حیدرآباد سنگاپور کیوں نہیں ہو سکتا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-01

حیدرآباد سنگاپور کیوں نہیں ہو سکتا

hyderabad-singapore
حیدرآباد۔ سنگاپور ہوجائے گا۔ کریم نگر لندن، محبوب نگر عادل آباد ، میدک نلگنڈہ ورنگل ، کھمم و دیگر مقامات کی عالمی شبیہ کا انتظار ہے ۔ نو تشکیل شدہ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے پہلا بیرونی دورہ کیا۔ وہ سنگاپور گئے ۔ چیف منسٹر سنگاپور کی چکاچوند روشنیوں سے کافی متاثر ہوگئے ۔ حیدرآباد کو سنگاپور میں بدلنے کا وہ اعلان کرنے لگے۔ حیدرآباد دو سنگاپور میں کیا مماثلت ہے اور کیا تضاد یہ ایک دلچسپ پہلو ہے۔ سنگاپور ایک سٹی اسٹیٹ ہے ، جس نے ملائشیا جو مختلف ریاستوں کا وفاق ہے سے علیحدہ ہوکر ایک نئی شروعات کی ۔ سنگاپور50کے دہے سے قبل مچھیروں کی ایک کالونی تھا ، سنگاپور کی اس لئے مثال دی جاتی ہے کہ اس نے کم وقت میں اس قدر ترقی کی کہ گزشتہ دہے تک بھی وہ عالمی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا ، دوبئی کے ابھرنے سے قبل سنگاپور ایک اہم تجارتی مرکز مانا جاتا رہا۔ سارے سنگاپورکا رقبہ اور آبادی گریٹر حیدرآبار میونسپل کارپوریشن کی آبادی و رقبہ سے کم ہے ۔
سنگاپور کا رقبہ716مربع کلو میٹر ہے اور گریٹر حیدرآبادمیونسپل کارپوریشن کا رقبہ765مربع کلو میٹر ہے جہاں تک آبادی کا تعلق ہے سنگاپور کی آبادی59لاکھ ہے جب کہ گریٹر حیدرآباد کے احاطہ میں آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے ۔ حیدرآبا د ایک تاریخی و تجارتی تہذیبی پس منظر رکھتا ہے ۔ سنگاپور کی طرح چکا چوند روشنیاں نہیں ہیں لیکن حیدرآؓاد نے اپنے قیمتی اثاثوں ہیروے و جواہرات کے ذریعہ ساری دنیا کو روشن کر رکھا ہے ۔ سٹی اسٹیٹ کی حیثیت سے سنگا پور کو عالمی سطح پر کئی مراعات حاصل ہیں ۔ دنیا بھر کے تجارتی معاہدات یہاں انجام پاتے ہیں۔ برقی و پانی کی قلت نہیں ۔ ٹیکس کے نظام اتنا سادہ ہے کہ بیرونی سرمیایہ کار یہاں اپنا سرمایہ مشغول کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔حیدرآبادکو سنگاپور بنانے کا مقصد شاید چیف منسٹر کی نظر میں یہی ہوگا کہ وہ اس شہر فرخندہ بنیاد کو عالمی افق پر لاکھڑا کریں۔چیف منسٹر کا تعلق ضلع میدک کے علاقہ سدی پیٹ سے ہے اور وہ حیدرآباد یا حیدرآباددیت کے بارے میں ضرور معلومات رکھتے ہیں ۔ یوم آزادی کی سالگرہ کا جشن قلعہ گولکنڈہ میں مناتے ہوئے انہوں نے یہ پیام دینے کی کوشش کی کہ وہ حیدرآباد کا ایک حصہ ہیں ۔ حیدرآباد کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں جو کوئی اچھی نیت سے آتا ہے وہ اسی شہر کا ہوکر رہ جاتا ہے ۔ حیدرآباد میں آباد ہر دوسرے شہری کا تعلق حیدرآباد سے نہ ہونے کے باوجود حیدرآباد یت کا ایک جز بن جاتا ہے ۔1993میں ممبئی میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد جو سنگین فسادات رونما ہوئے اس کے سبب کئی خاندانوں نے حیدرآباد کا رخ کیا ۔2002ء میں گجرات کے فسادات کے بعد سینکڑوں گجراتی خاندانوں نے حیدرآباد کو اپنایا۔بہار، اتر پردیش ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، کئی ایسے علاقوں سے جہاں جان و مال کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے عوام نے ایک اچھے مستقبل کی آس میں حیدرآباد کو اپنی منزل بنایا لیکن حیدرآباد نے ان مقامات سے آئے ان لوگوں کو کبھی مایوس نہیں کیا ۔ ایک دہے قبل گجرات سے یہاں منتقل ہوئے ایک خاندان کے احوال جاننے کا موقع ملا۔ گجرات میں ان کے بڑے کاروبار تھے ۔ کافی نوکر چاکر کام کرتے تھے۔ فسادات میں ان کے اثاثے لوٹ لئے گئے جان بچا کر وہ یہاں پہنچے ۔ جب ان سے گفتگو کی گئی تب انہوں نے دو ٹوک انداز میں یہ واضح کیا کہ حیدرآباد حالانکہ ان کا آبائی مقام نہیں لیکن یہاں انہیں کسی خطرے کا اندیشہ تک نہیں ہوتا ۔ اس سرزمین میں اپنائیت انہوں نے محسوس کی ۔ گجرات می ہر تہوار کے موقع پر بھاری چندے دینا پڑتا تھا ، اس کے باوجود ایک انجان خوف طاری رہتا کہ کب کیا ہوگا لیکن حیدرآباد میں بے خوف وخطر ماحول نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کی ترغیب پر آئے کئی گجراتی خاندانوں کے لئے تسلی کا باعث ہے ۔
حیدرآباد کے اس ماحول کے لئے وہ حیدرآبادی قیادت کو اپنا خراج پیش کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کی قیادتیں قومی سطح پر ابھریں تو آج حیدرآباد کا ماحول سارے ملک میں ہوسکتا ہے ۔ حیدرآباد کا دراصل سنگاپور سے کوئی تقابل نہیں ۔ حیدرآباد کی چار سوسالہ عظیم تاریخ رہی ہے اور قطب شاہی میں ایرانی ، آرمینیائی تاجروں کا مرکز رہا ہے ۔ اس عظیم ورثے کے بارے میں دستاویزی ریکارڈ محکمہ اسنادات میں محفوظ ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ حیدرآباد کو حیدرآباد ہی رکھیں۔سنگاپور بنانے کے نام پر اس شہر فرخندہ بنیاد کی توہین نہ کریں۔ اس شہر کے لئے درکار دو اہم وسائل پانی و برقی کی سربراہی کو یقینی بناتے ہوئے وہ اسے سنگاپورسے بھی زیادہ پررونق بناسکتے ہیں ۔ پانی کی ضروریات کے لئے کرشنا( دریائے کرشنا) مرحلہ سوم کی تکمیل پر توجہ دیں۔ پرانیہتہ، چیوڑلہ آبپاشی پراجکٹ کے ذریعہ، دریائے گوداوری کا حیدرآباد کو پانی لانے کا معاملہ ہنوز غیر یقینی ہے ۔صنعت ، زراعت ،و تجارت اور معیشت کے لئے برقی و پانی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ حیدرآباد کی برقی ضروریات کے لئے حیدرآبادی قیادت نے شنکر پلی میں برقی پراجکٹ کی تجویز پیش کی اور پانی کی سربراہی کے لئے معرض التوا پراجکٹس کی تکمیل پر زور دیا ہے ۔ حیدرآباد سارے جنوب میں چینائی (مدراس) کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے جو سب سے زیادہ محاصل حکومتوں(مرکز و ریاست) کو فراہم کرتا ہے ۔ حکومت ہند نے گزشتہ جنوری میں ملک کے پہلے آئی ٹی آئی آر(انفارمیشن ٹکنالوجی انوسٹمنٹ ریجن) کے لئے حیدرآباد کو منتخب کیا ہے ۔ اس ریجن کو یقینی بنانے سے نہ صرف حیدرآباد کو چار چاند لگ جائیں گے بلکہ اس علاقہ کی معاشی قسمت ہی بدل جائے گی۔ اس ریجن کے ذریعہ50لاکھ افراد کو منصوبہ بندی کمیشن کے تخمینے کے مطابق روزگارحاصل ہوگا۔
ایسا ریجن ہندوستان میں ابھی تک قائم نہیں کیا گیا ۔ حیدرآباد سیاحتی اعتبار سے جنوب کا سب سے پسندیدہ مقام ہے ۔ گزشتہ ایک دہے سے چار مینار پیدل راہرو پروجیکٹ (پیڈ سزائزیشن) عدم تکمیل ہے ۔ حیدرآبادی قیادت کی توجہ دہانی کے سبب گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے تہذیبی ورثے کی حامل عمارتوں کے تحفظ کے لئے100کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔ حیدرآبادکو گندی بستیوں( سلم علاقوں) سے پاک کرنے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے۔ چیف منسٹر سنگاپور پر فریفتہ ہوگئے ، نئی کرسی کا جوش شاید اس کی وجہ ہو ، چیف منسٹر حیدرآباد کو ایسا بنائیں گے کہ سنگاپور کے وزیر اعظم اگر حیدرآبادآئیں تو وہ یہ کہیں کہ’’میں سنگاپور کوحیدرآباد بناؤں گا۔‘‘ 2جون سے اب تک90دن ہوچکے ہیں، ان90دنوں میں وعدے تو بہت کئے گئے اب عمل کی باری ہے ۔ عوام حکومت کے ساتھ غیر معمولی تعاون کررہے ہیں۔ موسی ندی کا پراجکٹ حکومت کی توجہ طلب کررہا ہے ۔ موسی ندی کو کوڑے دان بنادیا گیا ۔ یہ بات درست ہے کہ سارے کام بیک وقت ممکن نہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کہ عزم مصمم ہو تو پہاڑوں سے نہریں ابل پڑتی ہیں ۔ حیدرآباد کو کسی عالمی شناخت کی ضرورت نہیںِ یہ اس وقت سے عالمی منظر پر ہے جب کہ دوسرے معروف عالمی شہر اپنی آنکھیں کھول رہے تھے۔ جنوبی اشیاء میں زیر زمین برقی سربراہی زیر زمین برقی سربراہی زیر زمین ڈرینچ نٖظام کا سہراحیدرآباد کو جاتا ہے ۔ حیدرآباد کے معماروں میں حضرت میر مومن ؒ ، حضرت حسین شاہ وفیؒ اور بیسویں صدی میں نواب علی نواز جنگ کے کردار کو فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ حیدرآباد ہند یونین میں انضمان سے قبل(ستمبر1948ء) ہندوستان کی سب سے بڑی وسب و مالدار ریاست رہی ۔ یہ شہر آج بھی سونے کے انڈے دینے والی چڑیا ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش کے دارالحکومت کی حیثیت سے(یکم نومبر1956ء تا2جون2014) اس نے سیما آندھرا علاقے سے یہاں آئے کتنے افراد کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔حیدرآباد پر حق جتانے کے لئے ہر دور میں مختلف چہرے ابھرتے رہے ۔ چندرا بابو نائیڈو جواب آندھرا پردیش کے چیف منسٹر ہیں ، متحدہ ریاست میں اپنے9سالہ دور ہی کو وہ حیدرآباد کی ترقی کا نام دیتے ہیں ۔ لیکن جو حیدرآباد کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس وقت سارا ہندوستان پسماندگی کے اندھیرے میں تھا، حیدرآباد نے سب کو روشنی دکھائی ، حیدرآباد ملک کی پہلی ایسی ریاست تھی جہاں برقی کا پہلا پلانٹ قائم کیا گیا، ریلوے ہوائی خدمات ، ٹیلی فون کی خدمات ، گزشتہ ایک صدی سے زائد چلی آرہی ہیں ۔ طب و تعلیم میں حیدرآباد نے کئی اختراعی کارنامے انجام دئیے ۔ کوئلے سے ٹرکس چلانے کا تجربہ شاید کسی نے نہیں کیا، لیکن جب حکومت ہند نے معاشی تحدیدات عائد کردی تھیں(1948۔1974) ڈیزل و کیروسین کی قلت تھی تب حیدرآباد کے انجینئرس نے کوئلہ کی بھانپ پر ٹرانسپورٹ نظام کو کھڑا کردکھایا تھا ۔ اس شہر فرخندہ بنیاد میں صلاحیتوں اور وسائل کی کوئی کمی نہیں ۔ سوال بہتر انتظامیہ اور وعدوں پر عمل آوری کا ہے ۔ یہ کام چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کر دکھاتے ہیں تو پھر انہیں شاید پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ بہتر ہے کہ وہ حیدرآباد کو حیدرآباد ہی رکھیں۔ سنگاپور کے خواب کی یہاں تعبیر ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں۔

The probability of turning Hyderabad into Singapore. Article: M.A.Majid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں