اسوۂ ابراہیمی اور شیوۂ آزری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-06

اسوۂ ابراہیمی اور شیوۂ آزری

مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی
ابراہیم علیہ السلام دنیا میں اس وقت آئے جب معصیت کا بازار ہر طرف گرم تھا، گھر سے لے کر باہر تک ساری دنیا صرف ایک کام میں مشغول تھی ، اور وہ تھا بت سازی اور بت پرستی کا کاروبار ، خود ابراہیم علیہ السلام کے باپ آزر بت پرست ہونے کے ساتھ ہی ایک ماہر بت تراش اور اپنے زمانے کے فنکار بھی تھے، پورا ماحول اسی بت سازی اور بت پرستی کی لعنت میں گرفتار تھا ، انسان کی معراج ہی یہ تھی کہ کم از کم اگر وہ بت ساز نہیں ہے تو بت پرست ضرور ہو ، اس وبا نے تمام انسانوں کو بری طرح گھیر رکھا تھا ، اور ہر شخص اپنے حقیقی ماحول سے دور بہت دور ایک ایسی خار دار وادی میں بھٹک رہا تھا جہاں بجز معدہ و مادہ کے کسی اور بات کا گزر نہ تھا، اور لوگ اس کے علاوہ کسی اور چیز سے آشنا بھی نہیں تھے ۔
حرص و ہوس سے جکڑے ہوئے اسی ماحول میں ابراہیم علیہ السلام نے آنکھ کھولی ، انہوں نے اپنی حقیقت آشنا نگاہوں سے اس گھٹتے ہوئے انسان کو دیکھا جو اپنی ساری صلاحیتوں کو پتھر اور لکڑی پر صرف کررہا تھا ، انہوں نے ایک بے جان اور بے حس و حرکت بت کے سامنے لوگوں کو اپنی پیشانیاں لگاتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے اس محدود اور مقید ذہن کو دیکھا جو ایک تنگ دائرے کے ارد گرد گھوم رہا تھا ، اور جس کامطمح نظر صرف معدہ تھا ، اورمادہ پرستی کی ایک گھناؤنی شکل جس کا مرکز توجہ و التفات تھی ۔
یہ ساری باتیں انسان کے فطری وظیفہ کے بالکل خلاف تھیں اور دوسرے الفاظ میں انسانی فطرت سے جنگ کے مرادف تھیں ، ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خداداد صلاحیت اور اپنی فطری قوت سے ان تمام مادی طاقتوں کو چیلنج کیا ، یا انہوں نے بت پرستی اور بت سازی کی مخالفت کی ، انہوں نے حرص و ہوس کی اندھی تقلید پر احتجاج کیا اور انہوں نے اس غیر حقیقی ماحول کے خلاف اعلان جنگ کیا اور اپنے باپ آزر کو اس بے راہ روی سے باز رہنے کی فہمائش کی ، اور قرآن مجید کی زبان میں ابراہیم علیہ السلام نے صاف صاف کہا:
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ ٰٓیاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَالَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْءًا O آیاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا O آیاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا O آیاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَاب’‘ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّاO
’’جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے ’’جو کہ مشرک تھا‘‘ کہا کہ اے میرے باپ ! تم ایسی چیز کی کیوں عبادت کرتے ہو جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ تمہارے کچھ کام آسکے ۔ اے میرے باپ! میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا ، تو تم میرے کہنے پر چلو ، تم کو سیدھا راستہ بتاؤں گا ، اے میرے باپ! تم شیطان کی پرستش مت کرو، بیشک شیطان رحمن کی نافرمانی کرنے والا ہے، اے میرے باپ! میں اندیشہ کرتا ہوں کہ تم پر رحمن کی طرف سے کوئی عذاب نہ آپڑے ، پھر تم(عذاب) میں شیطان کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام کی یہ صاف گوئی اور ان کا اعلان حق آزر کی بت ساز طبیعت کو چیلنج نہ کرسکا اور وہ اس غیر حقیقی ماحول کو چھوڑ کر اپنے بیٹے کی بات سننے اور ماننے پر کسی طرح تیار نہ ہوا ،او ر اس نے صاف صاف کہہ دیا:
قال اراغب انت عن الھتی یاابرہیم لئن لم تنتہ لارجمنک واھجرنی ملیا۔(سورہ مریم،۴۶)
’’باپ نے جواب دیاکہ تم میرے معبودوں سے پھرے ہوئے ہو ، اے ابراہیم! اگر تم باز نہ آئے تو میں ضرو ر تم کو پتھروں سے سنگسار کردوں گا اور ہمیشہ کے لئے مجھ سے برکنار رہو۔‘‘
لیکن ابراہیم ؑ ہر طرح کی دھمکی اور خطرے سے بے پروا ہ اپنے کام میں مشغول رہے اور فطرت کے اصول کے سامنے انہوں نے کسی ایسے تصور کو ماننے یا اس کے قبول کرنے سے قطعاً انکار کردیاجو انسان کو انسان ہی کے آگے نہیں بلکہ پتھروں اور بے حس و حرکت مجسموں کے سامنے جبین نیاز جھکانے پر آمادہ کردے ، وہ اس مصنوعی اور بے جان ماحول میں ایک اجنبی تھے ، لیکن ان کے ایمان کی طاقت نے اپنے زمانے کی بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکر لی اور پوری آبادی کے خلاف ان کی آواز اس وقت اٹھی جب کہ ہر طرف سے خطرات ان کوگھیرے ہوئے تھے، اپنے اور پرائے ان کے دشمن ہوچکے تھے ۔
ابراہیم ؑ نے ہر خطرہ کو دعوت دی اور ہر مخالفت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوئے ۔ آگ کے ہر دہکتے ہوئے شعلوں میں اپنی جان عزیز کو فنا کردینے میں انہوں نے ذرا بھی تامل نہیں کیا ، جس کاانجام یہ ہوا کہ مخالفین پسپا ہوگئے، دشمن شکست کھاگئے اور آگ کے دہکتے ہوئے شعلے گل و گلزار بن گئے ، یہ ابراہیم ؑ کے ایمان کی وہ لازوال اور غیر فانی طاقت تھی جس کے سامنے دنیا کی ہر بڑی طاقت شکست خوردہ تھی اور جس نے اپنے زمانے کے جابر اور صاحب سطوت بادشاہ کے سامنے اس شان بے نیازی کا مظاہرہ کیا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں مفقود ہے ۔
اس آزری ماحول کو جنم دینے اور اس غیر حقیقی معاشرہ کو برپا کرنے میں جس چیز کو سب سے زیادہ دخل تھا وہ اسباب و سائل کے پیدا کرنے والے سے قطع نظر کر کے اسباب و وسائل پر مکمل اعتماد تھا ، اسباب ہی معبود کارساز سمجھے جانے لگے تھے اور وسائل ہی پر زندگی کی ساری عمارت قائم تھی ، اللہ تعالیٰ نے اس دور کے انسانوں کو متنبہ کرنے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعے اسباب و علل کی بے بسی کا راز افشا کرنا چاہا اور یہ بتایا کہ ان وسائل کے بغیر بھی انسان کس طرح بڑے سے بڑے خطرے کا مقابلہ کرسکتا ہے ، چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر گوشے میں یہ پہلو نمایاں ہے کہ ہر موقع پر اس کا اظہار ہوتا ہے ، خواہ وہ آتش نمرود ہو یا وادی غیر ذی ذرع کے تپتے ہوئے ریگستان ، بے یارومددگار بیوی کی بے تابی اور شدت انتظار ہویا شیر خوار بچے کی پیاس کی بے چینی ہو ، عالم و جابر بادشاہوں کی نظر حرص ہو یاپوری قوم اور برادری کی شدت عداوت کا عالم ہو ، آپ جدھر بھی نظر ڈالئے وسائل و اسباب کا فقدان اور بے یاری ہو بے بسی ، تہی دستی ہر جگہ نمایاں اور صاف نظر آئے گی لیکن اس کے باوجود ہر موڈ پر کامیابی اور سخت سے سخت آزمائش میں ایک غیبی مدداس طرح ساتھ ساتھ دکھائی دے گی کہ اسباب ووسائل کی اس دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں ۔
ابراہیم علیہ السلام صرف ایک ماحول یا ایک قوم اور معاشرہ کے باغی نہیں تھے بلکہ وہ اس زمانے کے باغی تھے جو اپنا حقیقی راستہ بدل کر وسائل کی راہ پر گامزن تھا اور اسی کو اپنی معراج اور حقیقی کامیابی کا راستہ سمجھ رہا تھا ، انہوں نے آکر اعلان کیا کہ اے اہل زمانہ ! تم نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ تمہاری خودی اورتمہارے مرتبہ کے کسی طرح شایان شان نہیں ہے ۔
تم اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بت سازی و بت پرستی میں مشغول ہو ، تم انسان ہوکر ان مجسموں کے سامنے جھکتے ہو جو تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہونچا سکتے ، بلکہ وہ ہر وقت تمہارے ہی محتاج رہتے ہیں، ان پر ایک مکھی بیٹھ جائے تو اس کو اڑانے کی بھی طاقت جس معبود کے اندر نہ ہو وہ بلا شبہ باطل و ناحق ہے اور اس سے لو لگانا ، اس کے سامنے جبین نیاز جھکانا تمہاری سخت ترین توہین ہے اور تمہاری جبین امتیاز پر کلنک کا ٹیکہ ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہزاروں سال پہلے جن خو د ساختہ معبودوں اور خانہ ساز اصولوں تو توڑا تھا، آج دنیا پھر انہیں معبودوں اور انہیں اصولوں کی پیروی کررہی ہے ۔ تاریخ نے گویا اپنے آپ کو دہرایا ، اور آزر کی صنعت کو آج پھر فروغ حاصل ہوا ہے ، وسائل و اسباب کے سامنے آج عجز وعبادت کا سرخم ہورہا ہے۔ کار ساز حقیقی سے بے تعلق اور فنا ہوجانیو الے اسباب پر کامل توکل اور بھروسہ ، آج کی دنیا کا اصول بن چکا ہے ۔
یہ آزری فتنہ جب بھی دنیا میں فروغ پائے گا اور وہ محدود و تنگ ماحول جہاں بھی قائم ہوگا، وہی لعنتیں اس کے ساتھ آئیں گی ، معیار بدل جائے گا ، ذہنی توازن متغیر ہوجائے گا ، گناہوں، لذتوں اور شہوات نفس کو اخلاقی قدروں کا درجہ دے دیاجائیگا ، ہر بے اصولی اور فطرت سے بغاوت کو فن اور صنعت کا لباس پہنا دیاجائے گا اور انسان نہ صرف انسان کے آگے جھکنے لگے گا، بلکہ وہ گناہوں کی عبادت ، نفس کی پرستش ، رذالت ، و کمینگی کو فروغ دینے کے لئے اپنے سارے امکانات کو صرف کرنے کی پیہم کوشش میں لگ جائے گا ، اور انسانیت دم توڑتی ہوئی نظر آئے گی۔
فتنہ آزری آج سے ہزاروں سال پہلے پیدا ہوا تھا ، لیکن آج پھر وہ تازہ دم ہے اور ساری دنیا کو اپنے تیز روسیلاب کی زد میں لے چکا ہے ، اگر پہلے ایک آزر تھا تو آج ہزاروں لاکھوں آزر پیدا ہوچکے ہیں ، آج کے آزر کی اولاد مارکس اسٹالن، خروشحیف وہلکانن ہیں ،ا گر اس آزر نے سنگ سار کرنے کی دھمکی دی تھی تو آج کے آزر لاکھوں ابراہیمیوں کو گولی کا نشانہ بناچکے ہیں اور دار کے تختوں پر لٹکا چکے ہیں ، اور آزر کا طوفان اتنا بلا خیز نہیں تھا جتنا اس کے متبعین اور آج کے آزروں کا ہے ۔
پورے ہجری سال میں سب سے زیادہ ابراہیمی یادگاروں کا جو زمانہ ہے وہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے ، جس میں ابراہیم کی متعدد یادگاروں اور مختلف آزمائشوں کو ہم یاد کرتے ہیں اور ان کی اتباع میں ہم بھی خد ا کے حضور اپنی معمولی قربانی پیش کرنے کی جرات کرتے ہیں ، بلا شبہ ہماری قربانیاں صفاو مروہ کے درمیان ہماری سعی ، اور اس گھر کا طواف جس کو ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا یہ سب کچھ بہت ضروری ہے اور ان کو انجام دینے والا خوش قسمت اور باعث صدمبارکباد ہے اور ان سے انکار کرنے والا قابل عتاب و ملامت بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔لیکن اس اعتراف کے باوجود یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ محض رسمی طور پر ابراہیم ؑ کی سنت کی پیروی کرلینا اور ان کی یادگار میں شریک ہولینا اور سال میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر ایک جانور کی قربانی دیدینا کافی نہیں ، اور نہ اس سے اس طوفان کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے جس کا مقابلہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے زمانے میں کیا ۔
اس وقت دنیا مادیت کے سامنے اس طرح سر بسجود اور اسباب و وسائل کی پرستش میں اسی طرح مشغول و منہمک ہے جس طرح ابراہیم ؑ کے زمانے میں تھی، بلکہ آج اس مادیت کا دھارا پہلے سے زیادہ تیز ہے ، پہلے مٹی اور پتھر کے بت پوجے جاتے تھے ، لیکن آج سونے چاندی کے بت اور تہذیب و تمدن کے بت اور قومیت و وطنیت کے مجسموں کی پرستش میں دنیا پوری طرح ڈوبی ہوئی ہے ، اور مختلف ناموں سے نفس کی پرستش میں لوگ مصروف ہیں ، کبھی فن اور آرٹ کے نام سے نفس کی پوجا ہورہی ہے تو کبھی خدمت اور ترقی کے نام سے بت پوجے جارہے ہیں اور کہیں علم و ادب کا سائن بورڈ لگا کر مادیت کے سیلاب کو آگے بڑھایاجارہا ہے ۔
آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ہر چیز کی شکل بدل گئی ہے ، اور ہر پہلو سے آزری فلسفوں کی خدمت ہورہی ہے ، یہ وہ وقت ہے جب کہ ابراہیم علیہ السلام کے پیروؤں کو بت شکنی کے لئے کمر بستہ ہونا چاہئے، آج ابراہیم جیسا ایمان، ابراہیم کی سی جرات و ہمت ، ابراہیم جیسا اخلاص چاہئے، جو مادیت کے فلسفوں میں جکڑی ہوئی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کا مداوا کرسکے اور اس کو بچا سکے ۔
آج اسی بت شکن، بہادر اور مرد مومن جربی اور مخلص ابراہیم کی ضرورت ہے ، جس نے اپنے نفس ایمانی سے آزر کے جادو کو توڑا اور اپنے اخلاص و عمل کے جذبہ سے آزر کے بت کدوں کو ٹھنڈا کیا ، اس بت کدہ میں آج پھر بہت سے بت جمع ہوگئے ہیں، اور ان کو توڑنے کے لئے ایک ابراہیم کی ضرورت ہے، لیکن بجز ابراہیم کے پیروؤں کے اور کون ہوسکتا ہے جو اس مہم کوانجام دے اور ابراہیمی سنت کو پھر سے زندہ کرکے انسانیت کا خراج حاصل کرے ۔

The sunnah way of Ibrahim A.S

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں