ پر نہرو کے ناقدین کی کمی نہیں تھی، اسی طرح ا ن کے رفقاء کارکے درمیان بھی ایسے لوگ قابل لحاظ تعداد میں موجود تھے جو نہرو کو دل وجان سے پسند نہیں کرتے تھے ۔ نہروکے نظریات وخیالات اوران کی خواہشات کے برخلاف ان کے مقربین بھی نہایت آزادی کے ساتھ قدم بڑھاتے اورانہیں رسواکرتے نظرآئے ۔
آزادی سے قبل بھی یہ صورتحال دیکھی گئی اورآزادی کے بعداس وقت بھی جب پنڈت نہروملک کے وزیراعظم بنے اوران کے بہت سے رفقاء ملک کی پہلی کابینہ میں شامل ہوئے، لیکن نہرو نے اپنے مخالفین کو اُس طرح کچلنے کی زحمت نہیں کی جس طرح سیاسی مخالفین کو آج دبانے کی دانستہ وشعوری کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم وطن کے المیہ کی بات جب چلتی ہے توکچھ لوگ پنڈت جی کو بھی قیام پاکستان کیلئے کہیں نہ کہیں ذمہ دار تصورکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ تقسیم کا المیہ پنڈت نہروکیلئے کس حد تک اُن کی شخصیت کو مجروح کردینے کا سبب ہے لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ تاریخی واقعات سے ایسی شہادتیں موصول ہوجاتی ہیں جن سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد جب دہلی میں قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوا اور دہلی کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کاخون مسلمان ہونے کی وجہ سے بہایاجانے لگاتو پنڈت نہرو کرب اذیت میں ہی مبتلانہیں ہوئے بلکہ وزیراعظم رہتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کی خبر لینے کیلئے جائے وقوع کا دورہ بھی کیا بلکہ محافظ کے رول میں بھی وہ نظرآئے۔
آج کے وزیراعظم کیلئے نہروکا یہ کارنامہ نشان عبرت سے کم نہیں کہ ایک وزیراعظم سیکورٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کیسے ملک کے عوام کی حفاظت کیلئے آگے بڑھتاہے اور ہاتھوں میں ڈنڈے بھی اُٹھاسکتاہے۔

نہروکے حوالہ سے جن یادگاری واقعات کو شمارمیں لانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ نہرو کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں بلکہ یہ دکھانامقصود ہے کہ پچھلے زمانہ کا سیاستداں کیسا ہواکرتا تھا اور آج کے زوال پسند معاشرہ میں سیاستدانوں کی بساط کیابن کررہ گئی ہے۔نہروایک انسان تھے اور بہ حیثیت انسان ان سے بھی بعض بہت بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں،جو نظرانداز کرنے کے قابل نہیں۔مثلاً بابری مسجداور رام جنم بھومی کا تنازعہ ہمارے سامنے ایک ایسانمونہ ہے،جس کے حوالے سے پنڈت نہروکی بے بسی قابل گرفت کہلاسکتی ہے۔پھر بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نہروبلاشبہ سیاستدانوں کی موجودہ نسل کیلئے مشعل راہ کہلاسکتے ہیں توہم اس خیال کودرست مانتے ہیں کیونکہ بعض بڑی کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود نہروکی عظمت مسلم بھی ہے اور ہم ان کی عظمتوں کو سلام کرنے پر مجبور بھی!
لیکن ستم ظریفی اور بدنصیبی یہ بھی ہے کہ نہرو کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش جس اندازمیں آج ہورہی ہے وہ تنگ نظری کی پوری طرح شکارہے۔ کانگریس بساط سیاست پر پٹ جانے کے بعد نہرو کی 125سالہ جشن ولادت کو مناتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہے کہ پنڈت نہروکی وراثت کے تحفظ میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا جائے گا۔
پنڈت نہرو کے نظریات اور خیالات کوسب سے زیادہ اگر کسی نے جوتیوں تلے دبانے کی کوشش کی تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کانگریس پارٹی ہی ہے جس نے قسطوں میں نہروکے نظریات کو نظرانداز کرنے یا پس پشت ڈالنے کی شعوری کوشش کی ۔ نہرو اگر پارٹی کیلئے" آئیڈیل "ہوتے اورکانگریس ان کے نقش قدم پر چلی ہوتی توآج جو صورتحال ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے ، ایسے حالات ہرگزپیش نہیں آتے ۔
واقعہ یہ بھی ہے کہ نہرو کے افکارو خیالات کو کانگریس نے حکمرانی کے نصب العین کا حصہ بنانے کی زحمت نہیں کی۔ بہتوں کیلئے شاید یہ خیال گراں بار گزرے لیکن حقیقت میں یہی سچ ہے کہ نہرو کے بعد اس ملک پر خود کانگریس پارٹی کے قائدین ہی سب سے زیادہ مدت تک حکمراں رہے اورانہوں نے نہرو کو صرف اس حد تک خاطرمیں لانا ضروری سمجھا کہ ان کی شخصیت کوزندہ رکھنے کیلئے چند اداروں کو ان سے معنون کردیاجائے اور یوم ولادت ویوم وفات پر خراج عقیدت پیش کرنے کی رسم پوری کی جائے۔
اس کے علاوہ نہرو کو آئیڈیل تصورکرنے کی کوئی ایسی کوشش نہیں کی گئی جس سے یہ پیغام ابھر سکے کہ کانگریس حقیقی معنوں میں نہرو کی وراثت کی حفاظت میں یقین رکھتی ہے ۔ لفاظی کی حد تک نہروکی شان میں قصیدے پڑھے جاتے رہے لیکن کانگریس کا طرز عمل اورکانگریسی حکومتوں کا رویہ دونوں ہی یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ نہرو اور گاندھی کے فلسفہ کو عملی جہت دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ نہرواورگاندھی کو اگر کانگریس پارٹی اپنی عملی زندگی کا حصہ بناتی اورکانگریسی حکومتیں ان دونوں شخصیتوں کے افکاروخیالات کو رواج دینے کے معاملہ میں ذرا بھی ایماندار واقع ہوتیں توآج ملک کا سیاسی منظرنامہ وہ نہیں ہوتا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔

تاریخ سے سبق لینا عقلمندوں کاکام ہواکرتاہے اورتاریخی واقعات کو فراموش کردینا عقل وخرد کے حوالہ سے یتیمی کے دور سے گزرنے جیساہے۔ کہاجاسکتاہے کہ آج کی کانگریس اورآج کے کانگریسی قائدین دونوں ہی پنڈت نہرو کی وراثت کو ازکار رفتہ سمجھ کر عملی زندگی میں فراموش کرچکے ہیں ۔ گاندھی جی نے سیکولر ہندوستان کی تعمیر وترقی کے حوالہ سے جوخواب اپنے دلوں میں سجایاتھا اورنہرو نے جس خواب میں رنگ بھرنے کی کوشش شروع کی تھی ،اس خواب کو حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اگرکانگریسی قائدین نے کوشش کی ہوتی تو یقیناًیہ کہاجاسکتاتھاکہ کانگریس کو اقتدار سے نہ تومحرو م ہونا پڑتا اورنہ ہی اس کی مقبولیت ، اہمیت اور سیاست میں اس کی ضرورت کم ہوئی ہوتی۔ جو لوگ آج کانگریس کے اندر نہروکی وراثت کو محفوظ کرنے کیلئے کوشاں ہیں ،سچی بات تو یہ بھی ہے کہ انہیں خود کانگریسی ہی نظراندازکررہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ مکمل کرلینے کے بعد ہندوستانی سیاست ایسے نازک مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے جہاں شرکوخیر کے لبادہ میں پیش کرنا اور جھوٹ کو سچ کی حیثیت میں لاکھڑاکردینا عام سی بات بن گئی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑی اور کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ نہروکانظریۂحیات موجودہ دور میں بھی ملک کی وحدت اور سا لمیت کو فروغ دینے کے حوالہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
بقائے باہم اورعدم تشدد کا گاندھی جی کانظریہ اورنہرو کی حکمرانی کے طورطریقوں کو نظرانداز کرنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس ملک کو ایسی راہ پر لے جانے کی کوشش ہورہی ہے جو ملک کی تعمیر وترقی کے حوالہ سے سودمند نہیں کہلاسکتی۔
نہرو کو جس انداز میں آج خود کانگریسی قائدین پیش کررہے ہیں، اس سے یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کی غیر معمولی شخصیت کو چوٹ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سابق وزیراعظم کوخراج عقیدت پیش کرنے کا یہ طریقہ ہرگزہرگز شائستہ نہیں کہلاسکتا جس میں نہروکو ایک کانگریسی لیڈر بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یا کی گئی ہے۔ سیاسی فائدوں کے حصول کیلئے بھی ایسی کوششیں ضرررساں ثابت ہوں گی اور ملک کی تعمیر وترقی کے حوالہ سے بھی ایسی کوششوں کو اوچھی حرکت ہی کہاجائے گا ۔

چنانچہ یہ ضروری ہے کہ نہرو کے 125ویں یوم ولادت کے موقع سے ان کی تفہیم کی کوششوں کو مخصوص عینک لگاکر دیکھنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ نہروکو سمجھنے کیلئے اُن تمام واقعات ،معاملات اور حادثات کی تہہ میں جانے کی کوشش بھی ہو جو نہرو سے متعلق کہلاسکتی ہیں۔ جب تک یہ کوشش صدق دلی سے آگے نہیں بڑھے گی ،پنڈت نہرو یوم دلاوت اور یوم وفات کے موقع پر ہی یاد کئے جاتے رہے ہیں گے اور سال کے363 دنوں کے درمیان انہیں عملی زندگی میں فراموش کیا جاتارہے گا۔

(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
shahid.hindustan[@]gmail.com
شاہد الاسلام

Nehru and the Congress of today. Article: Shahidul Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں