روس کی خارجہ پالیسی میں ترمیم بیرونی حالات سے مربوط - روسی صدر پوٹین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-26

روس کی خارجہ پالیسی میں ترمیم بیرونی حالات سے مربوط - روسی صدر پوٹین

ماسکو
یو این آئی
روسی صدر ولادیمیر پوٹین نے وضاحت کی کہ ماضی میں بعض اوقات ایسے حالات بھی پیدا ہوئے ہوں گے جن کے زیر دباؤ روس کو اپنی خارجہ پالیسی میں ترمیم اور اس کے بعض پہلوؤں پر نظر ثانی کرنی پڑی ہوگی ، تاہم موجودہ حالات اس سے مختلف ہیں، لہذا خارجہ پالیسی میں ترمیم یا اس پر نظر ثانی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ سوچی میں ولدائی انٹر نیشنل ڈسکشن کلپ میں ایک تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ بیرونی حالات کے زیر اثر خارجہ پالیسی تبدیل کرنی پڑتی ہے تاہم ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا یا پھر ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے کہ روس خارجہ پالیسی میں تبدیلی اور نظر ثانی پر مجبور ہوجائے ۔ ایرانی نیو کلیر پروگرام یا پھر مشرق وسطیٰ کی صورتحال شمالی کوریا ، بحران، دہشت گردی یا جرائم سے معمول کے مطابق مقابلہ ، منشیات کی اسمگلنگ سے متعلق مغربی شراکت داروں کے غیر حلیفانہ عمل جیسے تمام مسائل امریکہ کے پیدا کردہ تھے اور ہم سب اس سے بخوبی آگاہ بھی ہیں تاہم ایسے تمام مسائل کے باوجود روس نے اپنی خارجہ پالیسی میں ترمیم یا اس پر نظر ثانی کو ضروری نہیں سمجھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیحات ہمیشہ جوں کی توں رہیں ۔ روس کا رویہ کبھی تبدیل نہیں ہوا۔ روس، روایتی رویہ پر اٹل رہنے والا ملک ہے جو تعاون اور مسائل کے حل کی مشترکہ تلاش سے عبارت ہے ۔ پوٹین نے مزید بتایا کہ روس نے خود کو کبھی اقوام عالم پر سوپر پاور کی حیثیت سے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم اس کے داخلی معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ہے ۔ کیا کوئی ایسی مثال موجود ہے جس سے یہ ظاہر ہورکہ روس خود کو سوپر پاور ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اسے ایک بھاری بار سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں اس کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ اپنے علاقوں کی ترقی کے لئے وسائل ، وقت اور قوت ضروری ہے ۔ ہمیں دوسرے کے معاملات میں مداخلت اور حکمنامے جاری کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ تاہم ہمارے معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے اور ہم پر حکم چلایاجاتا ہے ۔ عالمی تقدیر کا محرر بننے یا اس کی ثالثی کی کوشش سے گریز ضروری ہے ۔ انہوں نے اس نکتہ چینی کے علاقہ مغربی طاقتوں پر اپنے مفادات کی کشید کے لئے مذہبی مسلم انتہا پسندوں کے ساتھ امتیازی تعاون کا الزام بھی عائد کیا ۔ انہوں نے کہا کہ تاہم اس موقف کے اظہار پر مجبور ہوں کہ ہمارے شراکت دار بابار یہی راستہ اور رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ وہ سوویت روس کے ساتھ تصادم کے لئے اسلامی انتہا پسند تحریکوں کی سرپرستی کرتے ہیں جو افغانستان میں جارحیت کے مرحلہ سے گزری۔ طالبان اور القاعدہ کا جنم اسی کا نتیجہ ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں