اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں نفرت انگیزی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-14

اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں نفرت انگیزی

Hatred-in-name-of-freedom-of-expression
اس وقت ہم عجیب نوعیت کے بے ہنگم دور سے گزر رہے ہیں، کیونکہ اظہار خیال کی آزادی ایک ایسا بہانہ بن گیا ہے جس کے زریعہ نفرت پھیلائی جارہی ہے اور راتوں رات ہی اس سے تشدد کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ مخالف سوشل میڈیا بھی اسی طرح کے خیالات کا حامل ہوگیا ہے ۔ میرے ایک دوست عامر رضوی نے اپنے فیس بک پر اس خونریزی اور اذیت ناک دھمکی کے بارے میں واضح طور پر ایک مضمون پوسٹ کیا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ہندو، ان کی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں گے ۔ حالانکہ یہ بات فکر کرنے کی نہیں ہے کہ ان کی اہلیہ ایک ’ہندو‘خاتون ہے۔ (لیکن اب وہ اسے لو جہاد کا نام دیں گے چنانچہ ان کی اہلیہ کے نام سے قبل بیگم جیسا لفظ جوڑ دیا گیا ہے اور ان کی ذاتی زندگی سے متعلق تمام باتوں پر طنز کیا گیا ہے (یا پھر وہ میرے بارے میں نہیں کہا گیا ہے ۔) ایک ایسی ویب سائٹ بھی ہے جہاں کوئی بھی شخص اس مصنفہ کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے اور اس کے لئے کچھ درجن افراد کومحض چند ہزار روپے خرچ کرنے ہوں گے ۔ میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتی ہوں کہ ہم نے مکمل طور پر روزی کمانے یا صلاحیت پیدا کرنے کی انڈسٹری قائم کردی ہے اور وہ بھی ایسی صلاحیت جو جھوٹ اور نفرت کو فروغ دے رہی ہے ۔
اظہار خیال کی آزادی کی بنیاد پر نفرت انگیز تقریر کے ذریعہ تشدد کی دھمکیاں دینے کے علاوہ گزشتہ ہفتہ ایک بین الاقوامی ٹیلی ویژن شو میں خود اعتماد وزیر کوئلہ گوئل نے اس ارونا رائے کا مذاق اڑایا تھا ، جب انسانی حقوق کی مہم چلانے والی اس خاتون نے حکومت کے اقلیت مخالف رجحان اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے پر اپنا نظریہ پیش کیا تھا ۔ ابھی حال ہی میں نئے وزیر کا حلف لینے والے لیڈر نے2014کی انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مودی کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستان چلے جانا چاہئے ، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مودی۔ گوئل اور اسی طرح کے لیڈر اختلاف برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔یہ ایک طبقہ میں ووٹروں کو نفرت کی بنیاد پر اپنا حامی بنا کر صرف الیکشن کی بات کرنا چاہتے ہیں۔(ریاستوں میں کچھ زیادہ تعداد کے توسط سے جو کہ کبھی بھی 42فیصد سے زیادہ نہیں تھی خوش قسمتی سے قومی تناسب میں اسے محض31فیصد ووٹ ملے تھے ۔) اچانکWhats aapکےMassagesمغربی اتر پردیش( مظفر نگر اور دہلی میں ترلوک پوری تک)ارسال کئے جارہے ہیں ۔ ان میں سے درجنوں ایسے ہیں جن کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ وہ قطعی طور پر غیر ذمہ دارانہ ہیں ۔ کپکپاتی ہوئی آواز میں ایک خاتون کہتی ہے کہ ہندوستان میں ’وہ ‘ کا مطلب کیا ہے ۔ اس کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ وہ کا مطلب ہمیشہ مسلمان ہوتے ہیں ۔ ملک کی آبادی کے اعداد وشمار متاثر کرنے کے لئے ان کے پاس منسوبے ہیں۔ وہ ملک کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کردیں گے تاکہ ہندوستان مسلمانوں کا ہوجائے ، بالی ووڈ کی فلموں سے انہیں ترغیب ملتی ہے۔ وہ ہماری لڑکیوں کو غلام بنالیتے ہیں، وہ ہمی فنا کردیں گے ۔بالکل اسی طرح سے جیسے وہ اپنے تہوار میں ذبیحہ کرتے ہیں ۔ یہ کس قسم کے عقیدہ کا نظام ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ہماری نہایت نڈر انٹلی جنس ایجنسیاں، آئی بی جب تشدد سے نبرد آزما ہوجاتی ہے تو وہ خوفزدہ ہوجاتی ہیں این آئی اے( نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی) یہاں تک کےRAWبھی اسی زمرے میں آجاتی ہے ۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ نفرت پھیلانے والی ان تنظیموں کو بین الاقوامی ہندو نژاد افراد فنڈ فراہم کراتے ہیں اور وہ مکمل طور پر ہی ان کا پتہ لگانے میں ناکام رہتی ہیں، ان نامعلوم ذرائع کی تفتیش کرنے سے بھی وہ قاصر ہیں ۔ وہ دانستہ طورپر چالاکی کے ساتھ ایسا کرتے ہیں ۔
یہ بات واضح طور پر سب کے سامنے ہے۔ بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد، آر ایس ایس اور ان کی حامی تنظیموں کے ذریعہ تقسیم کرائے گئے پمفلیٹوں میں جو خیالات ظاہر کیے گئے ہیں ان کے بارے میں انہیں کیا کہنا ہے؟ یہ پمفلیٹ دہلی میں ٹرلوک پ وری ، بوانہ ، کرناٹک میں شموگا ، احمد آباد میں شاہ پور اور وڈودرا میں تقسیم کرائے گئے تھے ۔ اگر ان کی مکمل طور پر تفتیش کرائی جاتی تو اسکا تعلق بر سر اقتدار سیاسی پارٹی سے ہی ہوتا ۔ 1980اور1990کی دہائی میں جب انٹر نیٹ اتنا عام نہیں ہوا تھا تو روایتی سبھاؤں کے ذریعہ لاکھوں کی تعداد میں پرچیاں تقسیم کرائی جاتی تھیں، تاکہ وہ سیاسی طور پر بی جے پی کو پروجیکٹ کرنے میں معاون ثابت ہوجائیں اور یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں دو سیٹوں والی یہ پارٹی184سیٹیں لے کر مقبول ہوگئی ۔ مسلمانوں کی خوشنودی کم کرنے کی آڑ میں400سال قدیم تاریخی بابری مسجد کو منہدم کرنے کے لئے تحریک چلائی گئی تھی ، جسے قانونی طور پر بالکل جائز قراردیا گیا تھا ۔ لیکن ہندوستانی قانون اور آئین کی کون پروا کرتا ہے ۔ اڈوانی ، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی کی قیادت میں ایک جم غفیر حملہ آور ہورہا تھا تو یہ لوگ اپنا فرض انجام دے سکتے تھے ۔ اس وقت ہندوستانی قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیاں اور جمہوریت ناکام ہوگئی تھی ۔ کیا ہم دوبارہ ناکام ہونیو الے ہیں ؟
اس وقت بھی اور اب بھی نفرت الیکٹورل سیاست کا ایک حربہ بن گئی ہے ۔ سیاسی طور پر کمزور ہونے سے اکثریت نواز متحد ہوگئے ہیں، اور انہوں نے ایسی شناخت بنالی ہے جس کے ذریعہ وہ الیکشن میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرلیں ۔مظفر نگر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سماجی کارکن نے پرسوز انداز میں یہ کہا تھا کہ اگر الیکشن دہلی اور یوپی کے نہیں ہوتے تو شاید اس طرح کی گندی گندی باتیں نہیں کی جاتیں، الیکشن کمیشن کو اس معاملے کو اس طرح سے دیکھنا چاہئے جس طرح سے دیگر آئینی ادارے جیسے قومی انسانی حقوق کمیشن اور قومی کمیشن برائے اقلیات دیکھتے ہیں ۔
چنانچہ ایک طرف ہمیں اس قسم کے اظہار خیال کی آزادی حاصل ہے ، جہاں ہم فخر کے ساتھ خود کو سیکولر اور روادار کہنے والوں ، جن میں بایاں بازو بھی شامل ہے، کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوامی سطح پر اختلاف کرنے کا حق معدو ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ قدم آگے بڑھنے سے قبل ہی ان سے جھکنے کے لئے کہہ دیاجاتا ہے ۔ پرائیویٹ الیکٹرانک چینلوں میں کچھ بد ترین موقع پرست اینکر موجود ہیں جو حکومت کے حق میں (لاکھوں مداحوں والے ٹیلی ویژن کے ایک اینکر نے حالیہ انتخابات سے متعلق اپنی کتاب کے اجراء کے بعد ٹویٹ کیاتھا اور بڑے ہی فخر کے ساتھ اس نے گوا کے برہمن ہونے کی شناخت ظاہر کی تھی لہذا اسی ذات سے تعلق رکھنے والے دو لیڈروں کو کابینہ کے وزرا کا حلف دلایا گیا تھا۔)ہیں اور وہ اپنی ذات کی شناخت کرانے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں ۔ اسی طرح ہندوستان میں مذہبی احیاء ہورہی ہے ۔ اب ذات کی بنیاد پر ہی لوگ مستفید ہورہے ہیں ۔ یہ بڑے ہی شرم کی بات ہے ۔
ہندوستان کی معروف ترین تاریخ داں رومیلا تھاپر نے دہلی میں26اکتوبر کو منعقد نکھل چکرورتی میموریل لیکچر ، کے تحت اس موقع پر ایک نہایت شاندار لیکچر دیا تھا۔ یہ اس سیریز کا تیسرا لیکچر تھا دیگر دو لیکچر فلسفی اور ماہر معاشیات امرتیہ سین اور معروف برطانوی تاریخ داں ایرک جے ہو بسبام نے دیے تھے ۔ حالانکہ موضوع کے لحاظ سے یہ لیکچر زیادہ اہم نہیں تھا۔تاہم اس میں جو حوصلہ دکھایا گیا تھا ہمیشہ کی مانند تھا پرنے اسے بام عرج پر پہنچ دیا تھا ۔ تھاپر نے اپنے لیکچر میں مختلف ثقافتوں اور برہ اعظموں کے حالات کا احاطہ کیا تھا ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ ہر جگہ کس طرح تنقیدی سوچ اور اقتدار کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی رہتی ہے ۔ ہندوستان کے اپنے2000سال سے زیادہ قدیم سخت گیر عالمانہ اور دانشورانہ روایت کے فروغ نے برہمنی اقتدار کے سامنے ایک چیلنج کھڑا کردیا ہے ۔ تھاپر نے پرزور انداز میں حکام سے اس وقت سوالات کرنے کی ہمت اور کسی طرح کے شک شبہات ہونے پر غوروخوض کرنے کی اپیل کی تھی، جب وہ سچ کی تلاش میں ہوں ۔ سوالات کرنا یا حق اختلاف استعمال کرنا ہمیشہ منظم طور پر زیر حملہ ہوتے ہیں۔
مختلف روایتوں میں سوالات پوچھنے کے حوصلے اور اعتدال پسندی کے درمیان کیا چیز مشترک ہے ۔ ہندوستان میں بودھ اور چاروا کا اسکولوں میں ذات کے نظام کے تعلق سے اور خصوصی طور پر عقیدے کے تعلق سے عمیق سوالات ابھر کر سامنے آئے تھے ۔ جنہیں ہندوستانی فلسفہ سے متعلق اپنے ہی نصابوں میں وسیع پیمانے پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بودھ مذہب کے نظریات کو برہمنی عقیدہ کے تحت ، مغالطہ کے طور پر بیان کیا گیا تھا ۔اور اس طرح کے مکتب جیسے شرامن( بودھ اور جین )چارواک ، آجیو یکا ملحد ، مادہ پرست، عقیدت مند سب کو ایک ہی زمرے ناستک ، میں غیر منقسم کردیا گیا تھا ۔ کیونکہ انہوں نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ وید، الہام پرمبنی ہیں اور اس طرح انہوں نے ذات پر مبنی نظام کو مسترد کردیا تھا ۔ ہمارے ملک کے اپنے آریہ بھٹ نے گلیلیو سے ہزاروں سال قبل اس بات کا انکشاف کردیا تھا کہ زمین سورج کے چاروں طرف گھومتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی دیگر منطق نہیں ہے ۔ وہ ایسا اس لئے کرسکے کیونکہ اس دور کے سرکاری جیوتشیوں کے سامنے انہوں نے اپنا دانشورانہ اختلاف ظاہر کرنے کا حوصلہ دکھایا تھا۔ ان کی تکنیک منطق اور عقلیت پر مبنی تھی ۔ قدرتی مظاہرہ کا جائزہ لینے کے بعد جب ممکنہ اسباب کو ایک دوسرے سے وابستہ کیاجاتا ہے تو ہمیشہ تجربات کے ذریعہ انہیں پرکھاجاتا ہے ۔ تھاپر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تمام تہذیبوں میں ہمیشہ معقول انکوائری کی سخت گیروں کے ذریعہ مخالفت کی جاتی ہے ۔ تھاپر نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ آج کے ہند ووادیوں کے لئے ہر وہ شخص مارکسوادی ہے جو ان کی حمایت نہیں کرتا ہے ۔
مکمل طور پر دستیاب ان کے لیکچر سے ہم سب کو سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ قدیم اور قرون وسطی کے ہندوستان میں بے شمار نظریات بیک وقت موجود تھے ۔ کچھ متنازع عقائد اور رسومات کو مذہبی رہنماؤں یا پھر حکمراں طبقہ نے ختم کردیا تھا ۔ ان میں اندل اکا مہادیوی اور میر بائی جیسی خواتین بھی شامل تھیں ، جنہوں نے تحقیر آمیز ذات کے نظام کو ختم کردیا ۔ کثیر تعداد میں لوگ توجہ کے ساتھ ان کی باتیں سنتے تھے ، امیر خسرو بحیثیت شاعر اور موسیقار نہایت معروف ہیں لیکن انہوں نے علم فلکیات کا بھی مطالعہ کیا ۔ سورج پر مرکوز کائنات کا ان کا نظریہ، آرتھوڈوکس اسلام ، سے الگ ہے۔ بعد کے ادوار میں راجہ رام موہن رائے، جیوتی باپھولے، ساہو مہاراج ، پیر یار ، سر سید احمد خان اور ڈاکٹر امبیڈ کر جیسے فیاض طبع سماجی مصلح بھی پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت ہندوستانی معاشرہ ایک بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہا تھا ، جس کو عمیقانہ طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی اور اقتصادی حالات کو ثقافت ، سیاست اور دیگر مظہریات سے جوڑا جاسکے ۔ تھاپر کے مطابق عوامی دانشوران کا رول نہایت اہم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہماری دانشورانہ روایت میں معقول نظریہ کی روایت جاری رکھنے کے لئے جفا کشی کے ساتھ مناسب رابطے تلاش کرتے رہنا چاہئے ۔
مضبوط اخلاقی شعور کے ساتھ پیشہ وروں کی بنیادی مہم کے تحت ان احکام سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے ۔ جو ان کے اظہار خیال میں رکاوٹ پید اکرتے ہیں ۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں، ان کے مقابل انہیں اپنا آزادانہ وجود قائم کرنا چاہئے ۔ مکیش امبانی کے ممبئی میں واقع پرائیویٹ اسپتال کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم نے قدیم ہندوستان میں عقلیت اور سائنس سے متعلق اپنے نظریہ سے ہمیں واقف کرایا تھا،اس میں اس تمہید کے اشارے مل رہے تھے جو کہ انہوں نے دیناتھ بترا سپلیمینٹری کے لئے لکھا تھا جو کہ گجرات میں ہر سال چار لاکھ طلباء کو غلط جانکاری فراہم کرارہا ہے ۔ سرپرستوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہندوستان کے ایک بھی سائنس دان نے اس پر تنقید یانکتہ چینی نہیں کی ہے، جو کچھ مودی نے لکھا تھا ۔ اس وقت ہر جگہ خوف و ہراس کا ماحول چھایا ہوا ہے اور سازش کے تحت خاموشی اختیار کی جارہی ہے ۔ جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی طور پر ہم ماتحتی کی اس سازش کو ناکام کردیں ۔

Hatred in the name of freedom of expression. Article: Teesta Setalvad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں