جامع مسجد دہلی موقوفہ جائیداد - شاہی امام کے فرزند کی جانشینی پر سوالیہ نشان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-20

جامع مسجد دہلی موقوفہ جائیداد - شاہی امام کے فرزند کی جانشینی پر سوالیہ نشان

نئی دہلی
پی ٹی آئی
مرکزی حکومت نے آج دہلی ہائی کورٹ سے کہا ہے کہ عہد مغلیہ کی جامع مسجد(دہلی) ایک موقوفہ جائیداد ہے اور اس کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ نئے شاہی امام کی دستار بندی( جانشینی) کے معاملہ میں(موجودہ شاہی امام)کے فرزند کی جانشینی کے قائدہ کا اطلاع کیسے ہوسکتا ہے ۔ چیف جستس ، جسٹس جی روہنی اور جسٹس آر ایس اینڈ لا پر مشتمل بنچ کو مرکز نے بتایا کہ’’ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کس کو مدعو کیاگیا ہے اور کس کو مدعو نہیں کیا گیا ہے ۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم ہماری تاریخ کے ساتھ کیسا سلوک کررہے ہیں۔ ایک مسلمہ موف ہے کہ یہ(جامع مسجد) ایک موقوفہ جائیداد ہے۔ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بڑے لڑکے کی جانشینی کے قاعدہ کا اطلاق شاہی امام کی جانشینی پر کیسے ہوگا۔‘‘ آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا( اے ایس آئی) ( کے وکیل) نے عدالت سے یہ درخواست بھی کی کہ دہلی کی جامع مسجد کو ایک قدیم یادگار قرار دیاجائے کیونکہ یہ قومی اہمیت کی حامل ہے اور اس کی حفاظت کی ضرورت ہے ۔ اے ایس آئی نے جامع مسجد دہلی کے شاہی امام سید احمد بخاری کے خلاف دائر کردہ تین علیحدہ علیحدہ مفاد عامہ درخواستوں کی مختصر سماعت کے دوران معروضہ پیش کیا ۔ ان درخواستوں کے ذریعہ جامع مسجد کے آئندہ امام کی حیثیت سے مولانا احمد بخاری کے فرزند کی دستار بندی کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے مفاد عامہ کی درخواستیں سہیل احمد خان ، اجئے گوتم اوروی کے آنند ایڈوکیٹ نے دائر کی ہیں۔ ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ جامع مسجد، دہلی وقف بورڈ کی جائیداد ہے اور بخاری ، اس کے ملازم کی حیثیت سے اپنے فرزند کو نائب امام مقرر نہیں کرسکتے ۔ اے ایس آئی نے عدالت کو بتایا کہ جامع مسجد ایک تاریخی یادگار ہے جس کو مغل شہنشانہ شاہجہاں نے بنوایا تھا اس لئے اے ایس آئی کی جانب سے اس کی حفاظت کی ضرورت ہے ۔ عدالت نے کہا کہ تفصیلی مباحت کی سماعت20نومبر کو ہوگی ۔
درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ شاہی امام نے گزشتہ30اکتوبر کو اعلان کیا تھا کہ ان کے19سالہ فرزند( شعبان بخاری) اس جامع مسجد کے آئندہ شاہی امام کی حیثیت سے ان کے جانشین ہوں گے ۔ رسم دستار بندی22نومبر کو ہوگی۔ درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ ’’ یہ جاننے کے باوجود کے شاہی امام وقف بورڈ کے ایک ملازم ہیں، امام کے تقرر کا حق بورڈ کو حاصل ہے۔ یہ جانے کے باوجود بخاری نے اپنے19سالہ فرزند کو نائب امام بنانے کا اعلان کیا اور دستار بندی تقریب منعقد کررہے ہیں ، جو کلیتاً غیر اسلامی ہے ۔‘‘ درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ شاہی امام کا عہدہ ، ایک عوامی عہدہ ہے اور سید احمد بخاری کی ’’شخصی جائیداد نہیں ہے ۔‘‘ اور امامت ، ناقابل منتقلی ہے ۔ (یہ منصب) غیبی تقرر کردہ ہوتا ہے ۔ اس منصب سے سارے فرقہ (مسلمانوں) کے جذبات سے وابستہ ہیں اس لئے اس اہم منصب کو پیدائش کے اعتبار سے موروثی نہیں قرار دیاجاسکتا ۔‘‘ ایک درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستور ہند کے نفاذ کے بعد کوئی بھی شخص ، کسی سابقہ شہنشانہ ، بادشاہ یا حکمران کی جانب سے اس کے آبا و اجداد کو دئیے گئے کسی خطاب کو اختیار نہیں کرسکتا ۔ مفاد عامہ کی درخواستوں میں عدالت سے التجا کی گئی ہے کہ جامع مسجد کے شاہی امام کی حیثیت سے بخاری کے تقرر کو غیر درست قرار دیاجائے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں