اردو صحافت کی زبان - تنزلی کی انتہا پر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-28

اردو صحافت کی زبان - تنزلی کی انتہا پر

fall of language of Urdu Journalism
صحافت ایک دن کا ادب ہے اور اس کے قاری ادب کے باضابطہ قاری سے تعداد میں کئی ہزار گنا زیادہ ہیں۔
اس لئے صحافت کی زبان کا معیاری زبان بنے رہنا زبان کی بقاءکےلئے لازمی ہے۔ لیکن ہندوستان میں ادھر چار پانچ برسوں میں یہ صورتحال انتہائی تیزی کے ساتھ بگڑی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس وقت جب کہ کاغذ پر یا سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اردو کی اشاعتوں اور اس کے قارئین میں بے پناہ اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اسی وقت صحافت کے متن میں زبان کا زوال بھی پوری طرح نظر آنے لگا ہے۔ یوں بھی ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں جو زبان کو طہارت کے ساتھ برتتے ہیں۔ ایک کام چلاؤ زبان اظہار کا وسیلہ بن جاتی ہے لیکن جب اس میں گراوٹ آنے لگے اور وہ گراوٹ کسی مجبوری کے تحت قابل قبول بھی ہے تو زبان کے سچے ہمدردوں کےلئے گہری تشویش کا باعث بن جاتی ہے۔
گذشتہ پانچ سے دس برسوں کے دوران اردو اخبارات کو خبروں کی ترسیل کے لئے کئی ایجنسیاں سامنے آگئیں۔ چونکہ ان کے پاس اپنے وسائل نہیں ہیں اور اخبارات کے صفحات کا پیٹ بھرنا بھی مقصود ہے اس لئے کہیں سے بھی کوئی خبر حاصل کر کے اردو کے قالب میں ڈھال دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خبر کی تلاش میں دن بھر بھٹکتے تھے اورایک زمانہ ہے کہ خبریں پڑھنے والوں کی تلاش میں بادلوں میں بھٹکتی رہتی ہیں۔
ایک سے زیادہ ویب سائٹوں پر پل پل کی خبروں کی ترسیل ہوتی رہتی ہے ۔ اردو اخبارات پہلے بھی اسی طرح سے اپنے صفحات کی شکم پوری کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ پہلے الگ الگ اخبارات میں ترجمے ہوتے تھے اب ایک جگہ ہوتے ہیں یعنی کسی خبر رساں ایجنسی میں اور سبھوں تک ان کی ترسیل ہو جاتی ہے لیکن خبر رساں ایجنسیوں میں ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن کےلئے صحافت صرف حصول رزق کا ذریعہ ہے۔ انہیں نہ خبر کی نزاکت سے کوئی دلچسپی ہے نہ اس کی زبان کی بارے میں فکر مندی۔
سب سے بڑی آسانی اردو کےلئے سب سے بڑی قاتل بن رہی ہے۔ گوگل ٹرانسلیٹ کے ذریعہ خبروں کے کشتوں کے پشتے لگائے جا سکتے ہیں۔ اور کشتوں کے پشتے ہی لگ رہے ہیں۔ یا توعجلت ہے یا عدم دلچسپی یا ناواقفیت یا پھر بے حسی۔ اسے چاہے جو نام دیجئے خبروں کی جو کاپی ایڈیٹر کے ہاتھ میں پہنچتی ہے اس میں بیمار کردینے کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل ٹرانسلیٹ کسی جملے کا اردو متبادل بنا دیتا ہے یعنی اگر کہیں یوجنا لکھا ہے تو اس کا متبادل منصوبہ ضرور بن جاتا ہے لیکن یوجنا کے ساتھ فعل کی جو جنس ہندی خبر کے متن میں ہوتی ہے وہی جنس منصوبے کے ساتھ رہ جاتی ہے۔ نتیجے میں جو اردو کا جملہ نکل آتا ہے وہ کچھ یوں ہے :
"متعدد منصوبے بنائی گئی ہیں۔"
افسوس کا مقام یہ ہے کہ کئی جگہوں پر یہی چھپتا بھی ہے ۔ یہی قاری تک پہنچتا ہے اور قاری کے لئے اخبار سند ہے۔ ترقی سنگھ اور تصور دیوی جیسی مثالیں مطبوعہ ہیں اور ان مثالوں سے بھی ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو ایجنسیاں چلا رہے ہیں یا مشینی تجربے سے مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اردو کی خدمت کرنے والے ہر ادارے کی مقدور بھر دستگیری کی جائے۔ جوسرکاری ادارے کروڑوں کا بجٹ لے کر چل رہے ہیں وہ اپنا بجٹ دوست نوازی اور غیر تخلیقی کاموں میں لٹانے کی بجائے ان اداروں کو مالی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش کریں۔ جن سے زبان کا سیدھا تعلق بنتا ہے تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔
لیکن خبر رساں ایجنسیاں چلانے والوں کو بھی اس پر دھیان دینا ہو گا کہ وہ جو ایجنسی چلارہے ہیں وہاں سے اردو میں خبروں کی ترسیل کو اپنا مقصد نہ بنائیں بلکہ اردو خبروں کی ترسیل پر دھیان دیں۔ زبان کے طہارت پسندوں کےلئے یہ شدید قسم کا فکر مندی کا لمحہ ہے جب ان کی زبان ان کی آنکھوں کے سامنے تباہ ہو رہی ہے اور وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
یہاں جوذہنیت کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ خبر اخبارات تک پہنچا دو۔ اس کے آگے کا کام ختم۔ اخبارات کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ بائیس برسوں کے دوران ان میں سے بیشتر نے اپنا ادارتی شعبہ ہی ختم کر دیا۔ نہ ایڈیٹر مستقل بیٹھتا ہے نہ مترجم بیٹھتے ہیں نہ پروف ریڈروں کی ضرورت ہے۔ یعنی اخبار ایجنسی اور آپریٹروں کے بل پر نکل رہا ہے اور جس سے جتنا بن پڑ رہا ہے وہ معیاری زبان کو اتنا ہی شدید نقصان پہنچانے میں دل وجان سے لگا ہوا ہے۔
کوئی ایجنسی ایسی نہیں جو اس کی گرفت کرے ۔
ڈی اے وی پی ، آر این آئی اور جو دوسری انضباطی ایجنسیاں ہو سکتی ہیں ان میں ماہرین کا انتخاب سیاسی وابستگی کی بنیاد پر یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو لوگ صاحبان اقتدار سے قریب ہیں وہ ہر ایسی جگہ پر موجود ہیں جس کےلئے وہ موزوں نہیں۔ اس کے باوجود سینہ پھلائے گردن اکڑائے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ اور انکے دستخط کے ساتھ زبان کو تباہ کرنے کا یہ عمل سرکاری نگرانی یا سرپرستی میں پوری شدت سے چل رہا ہے۔
اردو کے ادارے شدید بے حسی کے عالم میں ہیں جس سے نکلنے کی جدو جہد کرنے کا یہ آخری وقت ہے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
isnafonline[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The fall of the language of Urdu Journalism. Article: Ash'har Hashmi

1 تبصرہ:

  1. بات صحیح ہے. پروف کی غلطیاں مرے پر سو درے , غذا مذکورہ ھٰذا جیسے الفاظ کو غزا مزکورہ ھٰزا ذ کی ز نظر آنا اب عام ہوتا جا رہا ہے.

    جواب دیںحذف کریں