آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا تیسرا قومی اجلاس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-23

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا تیسرا قومی اجلاس

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس مورخہ 18اکتوبر ، بروز ہفتہ مشاورت کے صدر دفتر میں منعقد ہوا۔ یہ اس سال کا تیسرااجلاس تھا۔اس میں ملی ، قومی اور عالمی صورت حال پر غور و خوض ہوا اور لوک سبھا انتخابات کے بعد کے سیاسی منظرنامے میں مشاورت کے ردعمل پرنیز اس سال کے اواخر میں مشاورت کے قیام کی نصف صدی تقریبات کی تیاریوں پر بھی غور کیا گیا ۔

مشاورت نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کے سیلا ب کو ’قومی تباہی ‘(National disaster) قراردیا جائے اور مصیبت زدگان کی بازآبادکاری اور ان کی منتشرزندگی کومعمول پرلانے کے لئے فوج اورآفات میں امدادی کام کرنے والی قومی تنظیموں کو مصروف کرنے کی ضرورت ہے جبکہ لوگوں کو اس عظیم تباہی کا خود مقابلہ کرنے کے لئے بے یارومددگارچھوڑدیا گیا ہے۔

میٹنگ نے نئی حکومت کے زیرسایہ رات دن بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور بعض عناصر کو سماج میں منافرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ اور تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ۔ مشاورت نے آرایس ایس کو مرکزی حکومت کی سرپرستی کی فراہمی اور تاریخ واسکولی نصاب کے بھگواکرن کی مہم پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

میٹنگ نے صدرجمہوریہ اور وزیراعظم کے ان بیانات کا خیرمقدم کیا ہے جن میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ مشاورت چاہتی ہے کہ یہ بات ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں اور پولیس کوبھی اچھی طرح بتادی جائے جو مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے کیسوں میں ماخوذ کرتی رہتی ہیں حالانکہ حالیہ مہینوں میں ان میں سے بہت سے لوگ عدالتوں سے بری ہوئے ہیں۔

مشاورت نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کے ہندوستان میں رسائی حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی ہے اور حکومت کوآگاہ کیا ہے کہ وہ کسی مبینہ خطرے کی وسیع پیمانے پر تشہیر کرنے سے قبل اس کی اچھی طرح تفتیش کرلے۔ مشاورت نے مذکورہ اوران جیسی دیگر تنظیموں کے دہشت گردانہ فکر کی مذمت کی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ان کے پروپگنڈے کے جال میں نہ پھنسیں جو کہ اسلام کے انسانیت نواز اور رحمدلی کے پیغام سے بہت بعید ہے۔ اسلام کا پیغام تمام دیگر مذاہب، تہذیبوں اور معاشروں کے ساتھ بقائے باہم کی تلقین کرتا ہے۔

میٹنگ میں ان شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جو سابقہ میٹنگ کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اور ان کے متعلقین کو تعزیت پیش کی گئی۔ ان میں خاص طور سے یہ مرحومین شامل ہیں: قاری مولانا محمد قاسم مدراسی، جسٹس مفتی بہاؤالدین فاروقی، مقصود عالم، چودھری محمد اسلم، خواجہ قطب الدین مونس، ظفرسیف اللہ، پروفیسر محمود الٰہی، عبدالاحد وکیل، سید علی ، غلام عیسیٰ جی واہن وتی، شیخ ابوالفضل محمد بن عبدالرحمٰن، محمد فضل، پاکیزہ سلطان بیگم، محمدعتیق صدیقی، جسٹس سید شاہ نیرحسین، مفتی افتخارحسین انصاری، کیپٹن عباس علی، ، نافع قدوائی، زہرہ سہگل ، بلراج پوری اورکویتا کرکرے۔
میٹنگ قومی صدر ڈاکٹرظفرالاسلام خاں کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی، جنا ب معصوم مرادآبادی ( جنرل سیکریٹریز)، جناب سید شہاب الدین، جنا ب نصرت علی، جناب اعجاز احمد اسلم، پروفیسر ہمایوں مراد، شیخ منظوراحمد، حکیم سیداحمد خاں، حکیم انوارالاسلام، جناب امان اللہ خاں، جناب انیس درانی اور جناب عبدالخالق نے شرکت کی۔

اجلاس میں منظورشدہ قرادادوں کا مکمل متن

جموں و کشمیر سیلاب
گزشتہ ماہ کے سیلاب میں جموں و کشمیر کے وسیع علاقے زد میں آگئے۔ تقریباً تین سوافراد جان بحق ہوئے اور ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ نجی وعوامی املاک جزوی یا کلی طور پر تباہ ہوگئیں۔ نقصان کا اندازہ ایک ٹریلین روپیہ کا ہے۔ مشاورت کو افسوس ہے کہ ریاستی اور مرکزی حکومتیں لوگوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی بازآبادکاری کے عمل میں قطعی ناکام رہیں۔ وزیراعظم نے امداد کے لئے جس قدررقم کا اعلان کیا ہے وہ انتہائی کم ہے۔ چنانچہ مشاورت مرکزی حکومت سے اپیل کرتی ہے کہ جموں وکشمیر کے سیلاب کو \"قومی آفت\" قراردے ، حقیقی نقصان کا پوراپورا تخمینہ لگایا جائے اور بازآبادکاری میں فوج کواورقدرتی آفات میں امدادی کام کرنے والی قومیتنظیموں کو مصروف کیا جائے تاکہ کشمیریوں کی منتشرزندگی پھر ڈھرے پرآسکے جن کو اس عظیم تباہی کا خود مقابلہ کرنے کے لئے بے یارومددچھوڑدیا گیا ہے۔

فرقہ پرستی
مرکز میں برسراقتدار لیڈراگرچہ بات تو ’سب کا ساتھ اور سب کی ترقی ‘ کی کرتے ہیں، لیکن ایسا ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے فرقہ ورانہ بنیاد پر ہندو مسلم کی مستقل تقسیم اور گول بندی کی حکمت عملی اختیار کررکھی ہے ،جس کےلئے اپنے درمیان کے سماج دشمن اورمنھ پھٹ قسم کے لوگوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ وہ فرقہ پرستی کی آگ کو بجھنے نہ دیں اورملک بھر میں مسلم اورعیسائی اقلیتوں کو نشانہ بناکر مقامی نوعیت کے فسادات بھڑکاتے رہیں۔ اس طرح کی صورتحال ملک بھر میں ہر روز پیش آرہی ہے ،حالانکہ وزیراعظم نے اپنی 15اگست کی تقریر میں کہا تھا کہ فرقہ ورانہ وارداتوں پر دس سال کے لئے توقف رہنا چاہئے۔ ہرچند کہ ان کی یہ بات خود اس لئے قابل گرفت ہے کہ فرقہ ورانہ وارداتوں کوعارضی طور پر موقوف کردینا کافی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پوری طرح ختم کردینے اور ہرگز برداشت نہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پوری سنجیدگی سے نبھائے ۔ ساتھ ہی اقلیتوں سےبھی اپیل ہے کہ وہ اکثریتی فرقہ کے ساتھ خوشگوار ہمسایگی کاتعلق قائم کریں اورجہاں ضرورت ہو مقامی سطح پر امن اور بھائی چارہ کمیٹیاں قائم کرکے آپس میں میل جول بڑھائیں جس سے منافرت کے پروپگنڈے کو بے اثرکرنے میں مدد ملے گی۔

آر ایس ایس
مشاورت مرکزی حکومت کی طرف سے آرایس ایس کی کھلی پذیرائی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہارکرتی ہے جو مرکزی حکومت کے اہم مناصب پر آر ایس ایس کے لوگوں کو مقرر کرکے، آرایس ایس لیڈروں کے پروگراموں کی سرکاری ذرائع ابلاغ ٹی وی وغیرہ سے براہ راست تشہیرکرکے اورآر ایس ایس لیڈروں کے راج بھونوں میں استقبال سے کی جارہی ہے۔ مشاورت اس روش کو ملک کے سیکولر تانے بانے کے لئے نقصاندہ تصور کرتی ہے۔

تاریخ اور نصاب کا بھگواکرن
این ڈی اے حکومت نے نصاب کی کتابوں اور تاریخ کوبھگوا نظریہ کے مطابق ازسرنو مرتب کرنے کے اپنے انتہائی قابل مذموم ایجنڈے پرپوری شدت سے عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ مشاورت آگاہ کرتی ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے ملک کے سیکولر تانے بانے کو نقصان پہنچے گا، ہندوستان کی متحدہ شناخت کی تشکیل میں رکاوٹ پڑے گی اور معاشرے میں کشیدگی پیدا ہوگی جس سے قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پید اہوگی۔

مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن
اس فاؤنڈیشن کا قیام اقلیت میں تعلیم کے فروغ کے لئے 1989میں کیا گیاتھا۔ اس ادارے کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب سابق سرکار کے وزیر نے اچانک ایک نہایت فرض شناس افسر کو اس تنظیم کے سیکریٹری کے منصب سے ہٹا دیا۔ اس غیراصولی اقدام کی بدولت یہ ادارہ عملاً اسی طرح تعطل کا شکار ہوگیا ہے جس طرح قومی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن ہوچکا ہے۔ یہ انتہائی مناسب ہوگا کہ نئی وزیر صاحبہ فوری طور سے مناسب اقدام کریں تاکہ یہ دونوں ادارے ازسرنو متحرک ہوجائیں۔

دہشت گردی
نئی مرکزی حکومت خاموشی کے ساتھ دہشت گردی کے اس ہوے کو از نو کھڑا کررہی ہے جو سابق این ڈی اےحکومت کے دور کا پیدا کیا ہوا ہے۔چنانچہ خوف وہراس پھیلانے کے لئے مصنوعی واقعات تراشے جارہے ہیں،معمولی واقعات کو کچھ کا کچھ کرکے دکھایا جارہا ہے ۔ جرم اوراسمگلنک کے واقعات کو، جیسا کہ بردوان میں پیش آیا، بڑے شاطرانہ انداز میں بین اقوامی دہشت گرد سازش کے طور پر اچھالا جارہا ہے اور ادنی ٰ سی شہادت نہ ہونے کے باوجود مدارس کو بھی ماخوذ کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کی متعدد کیسوں میں ماخوذ افراد عدالتوں سے بڑی تعداد میں بری ہوئے ہیں، مثال کے طور پر سورت بلاسٹ کیس اور اکشردھام دہشت گرد حملہ کیس وغیرہ۔ ان کیسوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح واقعات تراشے جاتے ہیں اور جعلی شہادتیں گھڑی جاتی ہیں۔
مسلم مجلس مشاورت صدرجمہوریہ ہند اور وزیراعظم ہند کے ان بیانات کا خیرمقدم کرتی ہے جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دہشتگردی میں ملوث نہیں ہیں۔لیکن فرضی الزامات عائد کئے جانے اورمعاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کئے جانے کی سیکیورٹی فورسز کی روش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، اس لئے ضرورت ہےکہ صدرجمہوریہ اور وزیراعظم نے جو بات کہی ہے اس کو مناسب طور پر سیکیورٹی فورسز کے گوش گزار بھی کرایا جائے اور اس پر عمل بھی ہو۔

آئی ایس آئی ایس/ القاعدہ
مشاورت ہندوستان میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کے رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی مذمت کرتی ہے اور حکومت کوآگاہ کرتی ہے کہ وہ کسی مبینہ خطرے کی وسیع پیمانے پر تشہیر سے قبل اس کی اچھی طرح تفتیش کرلے۔ مشاورت مذکورہ اوران جیسی دوسری تنظیموں کے دہشت گردانہ فکر کی مذمت کرتی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو خبردارکرتی ہے کہ وہ ان کے پروپگنڈے کے جال میں نہ پھنسیں جو کہ اسلام کے انسانیت نوازی اور رحمدلی کے پیغام سے بہت بعید ہے۔ اسلام تمام دیگر مذاہب، تہذیبوں اور معاشروں کے ساتھ بقائے باہم کی تلقین کرتا ہے۔

قومی اقلیتی کمیشن؍قومی کمیشن برائے حقوق انسانی
اقلیتوں کے حقوق اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قائم کئے گئے یہ دونوں کمیشن حد درجہ کی تساہلی میں پڑ گئے ہیں۔ یہ دونوں کمیشن شکایت کئے جانے پر نہ تو نئے کیس ہاتھ میں لینا قبول کر رہے ہیں اور نہ دیگرکیسوں کی مستعدی سے پیروی کررہے ہیں۔اس لئے یہ نہایت ضروری ہوگیاہے کہ ان اداروں کی کارکردگی، ان کے کارکنان کی روش، اختیارات اور آئینی درجہ پر ازسرنو توجہ دی جائے۔

انتخابی اصلاحات
موجودہ انتخابی نظام میں اکثر پارٹیوں کو ان کے حاصل کئے ہوئے ووٹوں کے تناسب سے زیادہ سیٹیں مل جاتی ہیں جیسا کی حالیہ چناؤ میں ہوا ہے جب مرکز میں برسراقتدار پارٹی کو صرف 31فیصد ووٹ ملے لیکن مروج نظام کی بدولت اس نے پارلی منٹ میں نصف سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرلیں۔اس لئے ضرورت ہے کہ موجودہ انتخابی نظام کی جگہ \"متناسب نمائندگی \"کا منصفانہ نظام رائج کیا جائے ،جس کے تحت پارٹیوں کو ووٹ کے برابر سیٹیں ملتی ہیں، تاکہ قانون ساز اداروں میں عوام کی پسند کی اصل تصویر سامنے آئے۔

عدلیہ
ہماری عدلیہ عام طورسے غیرجانبدار اور غیر متعصب رہی ہے۔ لیکن حال کے چند واقعات سے اس کو نقصان پہنچاہے۔ مثلاحال ہی میں فرضی انکاؤنٹر کیس میں بی جے پی کے موجودہ صدر کی گلو خلاصی اوراس کے بعد سابق چیف جسٹس کو ، جنہوں نے یہ فیصلہ صادر کیا تھا، ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ایک ریاست کا گورنر مقرر کردیا جانا، ہماری عدلیہ کی غیرجانبداری اور شفافیت پر سنگین سوال کھڑے کرتا ہے۔ اس لئے واضح اصول مقررکیا جانا چاہئے کہ عہدہ چھوڑنے کے بعد کم از کم پانچ سال تک کسی جج یا افسر کو کسی آئینی یا سیاسی منصب پر فائز نہیںکیا جانا چاہئے۔

میڈیا
جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والا میڈیا عملا نئی حکومت کا ہمہ وقتی رابطہ کارنمائندہ بن گیا ہے اوراس نے اپنی آواز کی آزادی کوخیرباد کہہ دیا ہے ۔ میڈیا نہ صرف آنکھ بند کرکے نئے وزیراعظم کی تائید وحمایت کررہا ہے بلکہایسی’’ اصلاحات‘‘ پر زور دے رہا ہے جن کا فائدہ صرف بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو پہنچے گاجبکہ غریب عوام اورعام آبادی پر ان کی الٹی زد پڑیگی۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے جمہوری نظام میں میڈیا کو حاصل آزادیوں اور حقوق پر از سرنو غورکیا جائے تاکہ پیسہ کے عوض خبروں کی اشاعت اور میڈیا پر کارپوریٹ سیکٹر کی اجارہ داری جیسی برائیوں کو روکا جاسکے اور میڈیا کی وہ حیثیت بحال ہو سکے جو عوام کے مفادات کے بے لاگ نگران کی ہوتی ہے۔

سچر اسکیمیں
مسلم مجلس مشاورت محسوس کرتی ہے سچر کمیٹی کی سفارشات کے نتیجہ میں نافذ شدہ اسکیموں کو اور وزیراعظم کے 15نکاتی پروگرام کو برقراررکھنے کے سرکار کے اعلانات کے باوجود ان کوبے اثرکرنے کی علامتیں ظاہرہورہی ہیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی اب ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، لہذا موجودہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف سابقہ حکومت کی اعلان شدہ اسکیموں پر موثرطور سے عمل درامد کرائے بلکہ سب کی ترقی کے لئے مزید جامع منصوبے نافذ کرے۔

ہند، اسرائیل
مشاورت نہ صرف سیکیورٹی اور فوجی شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ ہند کے اشتراک میں مسلسل اضافے پر بلکہ تعلیم سمیت متعدد دیگر شعبوں میں بھی اشتراک وتعاون کوملک کے لئے خطرہ سمجھتی ہے۔ اسرائیل کیونکہ ایک جارح اور غیرقانونی قابض طاقت ہے، اس لئے وہ اس لائق نہیں کہ گاندھی کا ہندوستان اس سے قربت بڑھائے۔ تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں اسرائیل کی مداخلت کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ ذہن زہرآلود ہونگے اور فرقہ پرستی میں اضافہ ہوجائیگا۔مشاورت تمام وطن دوست عناصر سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ہندوستانی معاشرہ کے مختلف شعبوں میں اسرائیل کی دراندازی کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

غزہ پٹی
غزہ پراسرائیل اور اس کے حامیوں کی مسلط کی ہوئی 51روزہ جنگ صریحاًغیرقانونی جارحیت ہی نہیں تھی بلکہ مقبوضہ طاقت کی ایسی غیرمسلح آبادی کے خلاف مجرمانہ کاروائی بھی تھی جو اسرائیل کے تسلط سے آزادی پانے کے لئے جائز قانونی جدو جہد کررہی ہے۔اسرائیلی حملے میں دوہزارسے زیادہ فلسطینی جان بحق اور دس ہزارسے زیادہ زخمی ہوئے اور اس چھوٹے سے گھرے ہوئے خطے میں ہزاروں عمارتیں،گھر، اسپتال، بازاراور مساجد وغیرہ ، غرض یہ کہپورا بنیادی ڈھانچہ بری طرح تباہ ہوگیا۔ تعمیر نو کے کام پر سات بلین امریکی ڈالر خرچ کا تخمینہ ہے۔ جارح اسرائیل کو مجبور کیا جانا چاہئے کہ تعمیر جدید کا پورا خرچہ ادا کرے اوراس کے لیڈروں کو عالمی عدالت میں پیش کرکے جنگی جرائم کے لئے سزادلوائی جانی چاہئے۔ وقت اور انصاف کا تقاضا ہے کہ فلسطینیوں کوانصاف دلایا جائے، جبری قبضے ختم کرائے جائیں اور پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپسی کی چھوٹ ملے۔ ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادی مسجد اقصٰی کی حفاظت کا خصوصی بندوبست کریں جوصہیونیوں اور اسرائیلی فوجیوں کے مستقل نشانے پر ہے۔

عراق میں امریکا کی پھر مداخلت
مسلم مجلس مشاورت عراق (اور شام میں) امریکا اوراس کے یورپی حلیفوں کی از سرنو فوجی مداخلت کی مذمت کرتی ہے۔اس مداخلت کے لئے آئی ایس آئی ایس کے خطرے کو بہانا بنایا جارہا ہے جسے انہی طاقتوں نے ایران اورعراق کی شیعہ آبادی کے ساتھ محاذ آرائی کے لئے کھڑا کیا تھا۔ اس مصیبت کو زیرکرنے کے لئے راست مداخلت کے بجائے مقامی طاقتوں اور حکومتوں کی پشت پناہی کی جانی چاہئے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں