حیات اللہ انصاری کی صحافتی خدمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-28

حیات اللہ انصاری کی صحافتی خدمات

Journalistic contributions of Hayatullah Ansari
ہندوستان میں صحافت کا آغاز جیمز آگسٹس ہکّی کے "ہکی بنگال گزٹ''سے ہوا۔ ان کا یہ انگریزی اخبار 29، جون 1780ء میں کلکتہ سے شائع ہوا تھا اس کے تقریباً بیالیس سال بعد اردو کا پہلا اخبار "جام جہاں نما''27، مارچ 1822ء میں کلکتہ سے ہی جاری ہوا۔ یہ اخبار سدا سکھ لال نے جاری کیا۔ جو اتر پردیش کے شہر مرزا پور کے رہنے والے تھے۔ بر صغیر ہند میں جب اردو کو فارسی کے بعد سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تو اردو صحافت کا بھی عروج شروع ہوا تب سے اردو صحافت کے جو مراکز بنے ان میں لکھنؤ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے دہلی سے اردو کا پہلا اخبار شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے "دہلی اردو اخبار''نام سے 1837ء میں جاری کیا تھا۔ لکھنؤ کا پہلا اردو اخبار 1847ء میں لال جی کی ادارت میں "لکھنؤ اخبار''کے نام سے جاری ہوا اور مولوی محمد یعقوب انصاری فرنگی محل کی ادارت میں "طلسم لکھنؤ''شائع ہونے لگا تھا۔ اس کا تعارف کراتے ہوئے پروانہ رودولوی نے لکھا ہے۔
"لکھنؤ کا طلسم لکھنؤ 1856ء میں نکلا۔ جلد ہی اس کا شمار اہم اخباروں میں ہونے لگا۔ زبان مقفّیٰ و مسجع تھی۔ یہ اخبار لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کا عکاس تھا اس کی ایک خبر ملاحظہ کیجئے۔ "لکھنؤ میں سنیچر آیا ہے چوروں نے ہنگامہ مچایا ہے، جو سانحہ ہے عجائب ہے، آنکھ جھپکی پگڑی غائب ہے۔
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے۔ دونوں ہاتھوں سے تھام لو دستار۔''1؂
1858ء میں منشی نول کشور نے لکھنؤ سے "اودھ اخبار''کا اجراء کیا جو پورے ملک کا مشہور و مقبول اخبار بن گیا تھا۔ اس خبار کو سر سید احمد خاں کی تحریک پر روزنا مہ بنا دیا گیا تھا۔ اس سے وابستگان میں صحافت اور علم و ادب کی نامی گرامی ہستیاں شامل رہی ہیں۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولوی غلام علی خاں تپش، مولوی عبد الحلیم شرر، مرزا حیرت علی دہلوی، مولانا محمد حسین شوکت، سید امجد علی اشہری، مولانا جالب دہلوی وغیرہ ان میں نمایاں تھے۔ لکھنؤ کی اردو صحافت کے اس ابتدائی دور میں یوں تو بہت سے اخبارات جاری ہوئے اور اپنی اہمیت منواتے رہے مگر تاریخ میں "اودھ اخبار ''کے ساتھ جس اخبار کا وقیع حوالہ ملتا ہے وہ ہے منشی سجاد حسین کا مزاحیہ اخبار "اودھ پنچ''جو 1877ء میں جاری ہوا تھا ان دونوں اخباروں نے صحافت اور ادب کی نئی راہیں بھی ہموار کرنے کا اہم فریضہ ادا کیا۔ صحافت کی نئی زبان بھی انہی کی مرہون منت رہی ہے۔ ملک کی سیاست اور عوام کو درپیش مسائل پر شعوری طور پر غور و فکر کرنے کے لیے عوام کو آمادہ کرنے کا کام اس اخبار نے کیا اور تعمیری انداز فکر کی وجہ سے پورے ملک میں اردو صحافت کو اعلیٰ مقام بھی ملا ، بنگال سے مولانا ابو الکلام آزاد کا "الہلال''پھر "البلاغ''اور پھر رامپور سے مولانا محمد علی کے "ہمدرد''کے علاوہ مولانا ظفر علی خاں کے اخبار "زمیندار ''اور حسرت موہانی کے اردوئے معلّیٰ "مہاشہ کرشن کے پرتاپ''، سردار دیوان سنگھ مفتوں کے "ریاست''مہاشہ خوشحال چند کا "ملاپ''،مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے "صدق''مولانا مودودی اور مولانا فار قلیط، عبد الوحید صدیقی وغیرہ کے عہد میں الجمیعتہ کافی مشہور و مقبول رہے ہیں۔ ان اخبارات نے جو اردو صحافت کی تاریخ مرتب کی اسی کی بنا پرآزادی ہند کی تحریک چلانے والوں نے بھی اس کی طرف توجہ دی۔ سب سے بڑی اور فعال قوم پرست جماعت کانگریس نے بھی اردو اخبار کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور اپنے افکار و خیالات کو عوام تک پہچانے کی غرض سے پنڈت جواہر لال نہر کی سرپرستی و قیادت میں ممتاز رہنما رفیع احمد قدوائی کے تعاون سے روز نامہ "قومی آواز''کے اجراء کا فیصلہ کیا گیا۔ 1944ء میں یہ روز نامہ لکھنؤ سے جاری ہوا۔ حیات اللہ انصاری کو اس اخبار کے ایڈیٹر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سے قبل حیات اللہ انصاری ہفت روزہ "ہندوستان''کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنا نام اور مقام بنا چکے تھے۔ اس کے علاوہ جدوجہد آزادی سے ان کی وابستگی اور صحافت سے دلچسپی نے بہت جلد اس اخبار کو ایک اہم مقام دلا دیا۔ انہوں نے بے لاگ اور جرأت مندانہ اداریہ لکھے۔ جب حکومت نے جدوجہد آزادی کے خلاف تادیبی کا روائیاں کیں تو نیشنل ہیرالڈ اور دوسرے اخبارات کے ساتھ ان کی باغیانہ تحریروں کی وجہ سے "ہندوستان''بھی بند کر دیا گیا تھا۔
حیات اللہ انصاری نے اپنے عہد کی اردو صحافت کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد روز نامہ "قومی آواز''کے ذریعے اردو صحافت کو بلند معیار عطا کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنے رفقاء کار کے مخلصانہ تعاون کے ساتھ قومی آواز کی اشاعت میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ اس کے ذریعے اردو صحافت کا ایک معیار قائم کیا۔
اس وقت تک اردو کے اخبارات 30x20 سائز پر چھپتے تھے۔ حیات اللہ انصاری نے اس سائز کو تبدیل کیا انہوں نے "قومی آواز''کو انگر یزی اخبارات کے سائز 36x22 پر شائع کیا۔ اس کے کالموں کو بھی بین الاقوامی معیار عطا کیا یعنی آٹھ کالم پر کتابت کرائی گئی جو اس کے سائز کے لیے موزوں و مناسب تھی اس سے اخبار کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوا اور اردو اخبارات کے لیے ایک معیار بھی اس طرح قائم کر دیا گیا کہ ہر کالم کی چوڑائی 2/1 4سینٹی میٹر طے کی گئی جو اب تک تقریباً تمام نمایاں اور اچھے اخبارات میں رائج ہے یہ انقلابی قدم اردو اخبارات میں سب سے پہلے قومی آواز نے ہی اٹھایا تھا جو اس عہد میں شائع ہونے والے تمام اخبارات سے یکسر علیحدہ تھا۔ اس کے ذریعے اردو اخبارات کا انداز ہی نہیں اسلوب نگارش بھی بدل گیا۔ صحافت کے فن میں جدید ہیئتی تجربے بھی خوب کیے گئے اور زبان و بیان کا انداز بھی دیکھتے ہی دیکھتے بدلنے لگا۔ اردو میں ان کا یہ تجربہ نہایت کامیاب ثابت ہوا اور دیگر اخبارات کے لیے مشعل راہ بھی بنا کسی بھی واقعہ یا خبر کو لفاظی یا غیر ضروری طوالت کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے کم سے کم الفاظ میں من و عن عوام کے سامنے لانے کی سعی کی گئی اور یہ عمل اس خوبی کے ساتھ ہوا کہ قاری کا تجسس بھی خبر کے اس حقیقی نقطہ تک نہایت آسانی سے مرکوز ہونے لگا جب کہ ان سے قبل اخبارات کی خبریں قاری کو متن تک پہنچنے سے پہلے ہی اکتاہٹ میں مبتلا کر دیتی تھیں۔ حیات اللہ انصاری نے ایڈیٹر یا ادارے کی اپنی رائے کے اظہار کے لیے ادارتی نوٹ کو بھر پور دلائل اور تنقیدی تجزیہ کے ساتھ پیش کرنے کی روایت قائم کی ۔ حیات اللہ انصاری کی سیاسی بالغ نظری اور سماج کے گہرے مشاہدے کی وجہ سے ان کے ادارے پڑھنے والوں کو اپنے طور پر رائے قائم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے تھے۔ اداریہ لکھنے سے پہلے وہ خود کافی غور و فکر کرتے تھے۔ ان کے اداریوں سے اردو داں طبقے پربے حد اثر بھی ہوتا تھ۔ انجمن ترقی اردو کے جنرل سیکریڑی ممتاز ناقد اور ادیب پروفیسر خلیق انجم ان کی بے باک صحافت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"صحافت میں بے خوف ہو کر اور نڈر ہو کر اپنی بات کہنے والے حیات اللہ انصاری صاحب ہی تھے۔ مجھے قومی آواز کا ایک بہت پرانا فائل مل گیا ہے اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ حیات اللہ انصاری صاحب اس زمانے میں سچائی کا راستہ نہیں چھوڑتے تھے۔ وہ کانگریس سے بھی اختلاف کرتے ہوئے نہیں ڈرتے تھے۔''2؂
اس زمانے میں قومی آواز جیسے معیار کے اخبار نہیں نکلتے تھے ایسے ماحول میں صحافت کو نئی سمت دینا اور اردو صحافت کو ایمانداری و سچائی کے راستے پر گامزن کرنا دشوار امر تھا۔ مگر حیات اللہ انصاری نے یہ عملی طور پر کر کے دکھا دیا خلیق انجم اپنے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں۔
"قومی آواز پنڈت جواہر لال نہرو کا اخبار تھا ظاہر ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو جی سے کون اختلاف کر سکتا تھا مگر حیات اللہ انصاری صاحب بر ملا ان سے بھی خود قومی آواز میں اختلاف کرتے تھے ان کے اختلاف کرنے کا مطلب یہ تھا کہ نو کری جاسکتی تھی مگر انہوں نے رسک لیا اور جواہر لال نہرو چونکہ خود بھی جمہوری مزاج رکھتے تھے اس لیے انہوں نے بھی ہمیشہ وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا۔''3؂
روز نامہ قومی آواز کے اداریہ تحریر کرنے میں انصاری صاحب نے گہرے غور و فکر کے ساتھ پیش کش کے انداز کو بھی دلکش، دلچسپ اور پر کشش بنایا۔ ادارے کی پیشانی پر ایک موزوں شعر بھی لکھا جانے لگا جو پڑھنے والے کو اداریہ کی پوری تفسیر کا مزہ دے دیتا تھا اور یہ انداز آج بھی قومی آواز کے اداریوں کا طرۂ امتیاز ہے بر سہا برس تک معقول اور موزوں اشعار سے مزین اداریوں کو حیات اللہ انصاری نے اپنے وسیع ذوق ادب باریک بینی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بڑی افادیت کا حامل بنایا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اشعار اپنے معنوں کی مقبولیت کے ساتھ استعمال ہو کر اپنی انفرادیت کا لوہا پڑھنے والوں سے منواتے چلے آئے ہیں۔ ممتاز صحافی گر بچن چندن نے قومی آواز کے اداریوں کے سفر نامے کے طور پر شعر کے استعمال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے۔
"ہر ادارے پر اس کے مفہوم کی نمائندگی کرنے والے معیاری شعر کی جدت بھی قارئین کے لیے ایک تحفۂ تخیل تھی۔ لوگ سارا سارا دن اس کا چرچا کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ کئی لوگ اکثر شعر سے ایڈیٹو ریل کی یاد دلاتے تھے۔ مشرقی پاکستان مرحوم سے جب فرار شروع ہوا تو ایک صاحب حیات اللہ انصاری کو بمبئی میں ملے اور کہا کہ آپ نے مہاجروں کی حالت پر جو ایڈیٹوریل لکھا تھا اس کی پیشانی کے شعر نے سب کچھ کہہ دیا تھا وہ شعر تھا
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا۔4
موقع و محل کے لحاظ سے ہر روز ایک فکر انگیز شعر اداریہ کے ساتھ پیش کر دینے کی روایت قومی آوز کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری نے اردو صحافت کو عطا کی تھی جواب تک جاری ہے۔
اردو صحافت کے لیے جس مثالی اور معیاری زبان کا استعمال قومی آواز میں کیا گیا وہ صحیح معنوں میں روز مرّہ استعمال میں آنے والی یا ہماری مانوس ترین آسان زبان ہی رہی ہے جو استدلال سے پر اور توازن کی حامل رہی ہے واقعہ یا خبر سے متعلق معلومات پوری بصیرت کے ساتھ بغیر کسی ذہنی الجھن کے ذہن میں سماجاتی ہے اردو صحافت کو رابطہ عامہ کے لیے ایسی ہی سادہ و آسان زبان کی سخت ضرورت تھی حیات اللہ انصاری کی اس خوبی کا اعتراف کرتے ہوئے ممتاز صحافی اظہار احمد لکھتے ہیں۔
"ایک صحافی کی حیثیت سے حیات اللہ انصاری امر ہیں۔ انہوں نے پوری اردو صحافت کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے اور اسے ایک نئی تازگی سے آشنا کیا۔ مہذب اور تعلیم یافتہ اردو داں طبقے کے ہاتھ میں ایک ایسا صحافتی مرقع پیش کر دیا جس کے لیے اردو دنیا ہمیشہ ہی ان کی احسان مند رہے گی۔''5؂
حیات اللہ انصاری نے محض رواداری میں یا جدت طرازی کے نمونے دکھانے کی دھن میں یہ اختراعی کوشش نہیں کی بلکہ سوچ سمجھ کر پورے شعور و فکر کے ساتھ اسے اختیار کیا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوے۔ حیات اللہ انصاری کے قلم بند کیے ہوئے اداریوں کا انداز اور لب و لہجہ تھا جواردو صحافت میں ان کے قلم کے ذریعے پروان چڑھا اور صحافتی زبان میں ہنر مندی کے ساتھ پیش ہوا اور بہتر نتائج کا حامل قرار پایا انہوں نے عربی اور فارسی کی اصطلاحات جو اردو اخبارات میں بے تکلف رائج تھیں ان پر اصلاحی نقطۂ نظر سے روک لگائی۔ پیچیدہ اور بوجھل جملوں کا استعمال شعوری طور پر بند کیا اور ان کی جگہ سادہ عام فہم اردو کے الفاظ استعمال کیے۔ سکہ رائج الوقت کی طرح جانے پہچانے انگریزی کے الفاظ بھی بلا تکلف استعمال کیے مثلاً کونسل ہاؤس، پارلیمنٹ، سکریٹریٹ وغیرہ۔ اس پر ایک زمانہ میں مولانا عبد الماجد دریاآبادی نے اعتراضات بھی کیے حیات اللہ انصاری نے ان کے جواب میں صاف طور پر کہا کہ وہی زبان زندہ رہ کر ترقی کرتی ہے جو نئے الفاظ اور اصطلاحات کو سلیقے سے برت کر اپنے ذخیرہ میں متواتر اضافہ کرتی رہتی ہے انہوں نے ہندی کے لاتعداد الفاظ بھی بے محابا اردو میں استعمال کیے اور اردو املا میں اصلاح کی کوشش جاری رکھی۔ کل ہند انجمن ترقی اردو کی کانفرنس میں ان اصلاحی اقدامات پر مدلل خیال آرائی کی اور مضامین و مقالے پڑھ کر انھیں منوایا بھی ۔ حیات اللہ انصاری کی اصلاحات کو انجمن نے بھی نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کو برتنے کی سفارش بھی کی۔
قومی آواز سے پہلے خبروں کی سرخیاں بہت طول و طویل اور جلی عبارت میں لکھی جاتی تھیں اس کی وجہ سے اخبار کے ایک صفحے پر بمشکل چار پانچ خبریں چھپ سکتی تھیں۔ حیات اللہ انصاری نے اس کے اصول مقرر کیے اور ایک صفحے پر سرخیاں لکھنے کا طریقہ قائم کرکے دس سے بارہ خبریں شائع کرنے کا فارمولا رائج کیا۔ سرخیوں اور خبروں کے الفاظ کی تعداد کا تعین کیا اگر پانچ سطر کی خبر ہے تو یک کالمی سرخی ہوگی، پورے صفحے کو آٹھ کالموں میں تقسیم کیا ان میں خبروں اور سرخیوں کے اصول مرتب کرکے رائج کیے۔ تصاویر اور کارٹون کے لیے مقام اور کالم مخصوص کئے گئے اور ان پر بھی سختی سے عمل جاری رکھا جانے لگا۔ یک کالمی سرخی میں پانچ الفاظ، دو کالم والی سرخی میں سات الفاظ اور تین کالمہ سرخی میں نو الفاظ اسی طرح چار کالم والی سرخی میں گیارہ الفاظ لکھنے کا طریقہ بنایا گیا جو آج قومی آواز ہی میں نہیں دوسرے معیاری اردو اخبارات میں بھی رائج ہے۔
حیات اللہ انصاری نے سیاسی، سماجی علمی، ادبی ہر نوعیت کی خبروں کے لیے اخبار کے صفحات میں مناسب اور موزوں جگہیں مقرر کیں۔ جس سے اخبار کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ خبروں کے علاوہ علمی و ادبی مباحث بھی اندورنی صفحات پر شروع کیے گئے۔ جس سے ذوق ادب کی ترویج میں مدد ملی اور صحافت کے ذریعے ادب کو زیادہ اہمیت ملنے لگی۔ انہوں نے فراقؔ گور کھپوری، جوشؔ ملیح آبادی، ڈاکٹر رشید جہاں ،سید سجاد ظہیر وغیرہ جیسے نامور صاحب قلم ادیبوں کو اور دوسرے اچھے لکھنے والوں کو قومی آواز کے قلمی معاونین میں شامل کر رکھا تھا۔ شعبہ ادارت میں انہوں نے جن اہم افراد کو جمع کیا تھا ان میں احسن کلیم، باقر رضوی، وجاہت علی سندیلوی، منظر سلیم احمد جمال پاشا، عابد سہیل، قیصر تمکین، عشرت علی صدیقی، متین الزماں، حبیب احمد قدوائی، مجیب سہالوی، مشتاق پردیسی، عبدالغنی وغیرہ ادیب و صحافی بہت مشہور و مقبول رہے ہیں۔ ان کی سجائی ہوئی انجمن کار کن بذات خود ایک ادارے کی حیثیت کا حامل بن کر ابھرا ہے۔ علم و ادب، تہذیب و تمدن کی جمہوری فضا کو سنوار نے نکھار نے میں قومی آواز نے جو رول ادا کیا ہے وہ اردو صحافت کی تاریخ کا اہم اور روشن باب ہے۔
حیات اللہ انصاری نے قومی آواز میں ادبی و مذہبی، علمی موضوعات پر مباحث کے سلسلے بھی چلائے جن میں فنون و ادب سے وابستہ دانشوران مباحث میں حصہ لینے لگے ادبی اور مذہبی موضوعات پر مقالے اور مباحث کا اہتمام کیا پوری ردّ و قبول کی کیفیات سے گذارنے کے بعد کسی بڑے عالم یا دانشور سے اختتامی فیصلہ کرانے کا دلچسپ اور دلپذیر سلسلہ بھی رائج کیا اور اس طرح معر کہ آرائیوں اور مباحثہ کا اختتام ہوتا تھا۔
اردو کے روز ناموں میں ادبی ضمیمے یا صفحات کا رواج نہیں تھا۔ قومی آواز میں حیات اللہ انصاری نے اس سلسلے کا آغاز کیا جو بے مقبول ہوا۔ طول طویل مضامین اور آپ بیتی وغیرہ کو باالاقساط چھاپنے کا سلسلہ بھی انہی کی دین ہے۔ اس کا اعتراف کرتے ہوئے سہیل وحید اپنی کتاب صحافتی زبان میں لکھتے ہیں۔
"روز نامہ اخبار کے علاوہ ہر ہفتے میگزین پیش کرنے میں بھی قومی آواز کو اولیت حاصل ہے اس سے قبل ہفتہ واری میگزین کا اردو روز ناموں میں رواج نہیں تھا اس کا ہفتہ واری میگزین "ضمیمہ''بہت مقبول ہوا اور ایک زمانہ تھا جب اس کے ضمیمہ میں چھپنا کسی بھی قلم کار کی معراج ہوا کرتی تھی۔ ناولوں اور آپ بیتی کو سیرایا لائز کرنے کا آغاز بھی قومی آواز نے کیا۔ رشید احمد صدیقی کی مشہور تصانیف "آشفتہ بیانی میری'' اور "عزیزان علی گڑھ کے نام ''سب سے پہلے اسی میں سیریل کے طور پر شائع ہوئیں۔''6؂
قومی آواز کے کچھ مستقل کالموں نے بھی شہرت حاصل کی مثلاً "تراشے''، ادبی ورق، شہر نامہ، کتابوں کی باتیں، فروگذاشت، فلم ریوئیوں، گلوریاں، دنیا کا حال اور بچوں کا گوشہ وغیرہ۔
"تراشے''عنوان کے تحت اردو کے دوسرے اخبارات کے وقیع اداریے نقل کیے جاتے تھے۔ افکارِ مضامین کے عنوان سے بھی دوسرے اخبارات کے مضامین نقل کیے جاتے تھے۔
"ادبی ورق''کے تحت ادبی محفلوں، ادبی تقاریب، مشاعروں وغیرہ پر مبنی رپورٹیں، تبصرے، رودادیں وغیرہ تفصیل کے ساتھ شائع کی جاتی تھیں۔ مشاعروں کے منتخب اشعار بھی شامل رہتے تھے جو کافی بڑے حلقوں میں پسند کیے جاتے تھے۔
شہر نامہ میں شہری زندگی کے مختلف النوع مسائل پر روشنی ڈالی جاتی تھی اور عوامی ضرورتوں کی وضاحت کرکے متعلقہ محکموں کی توجہ ان امور پر مبذول کرانے کی کوششیں بھی کی جاتی تھی۔
اردو میں چھپنے والی نئی اور پرانی کتابوں پر سیر حاصل تبصرے"کتابوں کی باتیں''عنوان سے شائع کیے جاتے تھے یہ سلسلہ بھی علمی و ادبی حلقوں کی براہِ راست توجہ کا مرکز تھا۔
قومی آواز کا "فروگذاشت''کالم بھی بڑا مقبول کالم تھا اس کو مفتی محمد رضا انصاری لکھتے تھے۔ "دنیا کا حال''اس کالم کو پہلے ڈاکٹر عبد العلیم لکھتے تھے اور کچھ عرصے کے بعد سے اس کو عشرت علی صدیقی لکھنے لگے اور پھر یہ عشرت علی صدیقی کا خاص کالم بن گیا جو عرصۂ دراز تک جاری رہا اور ہر طبقے میں پسند کیا جاتا رہا۔
فلم ریویو کے ذریعے نئی فلموں پر تبصرے اور نت نئے ڈھنگ سے خیال آرائی کی جاتی تھی فلم بین حلقوں میں اس کو بھی بے حد مقبولیت حاصل رہی ہے۔
"گلوریاں''فکا ہی کالم تھا اس کو بہت عرصے تک خود حیات اللہ انصاری نے لکھا پھر مجیب سہالوی، مشتاق پر دیسی وغیرہ لکھتے رہے۔ یہ بھی عوامی پسند کا مقبول کالم بنا رہا۔
"عالم اسلام''بھی قومی آواز کا بے حد مقبول کالم رہا ہے اس کو مولانا محمود الحسن ندوی لکھا کرتے تھے اور اسلامی حلقوں میں کافی پسند بھی کیا جاتا تھا طبی معلومات پر بھی ایک کالم قائم کیا گیا تھا۔
اسی طرح خواتین کی توجہ قومی آواز کی طرف مبذول کرانے کے لیے انہوں نے ایک تحریک کا آغاز کیا اور قومی آواز میں خواتین کے لیے جگہ مخصوص کی۔ اس کے اثرات عورتوں پر ایسے مرتب ہوئے کہ حیات اللہ انصاری کی بیوی سلطانہ حیات ان کی ہم عصر رضیہ سجاد ظہیر اور دیگر خواتین اہلِ قلم کے تعاون سے ایک تنظیم"بزمِ خواتین''کا قیام عمل میں آیا جس سے عورتوں کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں اور اہلِ قلم خواتین کا کافی بڑا حلقہ بنتا گیا۔
عام پڑھنے والوں کو اخبار سے جوڑنے کے لیے "مراسلات''کا کالم قائم کیا اور اس میں اظہار رائے کی آزادی کا خاص خیال رکھا گیا۔ مخالفانہ مراسلے بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ شائع کیے اور ان کے جوابات بھی چھاپے نصرت پبلشر کے مالک نامور ادیب عابد سہیل بھی قومی آواز میں حیات اللہ انصاری کے ساتھ اسٹاف میں شامل تھے بلکہ ان کا تقرر ہی ان کی صلاحیت دیکھ کر حیات اللہ انصاری نے کیا تھا وہ اپنے ایک مضمون "کچھ یادیں کچھ باتیں''میں لکھتے ہیں۔
"حیات اللہ انصاری صاحب نے کمیونسٹ پارٹی کو اردو دشمن اور مسلم دشمن ثابت کرنے کی کوشش کرکے ایک نہایت سخت اداریہ لکھا۔ بلکہ شاندار مسلسل اداریے لکھے۔ میں نے دفتر میں ہی بیٹھ کر اس کا نہایت سخت جواب لکھا اور پارٹی کی شہر کی شاخ کے سکریٹری بابو خاں کو لے کر حیات اللہ انصاری صاحب کے کمرے میں گیا اور وہ مراسلہ ان کو دیتے ہوئے میں نے کہا۔ "بابو خاں صاحب نے یہ مراسلہ آپ کے اداریے کے سلسلے میں لکھا ہے "حیات اللہ انصاری صاحب نے جنہیں شاید اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ جواب میں نے لکھا ہے "یہ تو آپ کی تحریر ہے''لیکن حالات تو بابو خاں صاحب کے ہیں''میں نے جواب دیا۔ وہ مسکرائے اور مراسلہ کے صفحات الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ "بھائی یہ بے حد طویل ہے''آپ کے ادارے کیا کم''اچھا اچھا دیکھوں گا'' انہوں نے کہا اور گفتگو ختم کردی اگلے دن یہ مراسلہ قومی آواز میں من و عن شائع ہوا۔''7
اردو اخبارات لیتھو پر چھپتے تھے قومی آواز بھی لیتھو پریس میں ہی چھپنا شروع ہوا۔ اردو اخبارات میں تصاویر کی اشاعت سے حتی الامکان گریز کیا جاتا تھا کیوں کہ ان میں تصاویر ایسی شائع ہوتی تھیں کہ صاحب تصویر کے چہرے کے شناخت دشوار ہو جاتی تھی۔ حیات اللہ انصاری نے لیتھو پریسس کی چھپائی کے طریقے کا جائزہ لے کر اس کے بہتر امکانات پر پوری توجہ دی اور یہ معلوم کر لیا کہ چھپائی کا کام کرنے والے لوگ اکثر بغیر پڑھے لکھے ہوئے ہیں اخبار کا عملہ مشینوں کے کام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ کاتب جو کتابت کرکے دیتا اسے مروجہ طریقوں پر منتقل کرکے چھپائی کی جاتی تھی جب پریس اور اس کے عملے میں حیات اللہ انصاری نے دلچسپی لی تو انہوں نے یہ بھی دیکھا کہااپنی لیتھو پریس میں ایٹلس، نقشے اور پوسٹر وغیرہ کافی خوبصورت انداز میں مختلف رنگوں کے استعمال کے ساتھ چھپتے ہیں اور ان کی خوبصورتی و چھپائی کے لیے اچھے آرٹسٹ بھی مل جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مختلف رنگوں کی روشنائیوں کا استعمال وہ لوگ جس حسن و خوبی کے ساتھ پریس کے دباؤ اور جماؤ کے ذریعے انجام دیتے ہیں اور یہ طریقہ ان کی چھپائی کو دیدہ ذیب بنا دیتا ہے حیات اللہ انصاری نے ان تجربات کو قومی آواز کے لیے کرنا شروع کیا۔ اچھے اور پڑھے لکھے کاریگر پریس میں لائے اور اس کے ذریعے قومی آواز کو بہتر طباعت سے آراستہ کیا ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا اور بہت جلد ہاف ٹون کی تصاویر قومی آواز میں اتنی اچھی چھپنے لگیں کہ انگریزی اخبار نیشنل ہیرالڈ میں بلاک پر چھپنے والی تصاویر سے زیادہ صاف ستھری اور خوبصورت نظر آنے لگیں۔ ملک بھر میں قومی آواز کی طباعت کے حسن کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ ملک کے دوسرے حصوں سے اور لاہور و پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات سے قومی آواز کے طریقۂ کار کو سمجھنے کے لیے لکھنؤ تک آئے۔ اس طرح حیات اللہ انصاری نے قومی آواز کو اپنے عہد کے جدید ترین بین الاقوامی اخبارات سے ہم آہنگ کر دیا اور بقول اظہار احمد
"انہوں نے واقعی اردو طبقے کو انگریزی اخبار سے بے نیاز کر دینے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔''8؂
صحافت کے معیار کو بلند کرنے میں حیات اللہ انصاری نے جو جدوجہد کی اور جو نت نئے تجربات کیے اسی کے سبب ملک بھر کے مقتدر اہلِ قلم اور دانشور قومی آواز سے وابستہ ہوتے گئے ان کے عہد میں صفِ اول کے لکھنے والے قومی آواز میں لکھتے بھی رہے اس کی تحریری جدوجہد میں شریک بھی ہوتے رہے ہیں اس طرح قومی آواز بیشتر معاملات میں اردو کا سب سے اچھا اور معیاری اخبار بنتا چلا گیا حیات اللہ انصاری اور ان کی ادارت میں چھپنے والے اس اخبار قومی آواز نے مقبولیت کی تمام منزلیں طے کر لیں اردو صحافت کو اس کا یہ فائدہ ہوا کہ بعد میں نکلنے والے اخبارات اور ہم عصر اردو اخبارات کو ایک جدید نوعیت کا مثالی اخبار بہ آسانی مل گیا۔ "صحافتی زبان''پر تحقیقی مقالہ لکھنے والے سہیل وحید نے اردو کے اخبارات پر قومی آواز کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے
"مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومی آواز نے جن صحافتی اصولوں کی داغ بیل ڈالی اور جو معیار صحافت کا پیش کیا جس جدید صحافتی زبان کو متعارف کرایا اس کا اثر ضرور پڑا اور ایسا انہیں کہ ان اخباروں نے بھی جنہوں نے قومی آواز کا طرز اختیار نہیں کیا انہوں نے بھی قومی آواز سے کچھ چیزیں ضرور مستعار لیں وہ چاہے اداریہ لکھنے کا انداز ہو یا کالم نویسی۔ اور ان چیزوں کی پیش کش کے طریقے یا پھر کچھ نہیں تو مضامین کے موضوعات ہی۔''9؂
قومی آواز کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی رہی کہ اس اخبار نے قوم پرست حلقوں بالخصوص مسلمانوں میں مسلم لیگ یا کمیونسٹ پارٹیوں کے نظریات کے بر خلاف سیکو لرزم اور سوشلرزم کے خیالات اور نظریات کو نہ صرف مدلل طریقے پر پھیلایا بلکہ بڑی حد تک اس کو مقبول عام بنانے میں بھی سرگرم حصہ لیا اس معاملے میں حیات اللہ انصاری نے کانگریس میں شامل ان تمام عناصر کو بھی بے نقاب کیا جو فرقہ پرستی یا انتہا پسندی کی طرف ملک کو دھکیل دینا دچاہتے تھے۔ سرمایہ پرستی کے خلاف عوامی ذہن کو بیدار کرنے کا مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزادکا بتایا ہوا راستہ جو سودیسی اور سوشلزم پر مبنی تھا۔ جس کے نمائندہ پنڈت جواہر لال نہرو تھے اس کو عوام میں مقبول بنایا تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں میں مایوسی خوف و ہراس کااحساس گھر کر گیا تھا قومی آواز کے کالموں کے ذریعے حیات اللہ انصاری نے اس احساس کو کم کرنے اور قوم کو حالات کے مطابق صبر و تحمل کے ساتھ پوری ہوشمندی جرأت اور بے باکی کے ساتھ امید اور بہتر امکانات کی طرف موڑنے کی بھر پور کوششیں کیں۔ قومی آواز کے ذریعہ علاوہ ازیں انھوں نے لکھنؤ میں مسلم کانفرنس منعقد کرائی جس کو مولانا ابو الکلام آزاد جیسے جلیل القدر مفکر نے اپنے ولولہ انگریز خطاب سے حیات نو بخشی۔ مولانا آزاد کی بصیرت افروز تقریر نے مسلمانوں میں زندگی کی نئی روح پھونکی جس کا قومی آواز روز اول سے ہی نقیب بنا ہوا تھا اس کانفرنس کے بعد فرقہ پرستی کے خلاف محاذ جنگ کو اور تیز کر دیا گیا۔ رفیع احمد قدوائی اور پنڈت جواہر لال نہر نہرو کی سیاسی سوجھ بوجھ اور حیات اللہ انصاری کے قومی آواز کے اداریوں نے ملک و ملت کے حالات میں لائق تحسین تبدیلیاں پیدا کردیں اس لحاظ سے بھی قومی آواز اور حیات اللہ انصاری کی بالغ نظری اور رہنمائی کا اعتراف پورے ملک میں کیا جاتا رہا ہے۔ دہلی، حیدرآباد، کلکتہ اور دوسرے مقامات سے شائع ہونے والے مسلم اخبارات میں جانبداری کا رجحان کار فرما تھا تو قومی آواز غیر جانبدار، نیشنلسٹ اخبار ہونے کی وجہ سے زیادہ پر اثر رول ادا کر رہا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات کا معاملہ ہو یا پھر اردو کے مخالف ذہنوں کو بے نقاب کرنے کا کوئی موقع قومی آواز نے انھیں کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ اردو کی بقا اور ترقی کے لیے ان تھک کو ششیں کیں اور اس کے ساتھ برتی جا رہی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی، پرامن اور آئینی محاذ کھولے، ڈاکٹر ذاکر حسین اور قاضی عبد الغفار جیسے مقتدر قوم پرستوں کے ساتھ مل کر اردو کی دستخطی مہم خود اور اپنے رفقاء کے بل بوتے پر پوری ریاست اتر پردیش میں چلائی اور 22 لاکھ دستخطوں کے ساتھ محضر نامہ صدر جمہوریہ ہند کی خدمت میں پیش کیا۔ اس تحریک کو بھر پور عوامی حمایت دلانے میں قومی آواز کی خدمت بھی نا قابل فراموش رہی ہے۔
اردو صحافت کی تاریخ لکھنے والے قومی آواز کی خدمات اور حیات اللہ انصاری کے کارناموں کو ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ یاد رکھے گی۔ بے شک حیات اللہ انصاری نے اردو صحافت کو نئی سمت و رفتار عطا کی تھی اور اسے ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ بنا کر بین الاقوامی معیار پر لاکھڑا کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ان کا ایک بے مثال کارنامہ ہے۔
حواشی
1 : اردوصحافت اور لکھنؤ ۔پروانہ رودولوی ۔مطبوعہ نیا دور فروری مارچ 1994 ص 25
2: اردو صحافت اور قومی آواز ،خلیق انجم معلم اردو حیات اللہ انصاری نمبر جنوری، 1986 شمارہ 45 ص ۔19
3: اردو صحافت اور قومی آواز ،خلیق انجم معلم اردو حیات اللہ انصاری نمبرجنوری، 1986 شمارہ 45 ص ۔19
4: اردو صحافت میں حیات اللہ انصاری کی پہل کاریاں ۔ گربچن چندن مطبوعہ ماہنامہ کتاب نما نومبر 1946
5:اظہار احمد معلم اردو حیات اللہ انصاری نمبر جنوری، 1986 شمارہ 45 ص ۔15
6:صحافتی زبان ،سہیل وحید اعلیٰ پریس ،دہلی 1996 ص193
7:کچھ یادیں کچھ باتیں ،معلم اردو حیات اللہ انصاری نمبر جنوری ،1986 شمارہ 45 ص ۔12
8: اداریہ ،اظہار احمد ،معلم اردو حیات اللہ انصاری نمبر حصہ دوم دسمبر 1985 ص ۔15
9:صحافتی زبان ،سہیل وحید اعلیٰ پریس ،دہلی 996 1 214

***
ishratnahid[@]gmail.com
Dr. Ishrat Naheed
Asst. Professor, Maulana Azad National Urdu University.
C-9, H-Park, Mahanagar Extn., Behind Neera Hospital, Lucknow – 220 006
Mob. : 9598987727
ڈاکٹر عشرت ناہید

Journalistic contributions of Hayatullah Ansari. Article: Dr. Ishrat Naheed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں