ہندوستانی شعریات کی روشنی میں اردو مرثیہ کا مطالعہ - سیّد علی ذہین نقوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-26

ہندوستانی شعریات کی روشنی میں اردو مرثیہ کا مطالعہ - سیّد علی ذہین نقوی

Urdu-Marsiya-ka-mutaleya-Zaheen-Naqvi
کتاب : ہندوستانی شعریات کی روشنی میں اردو مرثیہ کا مطالعہ
مصنف : سیّد علی ذہین نقوی
مبصر : تحسین منور

آپ اگر ہمارے اس سلسلے کے ساتھ آغاز سے جُڑے ہیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے اپنے پہلے سلسلے میں ہی بتایا تھا کہ جس میں ہم نے ڈاکٹر ریاض الہاشم کی کتاب اودھ میں اردو مرثیہ عرض کی تھی کہ جمعہ کی نماز کے بعد ہمیں دو کتابیں ملی تھیں ایک مسجد کے اندر اور ایک مسجد کے باہر۔ یہ وہ باہر والی کتاب ہے کہ جس کو ہمیں سونپنے کے بعد سیّد علی ذہین نقوی نے یہ امید ہی چھوڑ دی ہوگی کہ یہ آدمی وعدے سے گیا گزرا ہے ۔یہ اب کبھی اس کتاب پر کچھ نہیں لکھے گا مگر ہم محرم کا انتظار کررہے تھے کہ اس دوران اس کتاب کو عرض کریں گے ۔آئندہ ہفتہ محرم کا آغاز ہوجائے گا ۔ہم نے سوچا تھا کہ یہ کتاب تب آپ کے سامنے لائیں گے مگر گزشتہ کئی دن سے اس کتاب نے ہم کو پکارنا شروع کردیا تھا۔ ہم کتاب کی آواز پر لبیک کہنے میں یقین رکھتے ہیں اس لئے یہ کتاب آج آپ کے سامنے عرض کرنے کی ہمت کرلی ہے۔ ایک تو ہم صاف صاف بتادیں کہ یہ کتاب علم و دانش کا خزانہ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس کتاب میں مرثیوں کو ایک نئے اور مختلف تناظر میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم سچ بتائیں ہم ویسے اتنے پڑھاکو ہیں نہیں جتنا ،خود کو ظاہر کرتے ہیں مگر اس قسم کی کتاب کبھی نہیں دیکھی۔ ہاں ویسے ہمارے رُدولی کے محفوظ چچا جو ’ پُنڈریک ‘ تخلص کرتے تھے اور جنھوں نے رام چرِ ت مانس پر تحقیق کی تھی اکثر ہندی میں اپنے لکھے جب مرثیہ پیش کرتے تھے تب ہم لوگ یوں سمجھتے تھے کہ اس بار رُدولی آنا کامیاب ہوگیا ۔ اس لحاظ سے ہمارے لئے اس کتاب کا پڑھنا اپنے آپ میں’ آنند کی انوبھوتی‘ ہے۔جب آپ بھی اس کتاب کو پڑھیں گے تو ایسے بے شمار ہندوستانی لفظیات سے متعرف ہوجائیں گے جو آپ کو کہیں نہ کہیں آلنکرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈیڑھ سو روپئے کی یہ کتاب جس کے سرورق پر حضرت امام حسینؑ کے روضے کے گنبد اور مینار کی تصویر ہے اندر سے ایسی نہیں ہے کہ جو صرف ایک ہی فکر یا فرقہ کے لوگوں کو متاثر کرے ۔سچ تو یہ ہے کہ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اسے ہندی والے بھی چھاپیں تاکہ ان تک اردو مرثیہ کی خوبی کا بہترین طور پر گزر ہوسکے۔
پروفیسر صغرا مہدی نے سیّد علی ذہین نقوی کی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہوئے پیش لفظ میں کہا ہے کہ’’ یہ ان کا مقالہ ہے جسے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبہء اردو میں پی ایچ ڈی کے لیے لکھ رہے تھے ۔اس میں شعبہء ہندی کا بھی اشتراک تھامگر ذہین صاحب کافی ذمہ دار ملازمت میں تھے اور اس کے علاوہ گھریلو اور سماجی زمہ داریاں بھی تھیں جس کی وجہ سے وہ یہ مقالہ مکمل نہیں کرسکے ۔‘‘ ان کے مطابق ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے پھر اس پر کام کیا اور اب یہ کتابی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
اس کتاب کے پہلے باب میں ہندوستانی شعریات اور عربی و فارسی شعریات کی تعریف پیش کی گئی ہے۔دوسرے میں اردو مرثیہ کا تاریخی پس منظر ہے۔ تیسرا باب نہایت اہم اور نیا پن لئے ہے کہ اس میں اردو مرثیہ اور رس کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ اس کتاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں سیّد علی ذہین نقوی (علی ذہین امروہوی )نے ہندی سے اپنے رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرثیہ کے مختلف رس کے حوالے سے بات کی ہے۔ رس کیا ہے ،بھاؤ اور علمِ نفسیات ،رس اور استھائی کا تعلق،ڈرامہ کی تعریف و ابتدا ،وبھاؤ اور انوبھاؤ کا آپس میں تعلق اور سادھارنیکرن کیا ہے، جیسے موضوعات اس باب میں اہمیت لئے ہیں۔ دراصل یہ باب اور اس کے بعد کا باب اردو مرثیہ کو ایک نئے انداز سے سمجھنے اور پڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ چوتھے باب میں اردو مرثیہ اور النکار کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ شاعری میں النکاروں کی تعداد اور اقسام پر زور دیا گیا ہے۔
پروفیسر عراق رضازیدی لکھتے ہیں کہ جہاں تک ان کی یادداشت ہے تو شاید اس ڈھنگ سے مرثیہ پر کوئی کام نظر نہیں آتا ہے۔وہ ساتھ میں ہی ذہین نقوی صاحب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذہانت کے دم پر ایک پرائمری اسکول سے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے تک جا پہنچے۔سرورق کے پشت پر یہ تمام بات لکھی ہے۔ لیکن ان کی اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج تک اردو مرثیہ پر فارسی اور عربی اور اردو کے حوالے سے ہی بات ہوتی تھی،کچھ انگریزی سے بھی معاملات اٹھالئے جاتے تھے تھے مگر ہندی کے چھاندک ودھان رس اور النکار کے مطالعے کے طور پر غالباً یہ پہلی کوشش ہے۔
اسی سرورق کی پشت پر عالمی مرثیہ سینٹر کے چیئرمین ڈاکٹر عظیم امروہوی صاحب کا بھی تبصرے کا کچھ حصّہ کتاب کے اندر سے باہر لاکر لکھا گیا ہے۔ جس میں کتاب کے دو ابواب کاذکر خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔یعنی وہی باب جن کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ مرثیہ اور رس اور مرثیہ اور النکار ۔سچ بتائیں تو ہم تو کہتے ہیں کہ اس میں پہلے دو ابواب کی اتنی خاص ضرورت ہی نہیں تھی ۔اگر یہی دو ابواب ہی اس کتاب میں رہ جائیں تب بھی یہ کتاب اتنی ہی اہم ہوگی جتنی کہ اب ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذہین صاحب کی ذہانت باقی دو ابواب میں کمزور پڑ گئی ہے۔ بلکہ ان ابواب میں بھی انھوں نے محنت خوب کی ہے مگر ہمیں ان میں نیا پن نظر آتا ہے ، نئی بات اس میں دکھائی دیتی ہے ،جن مراثی کو ہم مدت سے سنتے پڑھتے آرہے ہیں ان کو پڑھنے کا ایک نیا سلیقہ ہم کو مل جاتا ہے، ایک نئے تناظر میں ان کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک نئی بات ہم کو نظر آتی ہے۔
انیسؔ کے مرثیہ میں رس کی تلاش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ رس کی تعداد نو مانی جاتی ہے۔ رس اور استھائی بھاؤ کا تعلق چولی دامن کا سا ہے۔ یعنی لازم و ملزو م ہیں۔ وہ ایک ایک بند میں رس کی تلاش کرتے ہوئے ہمیں ہر رس کا آنند لینے کے لئے تیار کر لیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل بند میں ’ادبھوت رس‘ کو دکھاتے ہوئے وہ استھائی بھاؤ کی شکل میں ’وسمیہ ‘ یعنی تعجب کی بات کرتے ہیں۔
پہنچا اسے مدینے میں جب نامہ یزید
پڑھ کر وہ خط ،بہت متردد ہوا ولید
دل میں کہا یہ ظلم تو ہے عقل سے بعید
میں فاطمہؑ کے لال کو کیوں کر کروں شہید
دعوائے سلطنت بھی نہیں بے قصور ہے
ایسے کنارہ کش پہ ستم کیا ضرور ہے
اس کے بعد وہ کرون رس کی بات کرتے ہیں جس میں غم و غصہ و رحم کا استھائی بھاؤ ہے۔
مایوس تھے جو فاطمہؑ کے نورِ عین سے
ملتے تھے آنکھیں پائے شہ مشرقین سے
اس رات کوئی گھرمیں نہ سویا تھا چین سے
غل تھا مدینہ ہوتا ہے خالی حسین ؑ سے
رخصت حرم سے عورتیں آ آ کے ہوتی ہیں
کوٹھوں پہ پردہ والیاں منہ ڈھانپے روتی ہیں
ویر رس کی مثال دیکھئے جس کا استھائی بھاؤ جوش ہے۔
قاسم نے رن میں لاشہ پہ لاشہ گرادیا
عباسؑ نے بھی خون کا دریا بہا دیا
اکبرؑ نے دم میں ناموروں کو بھگا دیا
اندازِ ضرب شیر الٰہی دکھا دیا
تنہا جب ان کے بعد شہ بحرو بر ہوئے
تیروں کے سامنے علی اصغرؑ سپر ہوئے
کرودھ (غضب )جس کا استھائی بھاؤ غصّہ ہے جس کی مثال دیکھئے۔
یہ سن کے آگیا شہ ذی جاہ کو جلال
مانند شیر ہوگئیں آنکھیں غضب سے لال
بل کھاکے اٹھے ریش مخضب کے سارے بال
فرمایا سامنے سے سرک او زبو خصال
تو جانتاہے ابن علی ؑ کو ہراس ہے
مجھ کو فقط رسولؐ کی امت کا پاس ہے
ویر (شجاعت)رس جس کا استھائی بھاؤ بھی جوش ہے اس کی مثال دیکھئے۔
دے حکم جنگ کس لئے لڑنے میں دیر ہے
دیکھوں تو فوج شام کی کیسی دلیر ہے
گو ہاتھ کانپتے ہیں میرا دل تو شیر ہے
شبیر بھوک پیاس میں جینے سے سیر ہے
بھائی کا غم سہا ،علی اکبرؑ کو رو چکا
کس کس جوان کوانھیں ہاتھوں سے کھو چکا
بھیانک(خوف)رس جس کا استھائی بھاؤ (خوف)ہے اس کی مثال دیکھئے۔
یہ کہہ کے کھینچی تیغ تو تھرّا گئے فلک
فریاد کا سما سے ہوا شور کمک
دیکھی گئی نہ تیغ یداللہ کی چمک
آنکھوں کو بند کرکے لگے کانپنے ملک
تابندگی برق نگاہوں سے گر گئی
شکل اجل لعینوں کی آنکھوں میں پھر گئی
اسی طرح انھوں نے شانت رس جس کا استھائی بھاؤ امن و سکون ہے اس کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کربلامیں حضرت امام حسینؑ کا مشن جنگ و جدل نہیں تھا بلکہ امن و سکون قائم رکھنا تھا۔ورنہ وہ اپنے سفر حج کوعمرے میں نہ تبدیل کرتے اور نہ ہی یزید سے ہندوستان جانے کی خواہش کرتے ۔
مجھ کو لڑنانہیں منظور یہ کیا کرتے ہو
تیر جوڑے ہیں تم نے خطا کرتے ہو
مجھو کو ہوتا نہ اگر بخششِ اُمّت کا خیال
روک لیتا مجھے رستے میں کس کی تھی مجال
اسی انداز سے ذہین نقوی نے چوتھے باب میں النکار یعنی صناع بدایع پر پُر مغز بحث کرتے ہوئے اس کی تعریف بیان کی ہے جس میں مختلف حوالوں سے وہ مرثیہ کو ایک نئے انداز سے پیش کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اردو مرثیوں میں اور خاص طور سے میر انیسؔ اور دبیرؔ کے یہاں صنّاعی کا ایک دلکش جہان آراستہ ہے مگر ذہین نقوی نے جس انداز سے اس جہانِ بے نظیر تک ہماری رہنمائی ہندوستانی شعریات کے حوالے سے کی ہے وہ اپنے آپ میں قابلِ تعریف ہے۔ اس سے شاعری میں ایک طریقے کا ایسا رس پیش ہوتا ہے جو پڑھنے والے کو باندھ کر رکھ لیتا ہے جیسے کہ کسی عمارت کی خوبصورتی یا دلکشی جو اس کے حسن میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ انھوں نے النکاروں کی تعداد پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالی ہے۔جہاں بھرتؔ اسے چار کہتے تھے وہیں بھامیہ ؔ کے زمانے میں اس کی تعداد ۳۷ ہونے کی بات کہی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں اس کی تعداد بڑھتی رہی ہے اور سنسکرت میں تو اس کی تعداد ۱۲۴ اور غیر مستند طور پر ۳۰۰ تک پہنچ گئی ہے۔اس کے بعد بھی شعرا اس سے مطمئن نظر نہیں آتے ہیں۔
خیر اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ میر انیسؔ کے مرثیے فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے پیش کرتے ہیں۔جن میں پہلے بند میں ’اُپما‘ (تشبیہ ) ہے۔پانچویں بند میں ’سوبھاواکتی‘ (Natural Description) ہے۔اسی میں ٹیپ میں ’روپک‘ النکار ہے۔۲۰ ویں بند میں ’ویپسا ‘ النکارہے۔ جہاں بہن کا بھائی کے تعیں جذبات کا اظہار ہے اور اسی طرح مختلف النکا رکی بات کی گئی ہے۔
فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
سادات کی بستی کے اجڑنے کی خبر ہے
درپیش ہے وہ غم کہ جہاں زیرو زبر ہے
گل چاک گریباں ہیں صبا خاک بہ سر ہے
گل رو صفت غنچہ کمر بستہ کھڑے ہیں
سب ایک جگہ صورتِ گُلدستہ کھڑے ہیں
کتاب کے ناشر نبی بخش فسلفی میموریل کمیٹی ہیں اور اس کا اور سیّد علی ذہین نقوی کا پتہ ایک ہی درج ہے۔ یعنی 669/12 ذاکر نگر ،اوکھلا ،نئی دہلی ۔110025۔ پانچ سو کی تعداد میں یہ کتاب ۲۰۱۳ ء میں شائع ہوئی تھی اور اس کا انتساب والدین کے نام ہے جن کی وجہ سے قلم پکڑنے کا شعور مصنف کو آپایا ہے۔ کتاب میں تاثرات کے عنوان سے سیّد محمد نقی صاحب سابق ہندی لیکچرار آئی ایم انٹر کالج امروہہ نے بھی کچھ کہنے کی کوشش کی ہے جس میں سب سے اہم سیّد علی ذہین نقوی کے بارے میں بچپن سے جاننے کا دعوہ بھی پہلی ہی سطر میں شامل ہے۔ وہ تیسری سطر میں یہ کہہ کر کہ دورانِ حصولِ تعلیم میں یہ تصور ہی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ لڑکا اتنی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ خیر یہ لڑکا جواب اچھا خاصا بزرگ ہے اور اس کے علاوہ کیا ہے وہ آپ اس کتاب کو پڑھ کر جان ہی جائیں گے ۔یہ اچھی کتاب ہے اور اچھی کتاب کی قدر ہونی چاہئے۔ ہے کوئی جو اسے ہندی میں لانے کی کوشش کرے؟

***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book "Urdu Marsiya ka mutaleya" by Zaheen Naqvi. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں