اردو دنیا کا ایک معتبر محقق و مصنف - انجینئر محمد سمیع الدین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-17

اردو دنیا کا ایک معتبر محقق و مصنف - انجینئر محمد سمیع الدین

Engr-Samiuddin
روہیل کھنڈ میں ضلع بجنور کے قصبہ دھامپور سے تقریباً 7؍کلومیٹر فاصلے پر شمال مغرب کی جانب ایک بستی آباد ہے جس کا نام "حبیب والا" ہے ۔حبیب والا "خطہ یونان"کے نام سے مشہور ہے کہ یہاں ہرخاص وعام نے علم کوفرض سمجھ کر اپنایا ہے یہی خطہ یونان انجینئر سمیع الدین کی جائے پیدائش ہے ۔ انجینئر سمیع الدین کی عمر محض پانچ سال تھی کہ وہ سایۂ پدری سے محروم ہوگئے ۔ ولیہ صفت والدہ کی بے مثال تربیت اوربھائیوں کی محبت وشفقت نے آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انینیرنگ کالج سے 1967ء میں سول انجینرنگ میں ڈگری حاصل کی اورکئی محکموں میں خدمات انجام دینے کے بعد 30ستمبر 1998کویو۔پی کے محکمۂ آب پاشی میں ایگزیکٹیوانجینئر کی پوسٹ سے رٹائر ہوئے ۔ دوران ملازمت ان کی دھمک دور دور تک سنائی پڑتی تھی جوان کی انتظامی اور تکنیکی خداداد صلاحیتوں کی مظہر ہے ۔ ان کی سخت مزاجی کے سبب کئی منسٹر اورایم .ایل.اے ان سے الجھے لیکن انھوں نے منھ کی کھائی ۔
انجینئرسمیع الدین کی تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی شاید اسی لیے ان کے اندر تصوف سے گہرہ شغف پیداہو گیا۔خود ان کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہونے کے شواہدملے کہ لوگ حیران رہ گئے ۔ ان کے کئی ماتحت ملازمین اورمتعلقین نے ان کی کرامات بھی بیان کی ہیں ۔ میں نے بھی اپنی ملاقاتوں کے درمیان انھیں درویشانہ صفات سے متصف پایا۔ وہ نہایت جری، حوصلہ مند اورراست گوانسان ہیں لیکن نرم دل بھی اتنے ہیں کہ بقول شخصے :"سارے جہاں کا درد ہمارے جگرمیں ہے ۔"انھوں نے جس تن دہی کے ساتھ اپنے فرض منصبی کواداکیا وہ اپنے آپ میں حیرت انگیزہے ۔ وہ محکمے میں بطور سیلاب مخالف ایکسپرٹ مشہور ہوئے ۔ انھوں نے سیلاب مخالف متعدد پروجیکٹوں پر سینہ سپر ہو کر نہ صرف خود کام کرایابلکہ ساتھیوں کی بھی ہمت وحوصلہ افزائی کی ۔ وہ ہولی ووڈ ( Holly Wood)کی فلموں کے ہیرو سریکھے نظر آتے ہیں جب کہ وہ خونخوار شیر، چیتوں اوردیگر جنگلی جانوروں کے درمیان سے گذرکر اپنی سائٹ پرپہنچ جاتے ہیں وہ بھی بے خوف وخطر اوراکیلے !دریائے گنگا،جمنااور کوسی وغیرہ جیسے متعدد عظیم دریاؤں کے کنارے بنے پشتوں کے ٹوٹنے کو روکنے اورکئی ٹوٹتے پشتوں سے آبادی کوبچانے کی ان کی کوششیں کسی ہالی ووڈ ہیروکے کردار کو پہنچتی محسوس ہوتی ہیں حالانکہ یہ ہیں حقیقت ! اوریہیں ان کی عظمت کااعتراف کرنا پڑتاہے ۔ یہ توتھا انجینئرسمیع الدین کی زندگی کاایک رخ۔ اب ان کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں ۔
انجینئر سمیع الدین نے اعلی سرکاری ملازمت سے باعزت سبکدوش ہوجانے کے بعد دیگر کی طرح سونے ، رونے دھونے یاگردوپیش کے حالات سے شکوہ شکایات کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا۔ بلکہ اپنے اس شوق کو زندہ کیا جوکہ ان کی بے پناہ مصروفیت کے سبب دل کے کسی گوشے میں مقید تھا ۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر دستیاب مستند کتب کے مطالعے کے بعد محققانہ اندازمیں لکھنے کاسلسلہ شروع کیااور بہت کم وقت میں ایساادبی تہذیبی تاریخی اور دستاویزی سرمایہ جمع کردیاکہ پیشہ ورمصنف بھی انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں ۔ وہ اپنی تجزیاتی صلاحیتوں کاتولوہا منواتے ہی ہیں ساتھ ہی دلنشیں انداز بیان سے ان کی تحریریں دلچسپ اورمعنی خیز بن جاتی ہیں ۔ وہ جب تاریخ پرلکھتے ہیں تومحض مورخ ہی نہیں ہوتے بلکہ محقق بھی ہوجاتے ہیں ۔ تحقیق کے مراحل طے کرتے ہوئے ان مقامات کاسفر کر تے ہیں جس کے بارے میں انھیں لکھناہے ۔ اپنے سفر سے اکثر نیا انکشاف کرکے ہی لوٹتے ہیں ۔ذاتی ملاقاتوں کے دوران مجھے اس بات کاشرف حاصل رہا کہ وہ اپنے اسفار اورتحقیق کے متعلق تاثرات کااظہار کرنے کوکہتے اورمیں بے تکلفی کے ساتھ اپنے تاثرات کااظہار کرتا۔سمیع الدین صاحب کی اب تک چودہ تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں اوردو طباعت کے مراحل میں ہیں ۔
انجینئر سمیع الدین سے میری پہلی ملاقات ان کی شہرۂ آفاق کتاب "سلطان الشہدا"کے سلسلے میں ہوئی اوراس کے بعد سے نہ جانے کتنی مرتبہ ملاقاتیں ہوچکی ہیں ۔ اس دوران کیاکچھ ان سے سیکھنے کوملا وہ احاطۂ تحریر سے باہر ہے ۔ مجھے ان کی نثر کارواں انداز پسند ہے ۔ وہ ہرمشکل لفظ کی وضاحت حواشی کے ذریعے کرتے ہیں اور اس خوبی کے ساتھ کرتے ہیں کہ گویا انھیں اپنی تحریرپرعبور حاصل ہے ۔ تلفظ کے مسئلے یاپھر تکنیکی ٹرم کو انگریزی میں لکھ دینا بھی یہ بتاتا ہے کہ وہ قاری کاکس حد تک خیال کرتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ عوام و خواص دونوں میں یکساں طورپر مقبول ہیں۔ ماہر انجینئر ہونے کا پوراثبوت فراہم کرتے ہوئے وہ اپنی تحریر کی مناسبت سے خود کے بنائے نقشے بھی پیش کرتے ہیں جوکہ قارئین کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں ہوتے ۔ اس سے انجینئر صاحب کی جغرافیائی معلومات کابھی عندیہ ملتاہے۔
انجینئر سمیع الدین نے اپنی بے پناہ مصروفیت کے درمیان ہی لکھنے کا آغاز 20ویں صدی کے چوتھے ربع میں کیاتھا۔ ان کی پہلی کتاب "کہکشاں"1981میں شائع ہوئی جوکہ بلندشہر نمائش کے موقع پر منعقدہ مشاعرہ کی روداد نیز شعرا کے تعارف وکلام پرمبنی تھی ۔ اسی سلسلے کوفروغ دیتے ہوئے انھوں نے 1982میں "آبگینہ "کے عنوان سے کتاب شائع کی جس میں شعراء کے تعارف وکلام کے ساتھ ساتھ بلند شہر ضلع کی مشہور ومعروف اورقابل فخر شخصیات کی سوانح بھی شامل تھیں ۔ شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی ، مسیحائے غزل فراق گورکھپوری ، احسان دانش ، حفیظ جالندھری کی شاعرانہ عظمت اورجونسار بابر کے علاقہ کی "رسم دروپدی "اورڈاک پتھرکے قدرتی مناظر پران کے مضامین بھی اس کتاب کی زینت تھے ۔
"پریتی پنج"عنوان سے ان کی دیوناگری رسم الخط میں کتاب شائع ہوئی جس میں شعراء کاتعارف اوران کی شاعری پرتنقید کے ساتھ کلام بھی شامل کیاگیاتھانیزاردوشاعری کی اصناف پربھی مضمون شامل کیے گئے تھے ۔ مشہور صوفی بزرگ اورولی اللہ سیدسلطان بہرائچی ؒ ان کی اولاد، خلفاء اورکئی دیگرمتعلقہ صوفیاء کرام کی بابت معلومات فراہم کرتے ہوئے انھوں نے کتاب "سید عبدالرحمن بن فضل اللہ"تحریر کی ۔ جس میں شجرات رنگین تصاویر اورنقشہ جات کی شمولیت نے تحقیقی مواد کو زیادہ موثر بنادیاہے ۔
سید سالار مسعود غازیؒ کی ذات شریف کوتاریخ سے زیادہ افسانہ بناکر پیش کیاجاتارہاہے لیکن ان کی تاریخی حیثیت کوتحقیق کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش انجینئر سمیع الدین نے کی ہے ۔ انھوں نے ان تمام اضلاع کاذکر مع تاریخ کیاہے جہاں جہاں سے سیدسالار مسعودغازیؒ کاگذرہوا یاپھر معرکہ آرائی ہوئی ۔ چونکہ میراتعلق سنبھل سے ہے اوریہاں برسوں سے "نیزہ میلا"لگتاہے جس کی تاریخی حیثیت کاصحیح تعین ایک معمہ بناہواہے ۔ اس سلسلے میں انجینئر سمیع الدین نے خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ سنبھل میں سید سالار مسعود غازی کی کوئی معرکہ آرائی نہیں ہوئی بلکہ سنبھل کے نزد واقع شہباز پور میں علاقے کے راجہ پرتھوی راج (یہ دلی کا راجہ پرتھوی راج چوہان یارائے پتھورا نہیں ہے ) سے معرکہ آرائی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد جب وہ بحیثیت فاتح سنبھل میں داخل ہوئے تو اس خوشی کے حوالے سے سنبھل میں "نیزے"کے نام سے عوامی میلہ لگتاہے ۔ بہرحال شہداء کے مزارات کی رنگین تصاویر اورنقشہ جات سے مزین یہ کتاب سیدسالار مسعود غازی کی شخصیت کوتاریخی جامع عطاکرتی ہے ۔
"چند قد م گھر سے ۔۔۔!!" ان کا "سفرنامہ پاکستان"ہے لیکن اس میں جس قدرانکشافات ہیں وہ کتاب کی قدروقیمت میں بے حساب اضافہ کردیتے ہیں ۔ ان انکشافات میں جہاں ان کی ملک سے محبت کاثبوت فراہم ہوتاہے وہیں ملک کے غیرسیکولر عوام وخواص کی منفی سوچ کابھی پتہ لگتاہے ۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں کراچی ولاہور میں واقع بزرگوں کے مزارات ، کراچی کا انجینرنگ نقطہ نظر سے جائزہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کی تاریخ اوربرصغیر کی تقسیم وغیر ہ پربھی بھرپور انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔
قرآن کریم میں جن 26 الوالعظم انبیاء اکرام کاذکرآیاہے ان کے تذکرے بمعہ شجرہ ،غزوات ، سرایا اور اصحاب بدرکی تفصیلات پرمبنی کتاب "درّبے بہا" کوبے حدپسند کیاگیا۔ اسے مذہبی تعلیم نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب کامنی پور ،کنّڑ اورانگریزی زبانوں میں ترجمہ کیاجارہاہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد انجینئر سمیع الدین کو (بقول خود ان کے ) خواب میں حضور مقبول ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی گوان کی اس کاوش کوبارگاہِ رب العالمین میں بھی پسندیدگی کادرجہ حاصل ہوا اپنی اس خوش بختی پر سمیع الدین صاحب جتنا بھی ناز کریں ، وہ کم ہے ۔
انجینئرسمیع الدین کی تصنیف ، "تاریخ راپڑی اوراس کی عظمت پارینہ"ایک ایسی تاریخی اورخوشحال بستی کی داستان بیان کرتی ہے جس کاذکر عرب سیاح ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں کیاہے ۔ یہ بستی آج اپنی عظمت کھو بیٹھی ہے ۔ اس کتاب میں بھی کئی انکشافات کیے گئے ہیں نیز بستی میں رہے صوفیاء کرام کی سوانح پربھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ضروری نقشے اوررنگین تصاویر توقابلِ ذکر ہیں ہی ۔
"تذکرہ گنج ہائے گراں مایہ":
تقریباً ساڑھے تین ہزارصفحات پرمشتمل انجینئر سمیع الدین کی یہ کتاب پانچ جلدوں پرمشتمل ہے ۔ ان پانچ جلدوں کو سمیع الدین صاحب نے علیحدہ ناموں سے بھی موسوم کیاہے ،جیسے :
جلد اول - تاریخ دودمانِ عالی
جلد دوم - قریہ جوایک ہے عالم میں انتخاب
جلد سوم - منبع الاسرار
جلد چہارم - تذکرۂ جہانیاں
جلد پنجم - تذکرۂ متفرقات
مذکورہ جلداول تا چہارم شائع ہوکرمقبول عام وخاص ہوچکی ہیں جبکہ پانچویں جلد شائع ہونی باقی ہے ۔ اس جلد میں چار جلدوں پر قارئین کے تاثرات ، تجاویز نیز مشورے توشامل ہونگے ہی ساتھ ہی ساتھ اشاریہ اور ماخذ وغیرہ بھی شامل ہوں گے ۔ اب سے کئی سال قبل جب میں انجینئر صاحب سے ملنے جاتا تو وہ اکثر کہاکرتے کہ یہ ان کی زندگی کاخواب ہے کہ "تذکرہ گنج ہائے گراں مایہ"شاندار طریقے سے شائع ہو۔ دورحاضر میں اشاعت کاصرفہ کمزور مالی حالت والے مصنفین کی جستجو کوفوت کرڈالتاہے ۔ انجینئر صاحب نے بھی جس ایمان داری اورجس طمطراق کے ساتھ فرائض منصبی اداکیے اس میں رٹائر منٹ کے بعد کئی لاکھ روپئے میں ساڑھے تین ہزار صفحات کی اشاعت کامسئلہ نہایت اہم تھا۔ لیکن بلند حوصلہ انجینئرصاحب نے آخر کار ان کتابوں کی اشاعت کا مرحلہ خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کر لیا۔ پہلے کمپوزر حضرات اوربعد میں اشاعتی طریقہ کار میں جس طرح کی دشواریاں پیش آئیں ان سے میں بہ خوبی واقف ہوں اسی بنیاد پر یہ بھی کہہ سکتاہوں کہ ان کتابوں کی اشاعت صرف انجینئرصاحب کے حوصلے اورذوق وشوق کے ذریعے ہی ممکن تھی ۔
"تذکرہ گنج ہائے گراں مایہ"کی پہلی جلد کو کھولا توایک شعر نظر آیا:
میں جھوٹ کی بستی میں بھی سچ بول رہاہوں
اب میرے لیے اس کی سزا دیکھیے کیاہو
اوریہ بھی :
داستانیں لکھ کے رکھ لو چند عنوانوں کے ساتھ
پھریہ باتیں ختم ہوجائیں گی دیوانوں کے ساتھ
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اپنے اسلاف کوبھلادیا اپنے تشخص کومٹادیا اوراپنی تہذیب وتمدن اورثقافت کو فراموش کردیا، اس کو تاریخ نے کبھی معاف نہیں کیا۔قوم کی فکر اور اپنے اسلاف کی عظمت کوبچائے رکھنے کی خاطر انجینئر سمیع الدین نے لکھنے کاجوسلسلہ شروع کیاوہ یقناً قوم کے لیے نہایت سود مند ثابت ہواہے :
اپنے اسلاف کی عظمت کوبچایاجائے
بوجھ بھاری ہے چلومل کے اٹھایاجائے
ملازمت سے سبکد وشی کے بعد جب انجینئر سمیع الدین پر یہ انکشاف ہواکہ وہ اب تک محض خسارے کا ہی سودا کرتے رہے ہیں تووہ دیرینہ آرزو کی جستجو کرتے ہوئے اپنے مقصد کی حصولیابی میں غرق ہوگئے ۔ سات سال کی عرق ریزی اور مشقت شاقہ کے بعد جو معلوماتی ذخیرہ جمع ہوا اس کی اشاعت ایک جلد میں ممکن نہیں تھی چنانچہ انھوں نے کئی جلدوں میں تقسیم کرتے ہوئے علاحدہ علاحدہ ناموں سے موسوم کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔
جلداول یعنی تاریخ دود مانِ عالی میں انجینئر سمیع الدین نے برصغیر ہندوپاک وبنگلہ دیش کے مسلمانوں کے بنیادی انساب (عربی النسل ، عجمی النسل اورہندی النسل) پرغوروخوض کے بعد خانوادۂ انصار یان پرسیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ کتاب کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ مواد کی فراہمی میں کسی روایت کوبناتحقیق شامل نہیں کیاگیاہے یہاں تک کہ شجرات کو "علم الانساب"کی کسوٹی پر پرکھنے کے ساتھ غیرجانبداری ،دیانتداری نیز صاف گوئی سے کام لیا گیاہے ۔ تصوف کی مختلف کتابوں میں بزرگوں کے جوسنہ پیدائش یاوصال تحریر کیے گئے ہیں ان کے تضاد کودورکرنے کی ممکنہ کوشش کی گئی ہے ۔ آغاز میں ہی مسئلہ کفو یاانساب پرسیرحاصل گفتگو کی گئی ہے جوکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بے حداہم معلومات فراہم کرتی ہے ۔ "حسب نسب" ،"کفو"اور "رعایت نسب"کے عنوانات سے وقیع مضمون قلم بند کیے گئے ہیں ۔ مضمون کی رو کے مطابق کفوکئی اعتبارسے ہوسکتاہے جیسے نسب کے اعتبار سے ،دین داری کے اعتبارسے مسلمان ہونے ، معاشی اور پیشے کے اعتبارسے ۔انھوں نے مہراوراقسام مہر ،عجمی ،ولی ، حلالہ جیسی نہ جانے کتنی اصطلاحوں کی شرح کاتفصیلی بیان کیاہے ۔ جس سے اہل علم بھی فیض حاصل کرسکتے ہیں ۔ پیش گفتار کے تحت پروفیسر محمد ولی الحق انصاری نے لکھاہے :
"اہل عرب "علم الانساب"پربہت زور دیتے تھے چنانچہ مختلف افراد کے پاس ان کے شجرے محفوظ رہتے تھے ۔ عرب سے باہر نکلنے والے اہل عرب نے بھی اس روایت کوقائم رکھا۔ چنانچہ ہندوستان آنے والے عربوں کے خاندانوں کے پاس اب تک اپنے شجرے محفوظ ہیں ۔ ایسے ہی خاندانوں میں مختلف انصاری خاندان بھی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان میں دوگروہ "انصار" کالقب استعمال کرتے ہیں ایک گروہ اخلافِ انصارمدینہ ہونے کے مدعی ہیں تو دوسرے وہ ہیں جن کاپیشہ کپڑا بنناہے ۔ بنکروں کے اس گروہ کی بنیاد 1935ء میں عبدالقیوم نے ڈالی جس نے "مومن انصاری"کانا م دیا۔ لیکن اب "مومن"لفظ غائب ہوچکاہے ۔ دونوں گروہ اس طرح خلط ملط ہوگئے ہیں کہ اب ان کی شناخت مشکل ہے ۔"(فلیپ بیک جلداول)
دراصل انجینئر سمیع الدین نے تحقیق بسیار کے بعد"علم الانساب"کی روشنی میں اصل انصاریوں کاتذکرہ اس کتاب کے ذریعے پیش کیاہے ۔ کتاب میں نہ صرف "لقب انصار"پرروشنی ڈالی گئی ہے بلکہ ان علاقوں کی تاریخ پربھی خاطرخواہ روشنی ڈال گئی ہے جن علاقوں میں اصل "انصار"قیام پذیر ہیں یاقیام پذیررہے ہیں ۔ پانی پت ، بھوپال ، بیرسیہ، جمنانگر (ہریانہ) ،سہارنپور، مظفرنگر ، باغپت ،میرٹھ ، بجنور، مرادآباد ،سنبھل ، امروہہ ،آگرہ ، بدایوں، فیروز آباد ، بلندشہر ، سیتاپور ، کانپور، لکھنؤ، بارہ بنکی ، غازی پور ،رائے بریلی ،بہرائچ ،بلیا ،مونگیر اوردکن وغیر ہ کی ناصرف تاریخ وجغرافیہ سے واقفیت ہوتی ہے بلکہ برصغیر ہندوپاک وبنگلہ دیش کے نامور بزرگان انصار کی جامع معلومات بھی حاصل ہو تی پیش کی ہیں ۔ چونکہ سمیع الدین مغل شہنشاہ اکبر، جہانگیر اورشاہجہاں کے ادوار کے ایک مشہور صوفی بزرگ اور ولی اللہ قدرۃ المشائخ حضرت شیخ حبیب اللہؒ کی اولاد سے ہیں ۔اس لیے انھوں نے حضرت شیخ پرخصوصی توجہ مرکوز کی ہے ۔سیدنا حضرت ابوایوب انصاریؓ (میزبانِ رسولﷺ) تک ان کے سلسلۂ نسب اوران کی اولاد کے ساتھ ساتھ ان کے حالات زندگی پربھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ خاکے تصاویر ، شجرات ونقشہ جات وغیرہ نے کتاب کی قدروقیمت میں گراں بہا اضافہ کردیاہے ۔
دوسری جلد"موضوع حبیب والاعرف حسین پور حمید" کی داستان ہے جس کو علاقے میں خطہ یونان سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ حیرت یہ ہوتی ہے کہ ایک انجینئر نے کس طرح مختلف علوم پرطبع آزمائی کی ہے اور وافر مواد جمع کیاہے ۔ انھوں نے علاقہ کی آب وہواسے لے کر بستی کے سماجی ، ثقافتی ومعاشرتی منظرنامے ،اس میں دیرینہ وموجودہ رسم ورواج ، اس کی مذہبی بیداری ، سیاسی بصیرت اورعسکری دبدبہ ،بزرگ ،آثار وقرائن ، صنعت وحرفت ،تہوار اورتہذیب وتمدن پرسیر حاصل تبصرے ومعلومات فراہم کرانے کے ساتھ ساتھ علاقے میں اگنے والی خودروطبّی جڑی بوٹیوں ، لگائے جانے والے اشجار اورپائے جانے والے پرندوں وکیڑے مکوڑوں سے بھی بہت خوبصورت اندازمیں روشناس کرایاہے ۔ یہ سب اس کتاب کاخاصہ ہیں ۔مختلف خانوادہ ہائے موضع (سید وشیخ) ،بزرگان خانوادہ کابھی تذکرہ جامع انداز میں کیاگیاہے ۔ ان کے حواشی بھی نہایت قیمتی ہیں ۔ بنولہ (کپاس کابیج) اوکھلی، بونگا، گاہن ، چھیکا، سینکی وغیرہ کاذکر آج کے دور میں اس لیے اہم ہے کہ عام قاری اب ان سے واقف نہیں رہے ۔انھوں نے خاکوں کے ذریعے بحیثیت ایک انجینئر ان اصطلاحات کو واضح کرنے کی بہترین کوشش کی ہے ۔ دلچسپ تصاویر رنگین پرندوں کی تصاویر ،پرانے مقامات کی تصویریں حبیب والا کی معاشرتی تشکیل کاحصہ ہیں ۔ کل ملاکر انجینئر سمیع الدین نے بستی اورخانوادے کی از سرنو دریافت کرنے کی قابل ستائش کوشش کی ہے ۔ دورحاضرمیں مقامی تاریخ کوجمع کرنے کارجحان پیداہواہے ۔ اس لیے عصری تناظرمیں ان کی یہ کوشش اہمیت کی حامل ہے ۔ پروفیسر مسعود عالم نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے موضع کے گزیٹر سے تعبیر کیاہے ۔
تیسری جلد "منبع الاسرار"کے نام سے موسوم کی گئی ہے جوکہ تصوف میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ تحقیق وجستجو نیز عرق ریزی کے بعد انجینئر صاحب نے جواسرارورموز بیان کیے ہیں وہ موثر اورپڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ صوفیائے کرام اورمجاہدین کبار کے تقدس وعظمت سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی واقف ہیں ۔ "منبع الاسرار" میں اصطلاحاتِ تصوف کے عنوان سے انبیاء ، رُسُل ،صحابی، درویش ،قلندر، عارف ومرشد ، زاہد وشیخ ، شریعت ، طریقت ، حقیقت ،مجاہدہ ، زہدوتقویٰ ،صوفی ، تصوف ، بیعت ومرید ، سماع ووجد وغیرہ کے تعلق سے پرمغز بحث کی گئی ہے ۔ "علم لدنّی " کے باب کے تحت کشف ، مراقبہ ، الہام ، خرقِ عادت (معجزہ ، کرامت اوراستدراج ) وغیرہ کے تعلق سے بحث کی گئی ہے ۔ باب "شطحیات"کے تحت سُکر ومحو،استغراق ومشاہدہ ،سلوک ، سالک مجذوب وغیرہ کے متعلق بیان ہے ۔ چند سطحیات اورمجاذیب کی سوانح اورسلاسل طریقت پربھی جامع اندازمیں معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ "رجال اللہ" کے لیے بھی ایک باب مختص ہے اس میں 46رجال اللہ کی سوانح بھی مختصراً مگرمحققانہ انداز میں دی گئی ہیں۔ اولیا ء اللہ کی شناخت اور چندبزرگ اولیاء اللہ کی سوانح کوپیش کرکے کتاب میں تصوف کاخاطرخواہ مواد فراہم کردیاگیاہے ۔
اہم سلاسل اوران کی ابتدائی کڑیوں کے تحت رنگین صفحات پرشجرہ دیاگیاہے جونہایت معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ دیدہ زیب بھی ہے ۔اہم بزرگوں کے مختلف مزارات کے دیدہ زیب تصاویر نے کتاب میں چارچاند لگادیے ہیں ۔
چوتھی جلد"تذکرۂ جہانیاں"ہے جس میں انجینئر سمیع الدین نے منفرد زاویے سے تاریخ کامطالعہ کیاہے اور دلچسپ نتائج برآمد کیے ہیں ۔ متعدد مورخین نے شاہان وقت کے ساتھ اولیائے عظام اورصوفیائے کرام کے تعلقات کو دیکھا اورمشاہدہ کیاہے لیکن انجینئر سمیع الدین نے جس انداز سے ان تعلقات کوابھاراہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے ۔ انھوں نے سلاطین ہندکی بادشاہت اورحکومت کے پس پشت صوفیائے کرام اوراہل اللہ کے فیوض اورنظرکرم کو اپنے مشاہدے کے ذریعے دلچسپ پیرائے میں اجاگرکیاہے ۔ اس سے بخوبی انکشاف ہوجاتاہے کہ حکومت وسیاست درحقیقت ولایت کے تابع ہوتی ہے ۔انجینئر سمیع الدین نے خاندان غزنویہ ،خاندان غور، مملوک سلاطین ، خاندانِ خلجیہ ،خاندانِ تغلق ، سیدخاندان ، لودھی خاندان ،عہد بربریت ، خاندانِ مغلیہ ،خاندانِ سور، سلاطین گجرات ، سلاطینِ دکن ، سلاطینِ تلنگانہ اورسلاطینِ بیجاپور کواپنی انوکھی تحقیق سے وابستہ کیاہے ۔ یہ کتاب ہندوستان کی تاریخ کابڑی حد تک احاطہ کرلیتی ہے ۔اولیاء اللہ اورسلاطین کے درمیان تعلقات کواجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بخوبی عکاسی کی گئی ہے ۔ فرداً فرداً سبھی پر مفصل انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ کون ساسلطان یا بادشاہ یا خاندان کس درویش کی دعا سے مسند نشین ہوا، اس نے اسلام کے فروغ اور رفاہِ عام میں کتنی دلچسپی لی ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ کس کی بد دعا سے کون تباہ وبرباد ہوا۔ اہم مقابر اورتاریخی عمارتوں کی دیدہ زیب تصاویر اوربڑے سائز پر معلوماتی نقشہ کتاب کاخاصہ ہے ۔
انجینئر سمیع الدین نے "حبیب الانساب"اور"گردِسفر" (خودنوشت) کو ضبط تحریر میں لادیاہے اور جلد ان کی اشاعت کی توقع ہے ۔ انھوں نے جس جاں فشانی سے ان کتابوں کوتحریر کیاہے وہ کامیابی کی دلیل ہے ۔ اس بات کا یقین ہے کہ یہ کتابیں ہندوپاک کی تاریخ وتصوف کے طلبا، محققین اوراساتذہ کے لیے نہ صرف مشعل راہ ثابت ہوں گی بلکہ تحقیق کے نئے باب واکریں گی ۔دعاگوہوں کہ اللہ تعالی بزرگان دین کے طفیل ان کے قلم میں مزید زور پیدا کرے نیز ان کی شفقت ہمارے سروں پر تادیر قائم رہے ۔

Eng'r Mohd Furqan Sambhali
Urdu Deptt. A. M. U., Aligarh -202002(UP)
Mob.: 09568860786, 09411808585
f.sambhli[@]gmail.com
فرقان سنبھلی

Engr Samiuddin, A credible Researcher & Writer of Urdu World. Article: Eng'r Furqan Sambhali

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں