مہاراشٹرا تعلیمی نصاب سے نفرت کے مواد کو حذف کیا جائے۔ گول میز کانگرنس کا انعقاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-18

مہاراشٹرا تعلیمی نصاب سے نفرت کے مواد کو حذف کیا جائے۔ گول میز کانگرنس کا انعقاد

حیدرآباد
اعتماد نیوز
سابقہ ریاست حیدرآباد کے مختلف علاقوں تلنگانہ، مراہٹواڑہ ، حیدرآباد اور کرناٹک سے تعلق رکھنے والے اہل علم و اہل دانش اور متفکر شہریوں کے ایک اجتماع نے تلنگانہ ڈیمو کریٹک اینڈ سیکولر الائنس کے بیانر تلے ایک راؤڈ ٹیبل کانفرنس منعقد کرتے ہوئے 17ستمبر کو حیدرآباد کے ہند۔ یونین میں انضمام کی تقاریب منائے جانے کی مخالفت کی ۔ صدر تعمیر ملت و اسسٹنٹ جنر سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جناب محمد عبدالرحیم قریشی ، کنوینر تلنگانہ ڈیموکریٹک اینڈ سیکولر الائنس ڈاکٹر کلوری چرنجیوی ، مسورخ کیپٹن(ڈاکٹر) ایل پانڈورنگا ریڈی ، جہد کار جناب ضیاء الدین نیر ، پی دیو یک ، رام راج ایڈوکیٹ ، ایم اے رشید انجیئنر، ٹھاکر ہردے ناتھ سنگھ ، نعیم اللہ شریف اور مختلف علاقوں سے آئے مندوبین نے مہاراشٹرا اور کرناٹک کی ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ریاستوں میں17ستمبر کو سرکاری طور پر منائے جانی والی تقاریب کو روک دیں ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا کے تعلیمی نصاب میں جھوٹ اور نفرت پر مبنی نصاب کو حذف کیا ۔ ریاست تلنگانہ کے علاوہ مہاراشٹرا کے علاقہ مراہٹواڑہ اور کرناٹک کے حیدرآباد کرناٹک علاقے میں نظام حیدرآباد کی یوم پیدائش تقاریب کو سرکاری طورپر منایاجائے ۔ اجلاس میں سقوط حیدرآباد کے بعد پیش آئے سنگین مظالم سے متعلق پنڈت سندر لال کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ۔
اجلاس کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر کلوری چرنجیوی نے کہا کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے کانگریس اور بی جے پی سقوط حیدرآباد کا استحصال کرتے آرہی ہے ۔ انہوں نے تلنگانہ مہاراشٹرا اور کرناٹک کی حکومتوں سے کہا کہ وہ سابق ریاست حیدرآباد کی صحیح تاریخ مدون کرے ۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ تلنگانہ کے آندھرا پردیش میں انضمام کے خلاف اگر کسی نے پہلا احتجاج کیا تو وہ نظام حیدرآباد ، نواب میر عثمان علی خان تھے ۔ انہوں نے حیدرآباد کے ریاست ہند یونین میں انضمام کے بعد نواب میر عثمان علی خان راج پر مکھ کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے لیکن جب اس ریاست کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا اور آندھرا پردیش ریاست میں تلنگانہ کو ضم کردیا گیا تب 31اکتوبر1956ء کو نظام حیدرآباد نے استعفیٰ دے دیا، حالانکہ وزیر اعظم ہند پنڈت نہرو نے نو تشکیل شدہ آندھرا پردیش کے گورنر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے کی ان سے خواہش کی تھی جنہیں حیدرآباد کے اس سابق والی ریاست نے قبول نہیں کیا ۔ جناب عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ سقوط حیدرآباد کے نام پر سماج کو بانٹنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے انضمام کے تقریب منانے سیاسی جماعتعوں کی مسابقت کو افسوسناک قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے واقعات سے بڑھ کر مستقبل کی فکر ضروری ہے اس لئے کہ ماضی کے واقعات کے نام پر نئی نسل کے ذہنوں کو خراب کیاجارہا ہے ۔ انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتوں کی قیں حقائق کو جانے بغیر محض سیاسی فائدے کے لئے اس موقع پر استحصال کررہی ہیں۔
انہوں نے انتبادہ دیا کہ اگر اس طرح کی روش جاری رہی تو اس سے ملک کی بہتر سالمیت کے لئے خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ کیپٹن(ڈاکٹر) ایل پانڈو رنگا ریڈی نے دستاویزات کے حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ17ستمبر کو حیدرآباد کا ہند۔ یونین کا انضمام ہوا ہی نہیں۔ انہوں نے حکومت ہند پر الزام لگایا کہ آزادی کے بعد حیدرآباد جیسی بڑی دیسی ریاست کو ضم کرنے دھوکہ، فریب سے کام لیا گیا ۔ ھکومت ہند نے نظام حکومت کے ساتھ جوں کا توں معاہدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کی اور اچانک فوج کشی کردی اور اسے پولیس ایکشن کا نام دیا گیا ۔ اس اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف عنوانات سے17ستمبر کو یوم نجات یوم آزادی یوم دغا بازی وغیرہ منائے جانے کی پرزور مذمت کی۔ فورم نے حیدرآبار اور حیدرآبادیت کے تحفظ کے لئے بڑے پیمانے پر عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ظاہر کی ۔ اجلاس میں سابقہ ریاست کے مختلف علاقوں کے عوام کے درمیان متواتر تال میل اور مشاورت کو جاری رکھنے ایک لائحہ عمل مرتب کیا ۔ اجلاس میں نواب میر عثمان علی خان کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور انہیں ہندوستان کے ان عظیم شخصیتوں میں شمار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کی خدمات بہترین حکمرانی کی ایک عظیم مثال ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں