یارب بڑی عجیب ہے نادان دل کی خواہش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-08

یارب بڑی عجیب ہے نادان دل کی خواہش

Muslims-ignoring-religion-culture-etiquettes
نامپلی پر واقع حج ہاوز سے عازمین حج کی مسلسل کئی دنوں تک روانگی ہوتی رہی اور ہر دن کسی نہ کسی سیاسی قائد نے عازمین حج کو وداع کرنے کے لئے حاضری دی ۔ ایسی ہی ایک تقریب کے دوران آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو بھی موجود تھے ۔ عازمین حج کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے رمضان کی مبارک باد دے ڈالی ۔ اخبارات نے اس حوالے سے خبر بھی شائع کی اور اخبارات کے قارئین نے اس خبر کو بڑی ہی دلچسپی کے ساتھ پڑھا اور اپنی آراء کا بھی اظہار کیا ۔ یوں تو الگ الگ حضرات نے اپنی رائے الگ الگ طریقوں سے ظاہر کی لیکن ایک صاحب نے کہاکہ ’’ارے بابو تو اتنا ہائی ٹیک انسان ہے اور اس کو اتنی چھوٹی سی بات نہیں معلوم کہ رمضان المبارک کا مہینہ کبھی کا ختم ہوگیا اور اب تو بقرعید کی آمد آمد ہے اور حج ہاوز سے مسلمان حج کے لئے روانہ ہورہے ہیں‘‘ ۔
ایک مسلم شخص کے اس نقطہ نظر نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ واقعی چندرا بابو نائیڈو عیدالاضحیٰ کے بجائے رمضان کی مبارکباد دیتے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہے یا ہم مسلمانوں کی ؟ کچھ صحافی حضرات نے وضاحت کی کہ ’’اصل غلطی تو ان صاحب کی ہے جنہوں نے چندرا بابو نائیڈو کو حج ہاوز کے پروگرام کے لئے تقریر لکھ کر دی‘‘ ۔ اگر واقعتاً یہ صورتحال سچ ہے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صرف وزیراعلی این چندرا بابو نائیڈو کو ہی نہیں بلکہ ان کے مشیروں کو بھی جو کہ ان کی تقاریر لکھتے ہیں رمضان المبارک اور حج کے متعلق صحیح معلومات نہیں ہیں ۔
اگر غیر مسلم حضرات کو دین اسلام کے متعلق معلومات نہیں ہیں تو یہ بھی ہم مسلمانوں کا ہی قصور ہے چونکہ دین اسلام کے پیروکاروں کا یہ ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی تھے اور اب قیامت تک دوسرا کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبیؐ کے پیغام محبت اور اللہ کی دعوت حق کو سارے عالم کے لوگوں تک پہونچانے کی ذمہ داری مسلمانوں کے کاندھوں پر ہی ہے ۔
اور مسلمان کیا کررہا ہے ؟ مجھے شاید حق نہیں پہونچتا کہ میں سارے مسلمانوں کے بارے میں بات کروں ہاں میں اپنا احتساب اور اپنا حساب کتاب خود دیکھ سکتا ہوں اور جب میں یہ اہم فریضہ انجام دینے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی غیر مسلم حضرات کو مسلمانوں کا اور اسلام کا صحیح تعارف پیش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
میں نے جب گھر خریدا تو مسلم محلے کو ترجیح دی ۔ اپنے بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوایا تو مسلم انتظامیہ کے اسکول کو چنا ، کالج کا انتخاب کرنا تھا تو مسلم مائناریٹی کالج کا انتخاب کیا ۔ ٹریفک پولیس والا مجھے سگنل توڑتے ہوئے پکڑلیا تو جب میں اس کا نام پڑھا کہ وہ مسلمان نہیں تو میں نے اس کو بی جے پی کا چیلہ کہدیا ۔ پارکنگ کرنے کے دوران کوئی مجھ پر سبقت لے گیا اور مجھ سے پہلے گاڑی پارک کردی تو اس کی گاڑی پر لگے لیموں کو دیکھ کر میں نے اسے آر ایس ایس کا آدمی قرار دے دیا ۔ بینک کی قطار میں میرا نمبر آنے تک کیشیئر نے کہا کہ 100 کے نوٹ نہیں ہیں صرف 500 کے نوٹ ہیں تو میں اس سے الجھ جاتا ہوں اور فوری کہتا ہوں کہ ’’کیوں میں مسلمان ہوں بول کر میرے کو 100 کے نوٹ نہیں دیتے بول رہے ہیں جب سے دیکھ رہا ہوں سب کو 100 کے بنڈل دئے ہاں؟‘‘ ۔ کیشیئر جو کہ مسلمان نہیں ہے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے ارے بھائی صاحب اس میں مسلمان اور ہندو کی بات کہاں سے آگئی لیکن میں جذبات سہ اس قدر غالب ہوجاتا ہوں کہ چیخ کر اور چلا کر پورے بینک کو سر پر اٹھالیتا ہوں۔
بس اسٹانڈ کو دور دیکھ کر میں جب سڑک کے کنارے ہی کھڑے ہو کر وہاں سے گذرنے والی بسوں کو ہاتھ کے اشارے سے رکنے کو کہتا ہوں اور جب کوئی ڈرائیور میرے اشارے پر بھی بس نہ روکے تو اس کو دل ہی دل میں گالی دے کر کہتا ہوں کہ تعصب تو دیکھو ان لوگوں کا مسلمانوں کی گلی کے پاس ٹھہرا ہوا ہوں تو مسلمان سمجھ کر گاڑی ہی نہیں روک رہا ہے ۔
محلے میں گیارہویں کی دعوت اور میلاد النبیؐ کے موقع پر بڑے بڑے ساؤنڈ بکس محلہ میں باقی بچ رہنے والے اکلوتے غیر مسلم کے دروازے کے سامنے لگاؤں گا اور اگر وہ دھیمے لہجے میں بھی اعتراض کردے تو بآواز بلند کہوں گاکہ ارے حالت تو دیکھ اس کی ہماری گلی میں رہ کر بھی ہمارے سامنے آواز نکال رہا ہے ۔
اگر میرے فون پر رانگ نمبر لگ جائے اور مجھے اس بات کا پتہ چلے کہ فون پر دوسری جانب کا فرد مسلمان نہیں تو جو منہ میں آیا بکنا شروع کردوں گا اور فخریہ انداز میں اس واقعہ کو دن بھر اپنے ساتھیوں سے سناتا پھروں گا ۔
میں سرکاری ملازم ہوں اور مسلمان بھی تو پورے رمضان کے دوران دفتر کو دیر سے جانا اور جلدی (ایک گھنٹہ پہلے گھر جانے کی تو سرکار بھی اجازت دیتی ہے) گھر آجانا ایک بنیادی حق سمجھتے ہیں اور حکومت سے ہمارا مطالبہ ہوتا ہے کہ مجھے عید کی ایک دن نہیں تین دن کی چھٹی چاہئے ۔
اور اگر میرے ساتھ کام کرنے والا غیر مسلم ساتھی ایک دن خیریت آباد میں بیٹھنے والے سب سے بڑے گنیش کی مورتی کی پوجا کے لئے دفتر سے جلد نکل جائے تو میں کچھ ایسا تبصرہ کروں گا کہ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے ان لوگوں کے حوصلے ہی بڑھ گئے ہیں ، سارا مسئلہ صرف مسمانوں کا ہی ہے ۔
اس سارے پس منظر کو بیان کرنے اور اپنی حالت کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر چندرا بابو نائیڈو یا انکی تقریر لکھنے والے ان کے مشیر ان کو اسلام کے متعلق اور دین کے متعلق صحیح معلومات نہیں ہیں تو اس کے لئے میں خود بھی ذمہ دار ہوں ۔
میں قرآن مجید کو کلام اللہ کہتے نہیں تھکتا ہوں لیکن رمضان المبارک کے بعد شاید ہی کھول کر پڑھتا ہوں ، دیکھ کر قرآن کو پڑھنے کی ہی عادت نہیں تو میں کیا قرآن کو سمجھ کر پڑھ پاؤں گا ۔ قرآن مجید کو تو میں نئے مکان ، نئی دکان میں رکھنے کی برکت والی کتاب مانتا ہوں ۔ اب قرآن میں کیا پیغام ہے اور ایک مسلمان کی کیا کیا ذمہ داریاں بتلائی گئی وہ تومیں پڑھتا بھی تو سمجھ نہیں پاتا ہوں کیونکہ میں نے دنیا بھر کے علوم کو پڑھنا ضروری سمجھا لیکن مجھے عربی زبان بھی پڑھنی چاہئے ۔ یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی ۔
انٹرنیٹ پر ای میل کرنا اور اسمارٹ فون استعمال کرنا ، فیس بک پر اپنا پروفائل کیسے بنانا نہیں آتا تھا تو ایک جاننے والے لڑکے کو کچھ پیسے دے کر میں نے یہ سب چیزیں سیکھنی ضرورت سمجھی ، لیکن عربی کہاں اور کس سے سیکھی جاسکتی ہے جس کو سیکھ کر میں قرآن پڑھ سکوں اس جانب میری توجہ ہی نہیں جاتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ میں قرآن کا ادب و احترام نہیں کرتا ہوں ، جب قرآن مجید پڑھتا ہوں تو پہلے وضو کرتا ہوں اور تلاوت کرنے کے بعد قرآن کو اپنی آنکھوں سے چومے بغیر واپس جزدان میں نہیں رکھتا ہوں ۔
میری اس طرح کی حرکات کے سبب معلوم نہیں کتنے غیر مسلم حضرات ہیں جنھوں نے میرے چلنے پھرنے ، میرے انداز کار ، میرے کاروبار اور میرے معاملات کو ہی اسلام سمجھا ۔ لازمی بات ہے کہ اب وہ جتنا کچھ بھی مسلمانوں کے متعلق سمجھیں گے وہ صحیح تو نہیں ہوگا تو لوگوں میں اسلام کے متعلق کم علمی کے لئے بھی میں ہی ذمہ دار ہوں ، اسلام کی غلط تصویر پھیلانے کے لئے بھی میں ہی ذمہ دار ہوں ۔
اور خود میرے بچے اسلام کے متعلق کتنا جانتے ہیں ؟ فیس بک اور نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر پیش کئے جانے والے اچھے اقوال کو like کرکے اور داعش و آئی ایس آئی ایس جیسی نام نہاد جہادی تنظیموں کے جاہلانہ ویڈیوز کو share کرکے میرے بچے سمجھتے ہیں کہ وہ نیکیاں کمارہے ہیں اور میرے بچے جب کبھی اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں تو سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ان کے لئے جنت میں جانے کا واحد راستہ جہاد ہے اور آئی ایس آئی ایس و داعش جیسی نام نہاد تنظیمیں انہیں جنت کے راستے پر لے جاسکتی ہیں ؟
میں کوئی مولانا نہیں میں کوئی مفتی نہیں ، ہاں میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے اوروں سے مختلف زندگی گذارنی ہے اور میں اپنی زندگی کیسے گذاروں اس کا طریقہ قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے ۔
اپنے آپ کو سچا مسلمان بنانا اور اپنی اولاد کو صحیح اسلامی تربیت سے آراستہ کرنے کا کام بھی بہت بڑا اور بڑی ذمہ داری کا ہے ۔
میں تو یہ مانتا ہوں کہ دانشمندی اور فراست مومن کی میراث ہے ۔ تو میں یہ کیسے تسلیم کرلوں کہ ایک اچھا مسلمان کسی غیر مسلم کا گلاکاٹتا ہے اور اس کو جہاد کا نعرہ دیتا ہے تو یہ جہاد کیسے ہوگا ؟
کیا میں نے بحیثیت مسلمان داعی ہونے کے جو فرائض تھے وہ نبھائے ، نہیں تو میں کسی کافر ، مشرک یا غیر مسلم کو برا کیسے کہہ سکتا ہوں جب تک میں ان کو حق کی دعوت نہ دے دوں ؟
فرائض کے حوالے سے یاد آیا کہ ہمارے بچوں کو بڑے ہونے کے بعد بھی یہ تک نہیں معلوم کہ غسل کے کتنے فرائض ہیں ؟ اور جب ان کا غسل ہی صحیح نہیں ہوگا تو نمازیں کیسے درست ہونگی اور آپ حساب کرلیجئے گا ہمیں خود مسلمانوں میں اصلاح کا کتنا کام کرنا باقی ہے پھر غیروں کی دعوت ہے اور افسوس ہوتا ہے ہمارے نوجوان ان اصل کاموں کو ترک کرکے جنت میں جانے کے اور راستے تلاش کررہے ہیں ۔
یارب بڑی عجیب ہے نادان دل کی خواہش
عمل کچھ بھی نہیں پر دل طلبگار جنت کا

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

Muslims ignoring the etiquettes of religion and culture. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں