ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-05

ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں؟

urdu literature
اگر میں ادب پڑھنے کے اپنے ذاتی اسباب بیان کروں تو سب سے پہلے اپنے بچپن کا دور یاد آتا ہے جب ہم کالونی میں نہیں محلے میں رہتے تھے اور پورے محلے میں محض ایک ٹیلی ویژن عراق سے واپس آنے والے پروفیسر محمد اجمل کے گھر میں تھا ۔ میدیا سے ہمارا تعارف آل انڈیا ریڈیو کے بچوں کے پروگرام کے ذریعہ سے تھا اور انٹر نیت نیز کمپیوٹر کا نام بھی ہمارے لئے ناآشنا تھا ۔ چنانچہ اسکول اور پڑھائی کے بعد کا وقت( کبھی کبھی پڑھائی کا وقت بھی) گھر کے اطراف میدانوں میں کھیل کود کر گزاراجاتا تھا ۔ جی ہاں، میدان ابھی عنقاء نہیں ہوئے تھے اور نہی ہی سکڑ کر فلیٹ کی بالکونی میں تبدیل ہوئے تھے۔ بچوں کامختلف ڈھنگ سے استحصال عام نہیں تھا اورChildren's obesityاورJuvenile Depressionجیسےtermsنے ہمارے بڑوں کو تفکرات میں مبتلا نہیں کیا تھا۔ چنانچہ میں اور دیگر بچے بے جھجھک اور بے تحاشا کھیلتے تھے ۔ البتہ نماز مغرب سے قبل گھر میں داخل ہوجانا ضروری تھا جس کی پابندی کی جاتی تھی ۔
میرے اپنے گھر یعنی" خواب آشیاں" میں بچوں کو کہانیاں سنانے کا برا رواج تھا۔ چوں کہ ہم سب بچوں کو مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھلادیاجاتا تھا اس لئے کھیل کے بعد بھی بہت وقت ہوتا تھا جو کہانیاں سننے میں صَرف کیاجاتا تھا ۔ نانی ، دادی ، دادا کوئی حیات نہیں تھے ، یہ کہانیاں کبھی ہماری امی ، کبھی ولایت سے تعلیم یافتہ ہمارے ابو اور کبھی کانونٹ میں پڑھنے والی بڑی بہن سناتی تھیں ۔ ہر جمعہ کو ہمارے پڑوسی پروفیسر عتیق احمد صدیقی مرحوم کے گھر میں کہانیاں سنانے کا مقابلہ ہوتا تھا جہاں اکثر اوقات خاکسار کو انعام بھی مل جاتا تھا ۔ عتیق صاحب اور مکیش بدایونی صاحب مرحوم پیار سے طوطا کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔ عتیق صاحب مرحوم کے طفیل ہی میری"بچوں کی الف لیلہ" تک رسائی ہوئی تھی ۔
مجھے بچپن سے کہانیاں سننے کا شوق تھا ۔ خصوصاً پریوں کی کہانیاں جہاں کیک پیسٹری سے سڑکیں بنائی جاتی تھیں ، مکانوں کی چھت چاکلیٹ کےCubesسے تعمیر ہوتی تھیں ، ننھے پودوں میں ٹافیاں اور درختوں میں آئس کریم کونز لٹکتے تھے ۔ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ غباروں میں یا تتلی کے پروں پر بیٹھ کر چلے جاتے تھے ۔ بعض مخلوق تو اتنی ننھی منّی ہوتی تھی کہ پھولوں میں ہی رہتی تھیں ، وہاں ایلس تھی ، سنڈریلا اور اسنووہائٹ تھیں ، GratelاورHanselبھی تھے۔ گویا وہاں ہنگامے تھے ، حسن تھا، حرارت تھی، حیرتیں اور حسرتیں بھی تھیں۔ سوتیلی مائیں تھیں جو حیات کی ہولناکیوں سے آشنا کراتی تھیں ۔ حق و باطل کا تصادم تھا۔ لیکن آخر کار حق کی فتح تھی ۔ ریڈرائڈنگ ہڈ جب سیدھے راستے پر چلتی تھی تو کامیابی اس کا نصب ہوتی تھی ۔
پھریوں ہوتا کہ ان کہانیوں کو سنتے سنتے میں ایک ایسی دنیا میں چلی جاتی تھی جو صرف میری ہوتی تھی ، بھلے تھوڑی دیر کے لئے سہی ۔ میری مرضی کے کردار، جو میری ایما پر حرکت کرتے اور میرے اشارے پر ساکت ہوجاتے ۔ میں جب جب اور جب تک چاہتی ان کے ساتھ وقت بتاتی ۔ یہ دنیا جو صرف میری تھی کتنی خوبصورت تھی، جہاں کسی اور کی حتی کہ ایک ہی کمرہ ،Shareکرنے والے بھائی بہنوں کی بھی رسائی نہیں تھی ۔ رفتہ رفتہ کہانیاں سنانے والوں نے کہانیاں پڑھنے کی طرف راغب کیا، یہ ادب سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا اور یوں اب میں جب جی چاہتا ، اپنی ذاتی دنیا تخلیق کرلیتی ۔
آہستہ آہستہ ادب پڑھنے کا شوق پہلے انتہائی ہوا، پھر نشہ بن گیا ۔ فن پارے کے محاسن و معائب تو نقاد حضرات جانیں مجھے تو ادب پڑھ کر ایکFullfillmentاور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت دنیا جو ہمارے چہار اطراف پھیلی ہوئی ہے ، ہم اس کے چند ہی زایوں سے تو واقف ہیں مگر ادب ہمیں اس کے تمام پہلو ، ساری نیرنگیاں اور ان گنت زاویے دکھاتا ہے ۔ شعرا اور ادیبوں کی تشبیہات و استعارات کی ندرت مجھے حیران کرتی ہے ۔ کرشن چندر ، اے حمید، ابن انشاء اور مشتاق احمد یوسفی بہ یک وقت ادیب، مصور اور ویڈیو فوٹو گرافر معلوم ہوتے ہیں ۔ ان کا قلم ہی ان کا برش ہے اور قلم ہی ویڈیو کیمرے کا کام بھی کرتا ہے ۔ کبھی ادب کا پڑھنا مختلف Moodsکے تابع ہوتا ہے اور کبھی ادب پارہ ہمارےmoodsکو تبدیل کرتا ہے ۔ کبھی کہانیاں ہمیں متاثر کرتی ہیں، کبھی ڈرامہ ہمیں راغب کرتا ہے تو کبھی دل میں بے ساختہ شاعری پڑھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے جسے پورا کرکے ہم مدتوں محفوظ و مسحور رہتے ہیں ۔
ہم ادب اس لئے بھی پڑھتے ہیں کہ براہ راست نہ سہی بالواسطہ طور پر یہ ہمیں مختلف علوم و فنون سے واقف کراتا ہے ۔ ادب تو ایک خزانہ ہے جس میں فلسفہ ،سیاسیات ، سائنس ،معاشیات ، نفسیات ، تاریخ گویا زندگی کے ہر پہلو اور ہر علم کو پیش کردیاجاتا ہے ۔ ادب انسان کے تجربات کو پیش کرتا ہے ،تہذیبوں کا تذکرہ کرتا ہے ۔ ایک طرف جنگ کی ہولناکیاں بیان کرتا ہے تو دوسری طرف امن کی دل کشی اور دل آویزی کی عکاسی بھی تو کرتا ہے ۔ غرض وہ تمام باتیں پیش کرتا ہے جو ہمارے قلب کو گداز اور آنکھوں کو بینائی عطا کرتی ہیں۔ ہم ادب پڑھتے ہیں کیوں کہ ایک طرف یہ سلسلہ روز و شب کی پیش کش کا وسیلہ ہے تو دوسری طرف ایک ایسا آئینہ بھی ہے جو ہمیں، ہمارے اپنے اور سوسائٹی کے دیگر افراد کے چہرے دکھاتا ہے ۔ ادب آنے والی نسلوں کے لئے ہمارے تجربات کاStore houseبھی ہے۔
آج کل تو فلم اور ٹی وی کے ذریعہ ادب کو وسیع تر کینوس مل گیا ہے۔ یوں لوک گیتوں اور قصہ گوئی ، میلے ٹھیلے ، نوٹنکی بعد ازاں اسٹیج ڈراموں کے ذریعہ ایک مخصوص طبقے کے لئے تخلیق شدہ ادب کو بے حد وسیعviewershipمیسر آگئی ہے جس کی عمدہ مثال بر صغیر پاک و ہند کے ٹی وی سیریل ہیں۔ ہم نے پر زانیہ کی نمائش پر روک لگانے کی کوشش کی تاہم "تمس‘،’پارہ‘،’گرم ہوا‘ سب ہی بے حد مقبول ہوئے اور عوام کے ایک وسیع طبقے کو متاثر بھی کیا ، گویا ادب بالواسطہ طور پر سماج کو متاثر بھی کرتا ہے اور معلومات بھی فراہم کراتا ہے ۔ سماج میں ہونے والی تبدیلیوں اور انسانی اقدار کے بدلتے رویوں سے ہم بہت حد تک ادب کے ذریعہ واقف ہوتے ہیں ۔ تقسیم ہند کا المیہ ہمارے لئے محض سماجیات ، سیاسیات اور تاریخ کی کتابوں کے اعداد و شمار اور اٹلس کے نقشوں پر مشتمل ہوتا اگر ہم نے ٹوبہ ٹیک سنگھ ، آنگن، لاجونتی، اداس نسلیں ، تمس کتنے پاکستان اورA Train to Pakistanنہ پڑھی ہوتیں ۔ دلت ادب ،نسائی ادب اور اسی طرح ادب کی دیگر اقسام ہمیں تمام انسانی طبقات کے حقیقی جذبات و احوال سے واقف کراتی ہیں۔ ادب ہمیں ہماری خامیوں سے بھی آگاہ کرتا ہے اور یہ نکتہ ایک باشعور اور حساس انسان کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا ، ادب اعلیٰ ذہن اور وسیع مشاہدہ رکھنے والے افراد کے تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے ۔ مٹی میں بیج تو اکثر بوئے جاتے ہیں لیکنRuskin BondکےCherry Treeکا کلّہ پھوٹتا ہے تو راکی ہمیں احساس دلاتا ہے کہ تخلیق اپنے خالق کے لئے کتنی مسرتیں لاتی ہیں ، کارمن ہمیں یاد دلاتی رہتی ہے کہ انسان جب محبت کرتا ہے تو کتنا بھروسہ، کتنا اعتبار کرنے لگتا ہے ۔ وہ نک سے اسی قدر محبت کرتی ہے جتنی ہم اپنے خدا سے کرتے ہیں ۔Casabiancaکا نو عمر و نو خیز شہید ہم پر تابع داری اور فرض شناسی کے نئے دروا کرتا ہے ۔ ادب پارہ پڑھتے پڑھتے میں ننھی اور اس کی نانی دونوں کے کرب سے آشنا ہوئی ہوں ۔ غالبؔ ، اقبالؔ ،جگر ؔ ،فیضؔ ، ناصر کاظمی سب اس عقیدت کو تقویت دیتے ہیں:
زندگی اب بھی خوب صورت ہے
ہم ادب اس لئے بھی پڑھتے ہیں کہ اس سے ہمیں مسرت کے ساتھ بصیرت بھی ملتی ہے ۔ اس کے مطالعہ سے ہم زندگی کے رموز سے آشنا ہوتے ہیں۔ ادب ہمارے جذبات کو متاثر کرتا ہے ، ان کی ترسیل کرتا ہے ۔ ہم ادب پڑھتے ہیں کیوں کہ ادب کا حسن ہم پر سحر طاری کرتا ہے۔ کبھی ہم ادب تخلیق کرتے ہیں کیوں کہ ہم اپنے تجربات میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ہم خود ادب پڑھتے ہیں کیونکہ ہمیں دوسروں کے تجربات میں حصہ دار بننا اچھا لگتا ہے ۔
ہم ادب پڑھتے ہیں کیوں کہ ادب ہمیں نئی چیزوں کا شعوردیتا ہے ، معلومات میں اضافہ کرتا ہے ۔ادب ہماری مہم پسندی کے شوق کو مہمیز کرتا ہے ، کلاسیکی ادب ہمیں قدیم تہذیبوں اورگزرے ہوئے ادوار سے واقف کراتا ہے ۔ بعض اوقات ادب پارہ ٹائم مشین میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ ادب کبھی طنز و مزاح کا سہارا لیتا ہے ، کبھی سنجیدہ گفتگو کرتا ہے، کبھی دل و دماغ کو خوشی سے سرشار کرتا ہے تو کبھی کبھی رنج میں مبتلا کر کے تطہیر کے عمل سے گزارتا اور صیقل کرتا ہے ۔ ادب کبھی زندگی کی تلخی اور کرب کی آنچ سے شناسا کرتا ہے ، تو کبھی دکھوں کی حدّت پر محبت بھرے ہاتھوں سے خنک پانی کے چھینٹے دیتا ہے۔ ادب کبھی افسوں ہے ، کبھی نشہ ، کبھی خوشبو ، کبھی حرارت۔ جب تک انسان زندہ ہے ،اس کے دل میں دھڑکن اور جذبوں میں حدت باقی ہے، ادب کی ضرورت اور اہمیت برقرار رہے گی ۔ مختصراً یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم ادب پڑھتے ہیں کیوں کہ ہم اعلیٰ درجہ کی زندگی کرنا چاہتے ہیں ۔ جس کا بہترین وسیلہ ہمیں ادب ہی نظر آتا ہے ۔ ادب انجان جزیروں کے سفر میں ہمارا راہ نما اور وہاں سے کامیاب و کامراں واپسی میں ہمارا معاون و مددگار ہے ۔ یہی سبب ہے کہ میں ادب کا قاری ہونے کا فخریہ اعلان کرتی ہوں ۔

Why do we read literature?

1 تبصرہ: