اردو ادب تہذیبی قدریں ماضی حال اور مستقبل - نظام آباد میں ایک روزہ سمینار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-25

اردو ادب تہذیبی قدریں ماضی حال اور مستقبل - نظام آباد میں ایک روزہ سمینار

giriraj-college-nizamabad-seminar
رپورتاژ:
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے زیر اہتمام گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد میں ایک روزہ قومی سمینار

شہر نظام آباد علاقہ تلنگانہ کے اضلاع میں تاریخ،ادب اور ثقافت کے اعتبار سے اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔آصف جاہی عہد میں یہ ایک اہم ضلع کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور قدیم میںیہ شہر موریا حکمرانوں کے زیر نگیں رہا اور بعد کے ادوار میں مغل،قطب شاہی اور آصف جاہی خاندانوں کی یہاں حکمرانی رہی۔ ضلع نظام آباد کی اپنی ایک تاریخ ،تہذیب وتمدن ہے۔یہاں کے سیاحتی مقامات میں علی ساگر،نظام ساگر،سری رام ساگراور نظام شکر فیکڑی قابل ذکرہیں۔ تعلیمی اداروں میں گری راج کالج شہر کا قدیم کالج ہے اور اب تلنگانہ یونیورسٹی بھی یہاں کام کر رہی ہے۔ اس تاریخی وثقافتی شہر میں اردو ادب کی بھی اپنی ایک منفرد تاریخ ہے۔
20ستمبر 2014ء کا دن نظام آباد کی تہذیبی و ثقافتی اورادبی تاریخ میں ایک اہم دن تصور کیا جائے گا کیونکہ اس دن ضلع کے قدیم وریاست تلنگانہ میں معروف گری راج گورنمنٹ ڈگری کا لج میں اردو ادب کے حوالے سے ایک بہترین اردو سمینار منعقد ہوا۔یہاں کے شعبہ اردو کی جانب سے ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی کی کنوینر شپ میں قومی سمیناربعنوان" اردو ادب تہذیبی قدریں ماضی حال اور مستقبل" قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔ اس سمینار کو ہم بین الاقوامی سمینار کا درجہ بھی دے سکتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح کی شخصیات نے اس سمینار سے خطاب کیا اور اپنے مقالے پیش کیے۔ خصوصاََ ماہر انیس و اقبالیات جناب ڈاکٹر تقی عابدی صاحب نے کینڈا سے آن لائن لیکچر دیا ۔ اس سمینار میں شکاگو سے ڈاکٹر عطا اللہ خان' سعودی عرب سے جناب مکرم نیاز صاحب' پاکستان سے راشداشرف نے اپنے مقالات روانہ کئے۔
سمینار سے ایک دن قبل اچھی بارش ہوئی جس سے ماحول خوشگوار ہوگیا حیدرآباد سے مہمان پروفیسر خالد سعید صاحب اردو یونیورسٹی اور جناب فاضل حسین پرویز صاحب مدیر گواہ رات دیرگئے نظام آباد پہونچ گئے تھے جن میں راقم بھی شامل تھا مہمانوں کو نظام آباد کی ایک مشہور لاج میں ٹہرایا گیا تھا۔ سمینار کی صبح جناب رحمٰن داؤدیِ صاحب نے مہمانوں کی ناشتہ پر ضیافت کی۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر مہمان جناب رفیق صاحب یوجی سی کوآرڈینیٹر کے ہمراہ گری راج گورنمنٹ ڈگری کالج پہونچے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی' جناب عابد علی اور پرنسپل جناب ڈاکٹر۔ایس لمبا گوڑ نے پرنسپل چیمبر میں سمینار کے مہمانوں کا استقبال کیا۔ ڈاکڑ اسلم فاروقی کی نگرانی میں کاروان گولڈن جوبلی ہال کی طرف روانہ ہوا۔سمینارہال شرکاء سے مکمل طور پر بھر چکا تھا اندازے کے مطابق اس ہال میں 400کے قریب شرکاء موجود تھے ۔یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرس اور کالج کے طلبا اور طالبات پہونچ چکے تھے۔سمینار ہال میں جناب ڈاکٹر تقی عابدی کی تصویر اسکرین پر دکھائی دے رہی تھی وہ کناڈا سے بذریعے اسکائپ لیکچر کیلئے بالکل تیار تھے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے مائیک سنبھالا اور ڈاکٹر ناظم علی کو جناب ڈاکٹر تقی عابدی صاحب کے تعارف پیش کرنے کی دعوت دی۔انہوں نے مختصر تعارف پیش کیا۔ تعارف کے بعد لیکچر کا آغاز ہوا جو کہ سمینار کے موضوع "اردو ادب تہذیبی قدریں ماضی،حال اور مستقبل"پر محیط رہا۔جناب ڈاکٹر تقی عابدی نے اردو کو گنگا جمنی تہذیب کی علمبرادر میٹھی زبان قرار دیا۔ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں تہذیبی قدروں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ محبت ہی اردو تہذیب کی بنیاد ہے۔انسان کو دنیا میں دل جوڑنے کیلئے بھیجا گیا ہے ناکہ دل توڑنے کیلئے۔ قلی قطب شاہ نے محبت کا درس اپنی شاعری کے زریعہ دیا ہے شاعری ایسی ہو جو کہ اخلاق و محبت کو پیدا کرے اور اتحاد ومحبت کا درس دئے۔محمد قلی قطب شاہ نے عورت کی جمالیات، کمالیات اور حسن و خوبصورتی کو اپنے اشعار کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔عمدہ اخلاقیات ا ور اخلاقی شاعری سب سے عمدہ اردو ادب میں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کے ساتھ اس کی تہذیب وابستہ ہے۔ عورتوں پر عصر حاضر میں جو مظالم ہو رہے ہیں اس کی روک تھام کے لئے ادب کی اچھی قدروں سے کام لینا چاہئے۔ انہوں نے اردو کے روشن مستقبل کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ اردو میڈیم سے تعلیم اور اردو کو روزگار سے جوڑنے سے اردو کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ لیکچر کے بعد سوالات وجوابات کا سلسلہ شروع ہو۔اس آن لائن لیکچر کے کامیاب انعقاد کے لئے ڈاکٹر تقی عابدی نے کنوینر سمینار ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اور پرنسپل پروفیسر ایس لمبا گوڑ کا شکریہ ادا کیا۔ لیکچر کے بعد سمینار کا باضابطہ آغاز عمل میں آیا ۔عبدالسلام قمر نے ترانہ سنایا ۔ویڈیو کے ذریعے اقبال کی نظم بچے کی دعا پیش کی گئی جس میں تہذیبی مظاہرہ شامل تھا۔پروگرام کی نظامت جناب عابد علی لیکچرر کامرس و اکیڈیمک کو آرڈینیٹرنے انجام دی ۔ڈاکٹر ناظم علی نے مہمانوں کا باری باری تعارف پیش کیا۔ڈاکٹر اسلم فاروقی نے خطبہ استقبالیہ کیلئے مائیک سنبھالا اور سمینار کی غرض و غائیت پیش کی۔اور کہا کہ اردو کا مستقبل تاریک نہیں روشن ہے ضرورت ہے کہ اردو کو ٹکنالوجی سے جوڑا جائے اور جدید تقا ضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ انہوں نے اردو اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس پر زور دیا کہ وہ فروغ اردو کے لئے متحد ہوکر کام کریں۔ انہوں نے سمینار کی منظوری کے لئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی اور ڈائرکٹر کونسل جناب خواجہ اکرام صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ ناظم سمینار نے اسلم فاروقی کی شخصیت سے متعلق یہ شعر پڑھا۔
لوگ چن لے جن کی تحریریں حوالوں کیلئے زندگی کی وہ معتبر کتاب بن جائیں
کالج طلباء کی نمائیندگی کرتے ہوئے جویریہ بیگم بی کام سال دوم اردو میڈیم نے "اکبرؔ الہ آباد ی کی نظم تعلیم نسواں کا تہذیبی مطالعہ" کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر ایس ۔ لمبا گوڑ پرنسپل کالج نے اس موقع پر صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو زبان میٹھی زبان ہے سماج میں تبدیلی کیلئے شعراء ایک انقلاب لاسکتے ہیں۔ انہوں نے ٹیکنالوجی سے مزین اس سمینار کے کامیاب انعقاد کے لئے ڈاکٹر اسلم فاروقی کو مبارک باد دی اور کہا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں اور تنہا اس طرح کے پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں ۔ وہ ہر سال کامیابی کے ساتھ سمینار کا انعقاد عمل میں لا رہے ہیں وہ اردو کے لیکچرر ہیں لیکن ٹکنالوجی کو استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہے۔اس رنگ برنگے سمینار میں مقالہ نگاروں کے مقالوں پر مبنی خوبصورت رنگین ساونیئر کی رسم اجراء مہمانوں نے انجام دی۔ ساتھ ہی ڈاکٹر اسلم فاروقی کی تیسری تصنیف " سائنس نامہ"کابھی اجراء عمل میں آیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز نے ہفتہ وار گواہ کے شمارے میں سمینار کی تٖفصیلات شائع کی تھی سمینار کے شر کاء میں گواہ کے خصوصی سمینار نمبر کی کاپیاں تقسیم کی گئیں۔ ماہر تعلیم این آر آئی جناب عبدالعزیز نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں آئے دن ہونے والے شرمسار واقعات اور صنف نازک پر ہونے والے حملے ہماری اقدار کی گراوٹ کا نتیجہ ہیں۔ ملک میں لاکھوں تعلیمی ادارے ہیں لیکن انسانی کردار سازی نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان کو ماضی کی قدروں کو حال میں برتتے ہوئے مستقبل کی جانب بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے انسانیت کی سر بلندی کا پیغام اپنے خودی کے فلسفے کے ذریعہ دیا ہے۔ان کی شاعری کا مرکز حب الوطنی رہا ہے سائنس وٹکنالوجی کے اس دور میں تہذیب و تمدن کو طلبہ میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے یہ سمینار بھی تہذیب کے فروغ کا ایک حصہ ہے۔ ناظمِ سمینار نے کلیدی خطبہ کیلئے جنا ب پروفیسر خالد سعید صاحب ڈائرکٹر انچارج مرکز برائے اردوزبان و ثقافت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کو دعوت دی۔پروفیسر صاحب نے تہذیب کیا ہے مفروضہ کے ساتھ اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ تہذیب کے لفظ کیلئے اردو میں تمدن ،ثقافت جیسے الفاظ مروج ہیں کلچر civilizationتہذیب کا ایک حصہ ہے کسی بھی انسان کے عقائد و افکار ،پیرہن وپوشاک 'زبان'غذائی عادتیں اوررہن سہن کا انداز ایک کلچر کو جنم دیتا ہے۔کلچر میں نفاست اور شائستگی سے تہذیب پیدا ہوتی ہے۔ اردو ادب کا تہذیبی سرمایہ شاعری کی مختلف اصناف کی شکل میں موجود ہے اردو شاعری کے ذریعے ہندوستانی تہذیب کی اعلی قدروں کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ عصر حاضر میں اخلاقی و تہذیبی قدروں کا فقدان ہورہا ہے ضرورت ہے کہ ادب کے ذریعے پھر سے تہذیب کا درس دیا جائے۔ مہمان مقرر جناب سید مجیب علی ڈائرکٹر کریسنٹ گروپ آف انسٹی ٹیوشنس نے تہذب کے حوالے سے کہا کہ موجودہ تعلیمی نظام طلبہ کے اخلاق و کردار اور تہذیبی قدروں سے دور ہورہا ہے ضرورت ہے کہ تعلیم کے ذریعے طلبہ میں اخلاق کو پروان چڑ ھائیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے کہی گئی اقبال کی نظموں کو اہم تہذیبی سرمایہ قرار دیا اور کہا کہ تعلیمی نصاب میں انہیں شامل کرتے ہوئے بچوں کے اقدار کی تعمیر کی جائے ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے صحافتی اقدار کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے موجودہ دور میں صحافتی اقدار کی پامالی پر اظہار افسوس کیا اور نوجوان نسل کو پیشہ صحافت اختیار کرنے اور صحافتی اقدار کے تحفظ پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ نصف صدی قبل صحافت پرنٹ میڈیا کا نام تھالیکن دور جدید میں صحافت میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور الکٹرانک میڈیا کا وجود عمل میںآیا۔عصر حاضر میں صحافت کے ذریعہ غلط خبروں سے سماج میں انتشار پیدا ہورہا ہے اور نفرت کی فضا عام ہورہی ہے۔صحافت کو چاہئے کہ وہ سماج میں تہذیبی قدروں کو پروان چڑھانے کیلئے کوشش کریں۔ایک اور مہمان ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم چیر پرسن بورڈ آف اسٹڈیس اورینٹل اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآبادنے مرکزی موضوع پر خطاب کیااور کہا کہ تعلیم کے ساتھ تہذیب بھی جڑی ہوتی ہے۔ آج ٹیکنالوجی کے دور میں ہم پڑھے لکھے تو ہیں لیکن تعلیم یافتہ اور مہذب نہیں ہیں۔ پہلی داستاں گو ہماری اپنی ماں ہے تہذیب کی امانتیں ماں سے ہی بچے میں منتقل ہوتی ہے۔ انہوں نے خواتین سے کہا کہ اللہ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھی ہے۔ اس لئے وہ اقدار کے فروغ میں کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ جدید ٹکنالوجی سے رشتہ ضرورجوڑ نا چاہئے اور انسان بلندیوں پر اڑے لیکن ہمارے پاوں زمین پر ہی رہنے چاہئے۔ٹکنالوجی کو تہذیب کے فروغ کیلئے استعمال کریں۔ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حید رآبادنے تہذیب کی اہمیت کو اجاگر کیا اور چند حمدیہ اشعار کو منفردترنم میں پیش کیا۔
اعلی تیرا مقام ' عرفہ تیرا کلام میری زبان پر تیرا نام صبح و شام
کلیوں میں اہتمام تبسم کا تو کرے پھولوں میں خوشبوں کا کرے تو ہی انتظام
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تہذیب اور اقدار کو فروغ دینا صرف اردو والوں کا کام نہیں ہے بلکہ اسے دیگر زبانوں والے بھی آگے بڑھائیں انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں اقدار کو فروغ دیں۔
جناب طارق انصاری گوتمی ڈگری کالج نے اپنے خطاب میں نئی نسل کو اردو ذریعہ تعلیم سے آراستہ کرنے اور اردو کو فروغ دینے پر زور دیا۔ اور کہا کہ تلنگانہ میں اردو کو اس کے جائز مقام کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔جناب محمد نصیر الدین سابق صدر شعبہ تاریخ نے مرکزی موضوع پر اظہار خیال فرمایا۔تعلیم گاہ دراصل تربیت گاہ ہے لہذا تعلیم کے زریعے تہذیب اقدار طلباء وطالبات میں پیدا کئے جائیں۔جناب جمیل نظام آبادی مدیر گونج نے کہا کہ اردو ادب میں تمام مسائل کا حل موجود ہے ہر قسم کامواد اردو ادب میں دستیاب ہے ضرورت ہے اردو کو فروغ دیا جائے تاکہ تہذیب کا تحفظ ہو۔ڈاکٹر عسکر صفدری پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج آرمور نے سمینار کے مرکزی موضوع پر روشنی ڈالی کہا کہ ادب ہی سے انسان انسان ہے ۔ ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر اسلم فاروقی کو اخلاقی اقدار کا مجسمہ قراردیا اور جدید ٹکنالوجی کا بحر بیکراں اور متحرک شخصیت قراردیا۔ سمینار میں مہمان مقررین نے مقالہ نگاروں کے لئے تہذیب اور اقدار سے متعلق سوالات مقرر کئے تاکہ ان ہی خطوط پر سمینار آگے بڑھے اور کچھ نئے زاویے سامنے آئیں۔پہلے اجلاس کے اختتام سے قبل پرنسپل کالج پروفیسر ایس لمبا گوڑ اور کنوینر سمینار ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے ہاتھوں تمام مہمانوں کی شال پوشی کی گئی اور انہیں یادگاری مومنٹو پیش کئے گئےأ ضلع نظام آباد کے معززین کے طور پر جناب حلیم خان صاحب ڈپٹی کلکٹر موطف'جناب مجید صاحب نیشنل بک ڈپو' جناب ریاض تنہا صاحب صدر دائرہ ادب اسلامی اے پی'جناب مقیت فاروقی صاحب نامہ نگار اعتماد اور دیگر کو تہنیت پیش کی گئی۔ اس کے بعد ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔
طعام کے وقفہ کے بعد ٹکنیکل سیشن کا آغاز عبدالسلام قمر کی نظم سے عمل میں آیا۔پہلا مقالہ ڈاکٹر مسرور سلطانہ لیکچرارایس آر گورنمنٹ ڈگری کالج کریم نگر نے "اکبرؔ الہ آبادی کی شاعری میں تہذیبی عناصر" پیش کیا۔ ڈاکٹر گل رعنا اسسٹنٹ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی نے "مجتبی حسین کی تحریریں اور حیدرآبادی تہذیب" کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر عسکر صفدری پرنسپل آرموگورنمنٹ ڈ گری کالج آرمور نے "انیس کی شاعری اور اخلاقی قدریں" کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ دیگر مقالہ نگاروں میں، ڈاکٹر حمیرا تسنیم شاتا واہانہ یونیورسٹی کریم نگر۔ناہیدہ بیگم لیکچرار سنگاریڈی ،عارفہ شبنم ریسرچ اسکالرHcu،آمنہ آفرین ریسرچ اسکالرHcu ,ریئسہ بیگم ریسرچ اسکالرHcu،جے۔محمد شفیع ریسرچ اسکالرHcu،بلال محمدریسرچ اسکالرHcu،سراج احمد انصاریریسرچ اسکالرHcu،محمد ہلال ریسرچ اسکالرHcu،ابوبکر ابراہیم ریسرچ اسکالرManuu ،محمد عبدالقدوس ریسرچ اسکالرManuu ،محمد زبیر ریسرچ اسکالرManuu ،شمیم سلطانہ لیکچرار نظام آباد،تبسم سلطانہ لیکچرار،سید احتشام حسین ریسرچ اسکالرعثمانیہ،ڈاکٹر محمد عبدالقدیر عادل آباد ، کلیم محی الدین اردو لیکچرر عادل آباد'محمد فہیم اللہ ریسرچ اسکالرعثمانیہ ،ڈاکٹر سید حامدمہتاب،مریم فاطمہ ریسرچ اسکالر تلنگانہ یونیورسٹی ،ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر،ڈاکٹر محمد ناظم علی پرنسپل موڑتاڑ گورنمنٹ ڈگری کالج ،محمد عبدالرحمن داودی ریسرچ اسکالر تلنگانہ یونیورسٹی ،محمد عبدالبصیرریسرچ اسکالراورینٹل عثمانیہ ' اور دیگر نے سمینار کے ضمنی عنوانات پر مقالے پیش کئے۔ جملہ 35اسکالرس نے مقالے پیش کئے۔ بیرون ملک سے بھیجے گئے مقالوں میں ڈاکٹر عطا اللہ خان شکاگو کا مقالہ قلی قطب شاہ کی شاعری اور تہذیبی عناصر اور جناب مکرم نیاز صاحب سعودی عرب کا مقالہ آن لائن اردو صحافت بھی شامل سمینار رہا۔ اس اجلا س کی صدارت پروفیسر خالد سعید وڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے انجام دی۔ دونوں صدور نے مقالوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ پروفیسر خالد سعید نے سمینار کے کامیاب انعقاد پر کنوینر ڈاکٹر اسلم فاروقی اور دیگر منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اردو سمیناروں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے آن لائن لیکچر منعقد کرنے کے ضمن میں یہ سمینار یاد گار رہے گا۔ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے مقالہ نگاروں کو مشورہ دیا کہ وہ مقالے کی جست پیش کریں اور اپنے اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنا سیکھیں۔ آخر میں کنوینر سمینار ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے سمینار کے مہمانوں ڈاکٹر تقی عابدی' پروفیسر خالد سعید' ڈاکٹر فضل اللہ مکرم' ڈاکٹر معید جاوید' ڈاکٹر فاضل حسین پرویز مقامی مہمانوں ' منتظمین اور کالج کے پرنسپل اور قومی کونسل کا شکریہ ادا کیا اور اردوصحافت کا بھی خاص طور سے شکریہ ادیا کیا۔سمینار کی تشہیر اخبارات میں خبروں کی اشاعت اور یوٹیوب پر تمام تقاریر کی پیشکشی اور فیس بک پر خبروں اور تصاویر کی پیشکشی کے ذریعے کی گئی ۔ اس طرح ضلع نظام آباد سے اردو تہذیب اور اقدار کے موضوع پر سمینار سے اٹھنے والی آواز دنیا کے گوشے گوشے میں پہونچا دی گئی۔ جس سے امید ہے کہ فروغ اردو اور سماج میں بہتر قدروں کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

Seminar on urdu culture and values at GirRaj College Nizamabad. Reportaz: Dr. M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں