تبصرہ کتاب - ٹیلی ویژن دنیا کا آٹھواں عجوبہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-20

تبصرہ کتاب - ٹیلی ویژن دنیا کا آٹھواں عجوبہ

کتاب : ٹیلی ویژن (دنیا کا آٹھواں عجوبہ)
مصنف : منظور الامین
مبصر : ڈاکٹر سید فضل ا للہ مکرم

کسی بھی تخلیق میں مصنف کا مطالعہ یا مشاہدہ یا تجربہ کا شامل ہونا لازم ہے۔جو تخلیق صرف مطالعہ کی بنیاد پر تحریر کی جاتی ہے وہ باعثِ کشش نہیں سمجھی جاتی ، مشاہدہ کے بل بوتے پر لکھی جانے والی تخلیق کچھ حد تک متاثر کن ہوتی ہے لیکن جس شہ پارے میں مصنف کا تجربہ شامل ہوجاتا ہے تو وہ کہیں زیادہ موثر اور دلچسپ ہوتی ہے۔منظورالامین نے اپنے مطالعہ،مشاہدہ اور تجربے کو اپنی تازہ ترین تصنیف "ٹیلی ویژن" میں یوں سمویا ہے کہ بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھے قاری کے دل میں جا بیٹھتی ہے۔
دنیا کے سات عجوبے اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔اس میں تبدیلی یا تغیر ممکن نہیں یہ تمام خونِ جگر سے تخلیق کئے گئے شاہکارہیں۔لیکن منظورالامین نے ٹی وی کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا ہے یہ واحد عجوبہ ہے جو اپنی ہئیت و ساخت اور رنگ و روپ بدلتا رہتا ہے۔اب تو اسمارٹ ٹی وی کا دور آگیا ہے جس سے بہ یک وقت ٹی وی اور کمپیوٹر کا کام لیا جا سکتا ہے ۔یہ وہ آٹھواں عجوبہ ہے جو کروڑوں کی تعداد میں ہے اور اس کی دسترس سماج کے ہرخاندان تک ممکن ہے۔
پروفیسر منظورالامین بلا شبہ میڈیا کی بہت بڑی شخصیت ہیں لیکن ادبی نقطہ نظر سے ان کا مقام و مرتبہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ تبھی تو ان کی تحریریں صحافت کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں اور ادبی رنگ و روغن بھی لئے ہوتی ہیں۔انہوں نے جدید مضمون نگاری کا احیا ء کیا ہے ۔دو سو پچاس سے زائد ان کے مضامین شائع ہو سکے ہیں۔انہوں نے مضمون نگاری کا ایک نیا رُخ پیش کیا جو دلچسپ بھی ہے اور قابلِ عمل بھی۔ان مضامین کے علاوہ سفرنامے اور تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔ان کی تصانیف میں بدلتے رنگ،حدیثِ دل اورجلیں آتش کدے مقبولِ خاص و عام ہیں۔ان کی زوجہ محترمہ رفیعہ منظورالامین ادو ادب کی ایک معروف فکشن نگار ہیں ۔تبھی تو انہوں نے یہ تصنیف ان ہی کے نام معنون کیا ہے۔زیرِ نظر تصنیف میں جملہ (47) مضامین شامل ہیں۔ان مضامین کو ابواب کے تحت تقسیم کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔مضامین کی ترتیب میں بھی کوئی منطقی جواز نظر نہیں آتا۔بعض مضامین کے عنوانات چوں کہ ادبی چاشنی لئے ہوئے ہیں اس لئے بڑے دلچسپ ہیں۔یہاں کچھ عنوانات نقل کئے جا رہے ہیں تا کہ قارئین کو کتاب کی اہمیت و افادیت کا انداز ہ ہو سکے۔
آواز ، نشر ہوتی ہے صدا جوں ہی اسے ملتا ہے اوج، ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی، کس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ، مارکونی کا بلیک باکس اور بیرڈ کا ٹی وی اسکرین، ہندوستان میں ٹیلی ویژن، ٹی وی پروگراموں کا پروڈکشن، پرسار بھارتی، لکھنؤ دوردرشن کیندر، ا نفارمیشن ٹیکنالوجی(man's speed)، ٹی وی پر اسپیشل آڈینس پروگرامس ، عورتوں کے لئے،بچوں کا پروگرام ، دیہاتی علاقوں کے لئے ٹیلی ویژن پروگرامز، سائنس پروگرام، شامِ غریباں، آپرا، سوپ آپرا(فیملی سیریل)، ایشین گیمز، کمبھ میلہ ، ٹیلی کانفرنسنگ ، ٹیلی فلم، ٹیلی مارکیٹنگ، ٹیلی میڈیسن، مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی، کوئیکیز0شارٹ فلم، سیسمے اسٹریٹ، اینی میشن، نیتاؤں کے کارٹون، سنگل کیمرہ اورلٹی کیمرہ پروڈکشن، میک اپ، ہیر اسٹائل، ملبوسات ، سیٹ ڈیزائنگ، میرے ہنگامہ ہائے نو بنو کی انتہا کیا ہے؟، ٹی وی میڈیا کے دو پلیٹ فارمز(TRP-TAM)، غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا، اسکرین پلے، ٹیلی ویژن اشتہارات، کمرشیلز کے نرق کا اسٹرکچر، دھکتی آگ اس زمیں پر خندق خندق جلتی ہے، ریلیٹی ٹی وی شو،براڈکاستنگ کے احتساب کی کمیٹیاں ، آج اور کل کا ٹیلی ویژن ناظر ، سیٹلائیٹ براڈکاستنگ، خبریں،اس ملک میں رہنا ہو تو اوقات میں رہنا۔۔۔۔۔، براڈ کاسٹنگ پالیسی وغیرہ
ٹیلی ویژن : آٹھواں عجوبہ۔۔۔ ایک خالص تکنیکی موضوع پر لکھی گئی تصنیف ہے ۔اردو میں ایسی تصنیف کی شدت سے کمی محسوس کی جاتی رہی ہے چوں کہ آجکل ہندوستان کی کئی ایک یونیورسٹیوں اور کالیجوں میں شعبۂ صحافت یا کم از کم صحافت کے ایک دو پرچے شاملِ نصاب ہیں۔اس لئے یہ کتاب شعبۂ صحافت اور شعبۂ اردو کے پوسٹ گرائجویٹ کے نصاب میں شامل کی جاسکتی ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ اس تصنیف کا صحافتی نقطۂ نظر سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور ادبی حوالے سے بھی گفتگو کی جا سکتی ہے۔ مصنف نے نہایت مہارت سے صحافت کے موضوعات کو ادبی ٹچ دیتے ہوئے اسے ایک دلچسپ تصنیف بنا دیا۔ویسے مصنف نہ صرف اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستہ رہا ہے بلکہ رٹائر منٹ کے بعد وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یو نیور سٹی اور کشمیر یونی ورسٹی میں شعبۂ صحافت کے استادبھی رہے ہیں اور رفیعہ منظورالامین کی رفاقت نے انھیں ادب اور صحافت کا ترجمان بنا دیا ہے۔
زیرِ نظر تصنیف کی تین بڑی خوبیاں ہیں۔ایک تو اسکا تکنیکی موضوع دوئم زبان اور سوئم مصنف کا اسلوبِ نگارش ہے۔زبان و بیان کے معاملے میں یہاں کے اردو اخبارات ،پاکستانی اخبارات کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں۔لیکن یہاں کا ٹی وی میڈیا اردو کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔خواہ وہ ڈاکومنٹری ہو کہ نیوز یا کوئی سوپ،ہر ایک میں اردو محاورے اور ضرب ا لامثال اکثر استعمال کئے جاتے ہیں۔اس تصنیف میں بھی مصنف نے نہایت سادہ اور شستہ زبان استعمال کرکے گویا اردو صحافیوں میں ایک تحریک پیدا کردہی ہے کہ صحافت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بھی سادہ ،سلیس اور شگفتہ زبان و بیان کے ذریعے اخباری لوازمات کو بہت دلچسپ بنایا جاتا ہے۔یہاں ایک دو اقتباسات نقل کئے جارہے ہیں ۔تاکہ مصنف کا اسلوبِ نگارش کا اندازہ ہو سکے۔خواتین کی عظمت پر ان کی رائے ملاحظہ ہو
" وجودِ زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ"یا عورتوں ہی کی زبان سے "ہم اگر بزم سے اٹھ جائیں چراغاں نہ رہے " عورت،مرد کی نصف سے بہتر کہی جاتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے مگر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر ایسا ہے تو باپ کے قدموں کے نیچے کیا ہوتا ہے جواب ملنا چاہئے۔ "ماں" میونکہ عورت ایک معصوم و مظلوم شئے ہے جو صدیوں سے مرد کے ظلم و ستم کا شکار رہی ہے ۔"
(ص 66)
manzoor-ulamin-fazalullah-mukarram
ٹیلی ویژن کے پروگرامس اور اشتہارات نے ایک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے ۔بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اس سلسلے میں مصنف نے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۔
"آج کے زہریلے ماحول میں گھروں میں اخلاقی تعلیم و تربیت بے حد ضروری ہے،ایک واقعہ یاد آیا،ایک نوجوان جو اخلاق سے بے بہرہ تھا،ایک بار ایک بزرگ سے ملنے گیا،وہ بزرگ کے ساتھ بڑی بد تمیزی سے پیش آیا۔ جب وہ جانے کے لئے پلٹااور تھوڑی ہی دور گیا ہوگا کہ بزرگوار نے اسے آواز دی کہ وہ کچھ چیز پیچھے چھوڑے جا رہا ہے ۔وہ پلٹ کر آیا اوراِدھر اُدھر تلاش کرنے لگا ۔بزرگوار نے اس سے کہا "کیا تلاش کررہے ہو، اصل تو تم اپنے پیچھے اپنی بد تمیزی چھوڑے جا رہے ہو"۔
(ص 10)

پروفیسر منظورالامین کی دور درشن میں خدمات ہمیشہ کے لئے یاد رکھی جائیں گی۔کیوں کہ انھیں کی تجاویز پر حکومتِ ہند نے دور درشن سے فیملی سوپ کی اجازت دی تھی۔پھر مصنف نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے "ہم لوگ" سیریل کا آغاز کیا جو دور درشن کا پہلا فیملی اینٹرٹینمنٹ سیریل تھاپھر اس کے بعد "بنیاد"سیریل پیش کیا گیاجو بے حد مقبول ہوا۔اس کے بعد فیملی سیریلس کا ایک سلسلہ چل پڑا۔اس ضمن میں ایک۔۔۔۔۔؟ یعنی مصنف نے "آپرا" پر بھی تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔
"آپرا ناٹک ہی کی ایک قسم(genre) ہے اسے شعر، موسیقی اور رقص کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔شعری زبان کو دراصل آپرا کا جسم کہا جا سکتا ہے جب کہ سنگیت کو اس میں روح کا درجہ حاصل ہے۔نثری ڈرامے میں الفاظ مکالمے کی شکل میں بولے جاتے ہیں جب کہ آپرا میں یہ الفاظ گائے جاتے ہیں،سنگیت ایکشن کو سپورٹ کرتا ہے اور مکالموں کا زبردست معاون ہوتا ہے،رقص بھی آپرا کا ایک اہم جُز ہے۔"
(ص 107)

پروفیسر منظورالامین نے کئی ایک تکنیکی موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ہندوستان میں ٹیلی ویژن ، آپرا ،ٹیلی کانفرنسنگ ، ٹیلی مارکیٹنگ ،ٹیلی میڈیسن ،اینی میشن ، اسکرین پلے ،اشتہارات ،سیٹ ڈزائنگ جیسے اہم موضوعات پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔پدم شری مجتبیٰ حسین نے" منظورالامین شخص اور عکس"کے عنوان سے نہایت شگفتہ مضمون رقم کیا ہے جبکہ ڈاکٹر شجاعت علی راشد نے"سخن چند دربارۂ منظورالامین "کے نام سے مصنف کی شخصیت اور فن کا احاظہ کیا ہے۔ تقریباً (360) صفحات پر مشتمل اس قدر میعاری تصنیف کی قیمت چار سو روپئے ہے جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوز نے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔یہ تصنیف اردو بک ڈپو ، اردو ہال حمایت نگر حیدرآبا د او ر ھدیٰ پبلشرز حیدرآباد سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔

***
dramsf[@]yahoo.com
موبائل : 09849377948
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

A Review on book 'TV- 8th Wonder' by Manzoor Ul Ameen. Reviewer: Dr. Syed Fazlullah Mukarram

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں