جموں و کشمیر کا خصوصی موقف - دستور کے بنیادی ڈحانچہ کا حصہ - رام جیٹھ ملانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-09

جموں و کشمیر کا خصوصی موقف - دستور کے بنیادی ڈحانچہ کا حصہ - رام جیٹھ ملانی

سری نگر
پی ٹی آئی
سابق بی جے پی رکن پارلیمنٹ اور ممتاز قانون داں رام جیٹھ ملانی نے کشمیر کے تعلق سے پاکستان کے سابق حکمراں پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولہ کی وکالت کی ہے اور کہا ہے کہ اس (فارمولہ) کے دستاویز کو مسئلہ کشمیر کے مستقل تصفیہ کی بنیاد بنایاجاناچاہئے۔ جیٹ ملانی نے کہا کہ’’مشرف ایک مستحکم ارادہ اور نیک نیتی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے ۔ ان کی تجویزمسئلہ کشمیر کا شاندار حل ہے ۔ یہ ایک حیرت انگیز دستاویز ہے جو کشمیر کے تصفیہ کی مستقل بنیاد ہونا چاہئے ۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کہ ان کی (مشرف کی) کوششوں کو پاکستان نے نہیں ہندوستان نے ناکام بنایا۔‘‘ 92سالہ رام جیٹھ ملانی نے یہاں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا ۔ (جیٹھ ملانی، کشمیر کمیٹی کے صدر نشین ہیں ) انہوں نے دعوی کیا کہ انہوں نے(جیٹھ ملانی نے) مشرف کی تجویز میں بعض تبدیلیاں کی تھیں۔ دستاویز کا مقصد یہ تھا کہ کشمیر کے دونوں جانب سیکولر جمہوریت ہونی چاہئے ۔ سابق بی جے پی ایم پی نے کہا کہ دستور کی دفعہ370جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دیتی ہے اور وہ دفعہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہے ۔ جس کو ’’کوئی چھو نہیں سکتا۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’میری جانب سے دفعہ370 کی وضاحت کے بعد بی جے پی اب ’’خاموش‘‘ ہے۔ میں نے اس دفعہ کی اہمیت کی وضاحت وزیر اعظم نریندرمودی پر کی ہے ۔ جیٹھ ملانی نے بتایا کہ ہم نے اس وقت کی جمو ں و کشمیر دستور ساز اسمبلی کی خواہشات کے مطابق دفعہ370 کو دستور میں شامل کیا ۔ یہ اب ایک قطعی دفعہ ہے جس کو کوئی چھو نہیں سکتا ۔ کشمیر کمیٹی کی دانست میں ایسی کسی بات (یعنی دفعہ370 کی منسوخی) کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘تاہم جیٹھ ملانی نے یہ بھی کہا کہ یکے بعد دیگرے جموں و کشمیر میں قائم ریاستی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً دفعہ میں کی گئی ترمیمات ؍ تبدیلیوں پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں کیا۔’’دفعہ370 میں کسی تبدیلی پر حکومت جموں و کشمیر نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ اگر آپ کوئی ترمیمات نہیں چاہتے تو ان کو ٹھکرا دیجئے لیکن جمہوری طریقہ پر۔‘‘جیٹھ ملانی نے جنہیں گزشتہ مئی میں بی جے پی سے خارج کردیا گیا تھا کہا کہ بی جے پی ہمیشہ دفعہ370 کے بارے میں بات کرتی ہے ۔ ان میں سے بعض تو دستور کو قطعاً نہیں سمجھتے ۔دفعہ370 کی اہمیت کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس کو منسوخ نہیں کیاجاسکتا ۔ میں نے مودی سے کہا ہے کہ وہ بی جے پی قائدین؍ کارکنوں پر یہ وضاحت کریں کہ وہ اس دفعہ کے تعلق سے اظہار خیال نہ کریں ۔ بی جے پی نے تو خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ بد قسمی سے جب بی جے پی بر سر اقتدار آئی تو ایک وزیر نے جو جموں سے تعلق رکھتے ہیں دفعہ کی منسوخی کے بارے میں بات کی ۔
مودی نے اس وزیر کو عملاً سرزنش کی اور کہا کہ یہ(وزیر) پھر کبھی اس بارے میں بات نہ کریں۔ چنانچہ تب سے اس وزیر نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔‘‘ رام جیٹھ ملانی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام ہندوستان کے دستور کے تحت نہیں جی رہے ہیں بلکہ ان کے اپنے دستور کے تحت ہیں اور ایک طرح سے استصواب عامہ سے استفادہ کرتے ہیں ۔‘‘’’عام طور پر یہ نعرہ لگایاجاتاہے کہ ہندوستان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ کشمیر کے عوام کی مرضی کا تعین استصواب عامہ کے ذریعہ کیاجائے گا۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے حوالے دئیے جاتے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اقوام متحدہ نے استصواب عامہ کا حکم دیا لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان سے آخری مداخلت کار سارے جموں و کشمیر بشمول اس حصہ کا بھی تخلیہ کردے جو آج ہمارے قبضہ میں نہیں ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ استصواب عامہ ، ساری ریاست پر ہندوستانی پرچم تلے ہونا ہے ۔ ہندوستان نے اپنا یہ وعدہ نبھایا ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے جغرافیائی کردار کو تبدیل ہونے نہیں دیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کسی بھی ہندوستانی کو جموں و کشمیر آکر یہاں اراضی خریدنے کی اجازت نہیں دی ۔ دوسری جانب دوسرے حصہ کی ساری جغرافیائی حالت بدل چکی ہے۔ وعدہ، اس نسل کے ساتھ تھا جو اس وقت موجود تھی ۔ یہ وعدہ کلیتاً تبدیل شدہ آبادی سے نہیں تھا ۔ خود اقوام متحدہ نے بھی اس کا جائزہ لیا ہے اور اس بات کو بھلایاجارہا ہے وہ یہ ہے کہ سراوون ڈکسن نے اس معاملہ کا جائزہ لیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ استصواب عامہ کوئی قابل عمل تجویز نہیں ہے ۔‘‘جیٹھ ملانی نے مزید کہا کہ ’’جموں و کشمیر ملک کی دیگر ریاستوں کے برعکس1951میں اپنی خود کی دستور ساز اسمبلی کا حامل رہا اور اس ریاست کا دستور ہندوستان کے دستور ساز اسمبلی نے وضع نہیں کیا ۔ یہ گویا ایک استصواب عامہ تھا۔ وہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی ہے جس نے دستور ہند کی بعض دفعات کو شامل کیا ۔ اس طرح استصواب عامہ منعقد ہوچکا۔ ‘‘ میں ایک طویل عرصہ سے کشمیر کے لئے کام کررہا ہوں اور مشرف کوجانتا ہوں ۔ انہوں نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعہ مجھے تجویز بھیجی تھی ۔ میں اس نے دستاویز میں کشمیر کمیٹی کی طرف سے تجاویز کے حصہ کے طور پر کچھ تبدیلیاں کیں جن کو مشرف نے قبول کرلیا ۔ اس دستاویز کا سارا مقصد یہ ہے کہ دونوں طرف ایک سیکولر جمہوریت ہو ۔ ‘‘سابق مرکزی وزیر جیٹھ ملانی نے بتایا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے مسلمہ مدبرین پر مشتمل ایک رسمی ادارہ ہونا چاہئے جو اس امر کو یقینی بنائے کہ یہ حکومتیں عوام کا استحصال نہ کرپائیں ۔
یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ کشمیر کمیٹی کا قیام2002میں عمل میں آیا تھا تاکہ یہاں علیحدگی پسندوں تک رسائی حاصل کی جائے ۔ صدر کمیٹی نے بتایا کہ وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مسلسل ربط میں ہیں اور یہ علیحدگی پسند سب کے سب’’پاکستانی ایجنٹ نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ موافق پاکستان رہے ہوں لیکن مجھے آپ سے یہ کہتے ہوئے مسرت ہورہی ہے کہ ان کی اکثریت ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے ۔‘‘چٹر گام میں حال ہی مٰں فوج کے ہاتھوں دو نوجوانوں کی ہلاکت کے بارے میں رام جیٹھ ملانی نے کہا کہ گزشتہ پیر کو پیش آئے اس واقعہ میں ملوث فوجیوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹاجانا چاہئے ۔’’اگر انہوں نے (ان فوجیوں نے) قصداً ایسا کیا تھاتو انہیں سخت سزا دی جانی چاہئے۔ انہیں سولی پر لٹکا دیاجانا چاہئے لیکن پہلے یہ تفصیلی تحقیقات کی جائیں کہ فائرنگ کی نوبت کیوں آئی۔‘‘ جیسے ہی دہشت گردی رک جائے اس ریاست میں فوج کی موجودگی کو ختم کیاجانا چاہئے ۔ مجھے یقین ہے کہ فوج کو جانا چاہئے لیکن پہلے دہشت گردی رک جائے ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات سے عین قبل علیحدگی پسندوں پر پابندیوں کے بارے میں ایک سوال پر ممتاز قانون داں نے کہا کہ’’میں نے علیحدی پسندوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ یہ ٹھوس شہادت دیں کہ ان پر تحدیدات عائد کی گئی ہیں اور میں اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں اٹھاؤں گا۔‘‘

BJP is quiet since I explained Article 370 to Modi: Ram Jethmalani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں