بے زبان زبانِ اردو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-25

بے زبان زبانِ اردو

urdu-culture
اس وقت دنیا میں تقریباً ساڑھے چھ ہزار زبانیں زندہ ہیں ۔ ماندرین( چائنیز) بولنے والوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ چار ہزار زبانیں اپنا رسم الخط رکھتی ہیں جب کہ دو ہزار زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہے ۔
انگلش دنیا میں تیسرے ، عربی چوتھے اور ہندی پانچویں نمبر پر بولی جانے والی زبانیں ہیں ۔ عربی زبان میں مصری عربی سب سے زیادہ تقریباً54ملین افراد بولتے ہیں اور دس ممالک میں رائج ہے ۔ اقوام متحدہ میں دفتری کارروائی اور میٹنگز عربی ، چائنیز، فرنچ، انگلش ، اسپینش اور ریشنا زبان میں ہوتی ہیں ۔
اگر آپ ایک زبان جانتے ہیں تو ایک تہذیب اور کلچر سے واقف ہوتے ہیں ۔ اور اگر آپ ایک اور زبان جانتے ہیں تو آپ صرف زبان نہیں جانتے بلکہ ایک تہذیب جانتے ہیں ۔ جرمن فلسفی گوئٹے کہتا ہے ’’جو شخص صرف ایک زبان جانتا ہے ، حقیقتاً وہ ایک زبان بھی نہیں جانتا۔‘‘
ہر زبان کی پشت پر رہن سہن ، رسم و رواج جائز اور ناجائز کی پوری تاریخ ہوتی ہے اور ایک لفظ بڑے بڑے معنی رکھتا ہے ، مثلاً اگر ہم نجاست ، پاکی اور ناپاکی کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کا مکمل تصور ہوتا ہے ، اور اگر ہم اردو بولنے والےuncleanlinessکہتے ہیں تو اس سے پوری بات واضح نہیں ہوتی ۔
حقوق العباد کہنے سے ایک مکمل اور جامع تصورذہن میں آتا ہے لیکن جب ہم اس کا ترجمہ ہیومن رائٹ سے کرتے ہیں تو اس سے اللہ ، رسول ؐ ، آخرت سب خارج ہوجاتے ہیں ۔ حقوق العباد ایک عالمگیر تصور دیتا ہے اس میں ملک اور زبان بدل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جب کہ ہیومن رائٹ کا پیمانہ ملک اور قوم بدل جانے سے تبدیل ہوجاتا ہے ۔
بعض اصطلاحات کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ، مثلاً سنگل پیرنٹس کا تصور ہمارے معاشرے میں نہیں ہے اور نہ مستقبل میں اس لفظ کی ضرورت کا کوئی امکان ہے ۔ اسی طرح اولڈ ایج ہومز مغرب کی ضرورت ہے، ہمارے معاشرے میں آج بھی ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھنے کو پسند اور ثواب کا سبب سمجھاجاتا ہے لہذا ہمیں نہ اولڈ ایج ہوم کی ضرورت ہے اور نہ اس اصطلاح کی ضرورت ہے ۔ جب ہم مسجد کہتے ہیں تو حرمت، پاکی ، تقدس کا ایک پورا تصور ذہن میں آتا ہے لیکن جب مسجد کو موسک کہاجائے تو یہ سارے تصورات ہمارے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں۔ حقوق الوالدین ، حقوق الزوجین سے ہمارے ذہن میں ذمہ داری کا ایک دینی اور جزا سے بھرا خیال آتا ہے ، جب کہ مغربی معاشرہ اس سے عاری ہے ۔ جب ہم خلیفۃ المسلمین کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں انصاف کرنے والے، اللہ سے ڈرنے والے ، منصب و جاہ کی خواہش سے بچنے والے ، لالچ سے پاک حکمران کا خیال آتا ہے اور ہمیں ابو بکرؓ ، عمرؓ ، عثمانؓ ، علیؓ، عمر بن عبدالعزیز ؒ کا خیال آتا ہے ، لیکن جب ہم صدر اور پرائم منسٹر کہتے ہیں تو ابراہم لنکن ، چرچل، اوباما کا خیال آتا ہے اور ان سے وہ توقعات نہیں ہوتیں جو مسلمانوں کے خلیفہ سے ہوتی ہیں ۔
جب ہم بادشاہ کہتے ہیں تو ایک مطلق العنان خاندانی اقتدار ، ظالم یا رحمدل حکمراں کا تصور آتا ہے ، جو ہر قانون سے بالاتر ہوتا ہے ، شوبز میں ایک لفظ’’ بولڈ‘‘ کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے ، اس لفظ کا آپ اردو ترجمہ کریں اور بولڈ لفظ بولنے والے کو کہیں کہ بولڈ کی جگہ اس کا ترجمہ استعمال کرے ۔ اسی طرح رسم الخط کی پشت پر مختلف جذبات ہوتے ہیں ۔ جناب جمیل جالبی نے اردو حروف تہجی میں’’ط‘‘ کو اضافی قرار دیا لیکن جناب مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ طوطے کو اگر ’ت‘ سے لکھا جائے تو طوطے کا سبز رنگ اور خم دار چونچ کا تصور واضح نہیں ہوتا ۔
اگر ہم اللہ کہتے ہیں تو محبت ، عقیدت، عظمت ، طاقتور، حلیم ، خبیر کا خیال آتا ہے ،لیکن اگر Godکہاجائے تو یہ سارے خیالات مبہم ہوجاتے ہیں ۔
لہذا اپنے بچوں کو اپنی زبان سے دور نہ کریں اور نہ اردو کر رومن میں لکھنے کی عادت ڈالیں ، اور اسلامی اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کے بجائے انہیں عربی میں رائج رہنے دیں ۔

Urdu language and Culture. Article: Tanweer Ullah Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں