مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)(جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈیمی حیدرآباد و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، رکن انٹر نیشنل فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ) نے کہا کہ تجارت میں ایک مسلمان تاجر کی کیا اہمیت ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ دیگر مذاہب کے پرسسٹ اور پنڈتوں کو ان کے مذاہب میں تجارت کی اجازت نہیں لیکن اسلام دین فطرت ہے ، رسول خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تجارت کی اور چاروں خلیفہ راشدین نے بھی تجارت کی۔ تجارت کے لئے آپ نے شام تک کا سفر کیا اسی پیغمبر اسلام نے مسلمانوں کی معیشت کے لئے تجارت اور مارکیٹ کی بنیاد رکھی ۔ اللہ نے مال کو خیر سے محمد سے مال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا۔مولانا موصوف نے تجارت کے5شرعی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خریدوفرخت میں آپسی رضا مندی لازمی ہے ، فقہ کی نظر میں ایجاب و قبول صرف نکاح تک محدود نہیں ہے ۔ بلکہ تمام معاملات میں ایجاب و قبول لازمی ہے۔ نکاح فون پر یا نیٹ پر جائز نہیں لیکن تجارت فون پر اور نیٹ پر جائز ہے۔ شریعت نے خریدوفروخت میں زیادہ وسعت اور اختیارات کو شامل رکھا ہے ۔ انہوں نے منشیات ، الکوحل ، تصنیف ، و تالیف اور لائسنس وغیرہ کے موضوعات پر جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمیز کومثالوں سے واضح کیا ۔ فقہ کے نزدیک بحالت مجبوری علاج کے لئے الکوحل کا استعمال جائز ہے ۔ پرفیوم میں جو الکوحل استعمال ہوتا ہے وہ نشہ آور نہیں ہوتا اس لئے اس کی خرید و فروخت پر امت میں اتفاق ہے کہ مجسمہ کا خریدنا اور بیچنا دونوں حرام ہے ۔ یہاں تک کہ سیاسی لیڈران کا اسلیچ فروخت کرنا بھی حرام ہے ۔ تصنیف و تالیف کی رائلٹی جائز ہے ۔ لائسنس کو فروخت کرنا( قابل تبدیلی قانوناً) جائز ہے ۔ محمدؐ نے رشوت کی مذمت فرمائی ہے لیکن فقہاء کے نزدیک3صورتوں میں رشوت دینا جائز ہے ایک تو ظلم سے بچنے کے لئے ، دوسرے جائز حق حاصل کرنے کے لئے ، رشوت دینا جائز ہے ۔
دکان کا انشورنس اصل میں جائز نہیں لیکن حکومت کے مناسب انتظام نہ ہونے یا سیلاب کے خدشے کے پیش نظر یا آگ لگنے کا خطرہ ہو تو الگ بات ہے لیکن عام حالات میں جائز نہیں ۔ مکان کی خریدو فروخت میں کمیشن لینا جائز ہے بشرطیکہ وضاحت پہلے کردی جائے ۔ شیئر کی خریدو فروخت علماء کی شرط کے مطابق بنیادی طور پر حلال ہونا چاہئے ۔ سود لینا اور سود کا دینا دونوں حرام ہے ۔ سود اس وقت ہوتا ہے جو اپنے جنس کے مقابلے ہو جنس سے تبدیل شدہ چیز سود نہیں ہوتا ہے ۔انہوں نے اپنے جنوبی افریقہ کے سفر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں سیاحوں کے لئے ہوٹلوں کا کمرہ سیزن سے پہلے مسلمان تاجر بک کرلیا کرتے ہیں اور پھرسیاحوں کی آمد کے بعد اسے اضافی قیمت پر سیاحوں کو الاٹ کرتے ہیں تو وہاں کے علماء نے مسلمانوں کو اس تجارت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کو کہا کیونکہ کم کرایہ کی چیز زیادہ میں دینا جائز نہیں ہے تو میں نے متبادل مسئلہ بیان کرتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں سے فرمایا کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک500روپے کی چیز ایک ہزار روپے میں فروخت کرنا جائز نہیں لیکن فقہ کے نزدیک ہوٹل والے سے ہندوستانی روپیہ میں کرایہ طے کرے اور سیاحوں کو ڈالر میں کمرہ دینا جائز ہے کیونکہ یہاں جنس میں تبدیلی ہوئی ہے ۔ اگر آپ ہوٹل کا کمرہ اور وسائل کو شامل کر کے سیاح سے کرایہ وصول کریں تو جائز ہے ۔ انہوں نے تاجرین حضرات سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تجارت کے سلسلے میں مفتی و علماء کرام سے مسئلہ کے حل کے لئے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ ہر مسئلہ کا حل شرعی اعتبار سے کرنا چاہئے۔ مولانا اسرار الحق قاسمی نے کہا کہ اسلام کی روشنی میں تجارت کو فروغ دیں ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے تجارت کے سلسلے میں مسلمانوں کو جو رہنمائی فرمائی اس کے بعد کچھ کہنا فضول ہے ۔
بل گیٹس دنیا کا سب سے امیر ترین انسان ہے پھر بھی عالمی سطح پر100کروڑ کی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے ۔ اسلام نے ہر شعبہ کے اندر انقلاب برپا کیا۔نبی آخر الزماں نے معاشی زندگی کے اندر انقلاب پیدا کیا، کاش مسلمان اپنی تجارت کی صحیح رقم زکوۃ کے مستحقین تک پہنچائیں تو کوئی بھوکا نہیں رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سر زمین بنگال میں بہت سارے سرمایہ کاروں کے ساتھ یہاں کی امت کو فائدہ پہنچانے کے ئے ایک کوآپریٹو نظام قائم کرنا چاہئے ۔ اس موقع پر مولانا محمد ابو طالب رحمانی کے علاوہ علماء کرام ، مفتی حضرات اور ائمہ مساجد و تاجرین حضرات ایک بڑی جماعت نے مقررین حضرات کے بیان سے مستفید ہوئے ۔ نماز ظہر بھی ادا کی گئی اور دوسرے سیشن میں سوال و جواب کا دور رہا۔
Conference in Kolkata on Business and Islam.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں