خاصان مے خانہ - جگر مرادآبادی - 54 ویں برسی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-09

خاصان مے خانہ - جگر مرادآبادی - 54 ویں برسی

jigar-muradabadi
جگر مرادآبادی
پیدائش : 6/ اپریل 1890
وفات : 9/ ستمبر 1960
حضرت جگر مرادآبادی کی شاعری پر بر صغیر ہندو پاک میں اب تک بہت کچھ لکھاجاچکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔
جگر کا شمار ایسے خوش نصیب شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے ہمہ گیر نظریات اور دل آویز شخصیت کی بدولت اردو ادب میں وہ مقام حاصل کیا جہاں تک رسائی بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی ہے ۔ وہ غزل گو شاعر تھے خود انہیں بھی اس کا اعتراف تھا کہ وہ غزل ہی کے شاعر ہیں اس سلسلہ میں ان کے معاصرین کاخیال ہے کہ اس میں ان کے مزاج اور طبیعت کو دخل تھا جگر کے اسی مزاج کے بارے میں معروف ادیب ڈاکٹر ضیاء الدین انصاری نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے کہ’’جگر کا مزاج عاشقانہ تھا حسن و عشق ان کی دنیا تھی تمام عمر اسی کے نغمے گاتے رہے اس کے لئے غزل کی صنف ہی سب سے زیادہ موزوں ہوتی ہے اس لئے جگر نے غزل کو ہی اپنایا اور ہمیشہ اس میں ہی مشقِ سخن کرتے رہے ‘‘مالک رام نے بھی یہ ہی لکھا ہے کہ ’’اگر وہ کچھ اور کہتے تو اس حد تک کامیاب نہ ہوتے ۔‘‘ یہ ہی وجہ ہے کہ انہیں اردو ادب میں غزل کا شہنشاہ اور تاجدارِ سخن لکھا جاتا ہے جب تک وہ رہے غزل کی عظمت کو بلند و بالا رکھا اگر یہ کہاجائے کہ جگر صاحب غزل کی جان تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ اس دنیا سے چلے گئے تو غزل غزل نہ رہی۔ سحر مرادآبادی نے ان کے انتقال پر کہا تھا کہ۔
اب زمانے میں کہاں کوئی ترا نعم البدل
حافظ دوراں تھا تو اے خاتمِ دورِ غزل
جگر نے اپنی شاعری کے ذریعہ غزل کی پاکیزہ روایات کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ اسے اپنے منفرد انداز سے آنے والی نسلوں کے لئے پر اثر بنایا۔ ان کی شاعری میں، سچائی تھی، خلوص تھا ، درد تھا اور ایک تڑپ تھی، جو سننے والوں کو بیدار کرتی تھی ان کی شاعری میں ایسے فکر وخیالات تھے جو انقلاب برپا کرتے تھے چونکہ وہ انقلاب زمانہ سے ٹکرائے تھے اور اس کا مقابلہ کیا تھا اس لئے ان کی شاعری میں ان حالات کی گونج سنائی دیتی ہے یہ وہ دور تھا جب ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور ملک کے کونے کونے میں آزادی کے لئے تحریک چل رہی تھی جگر نے ان حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔ بقول رشید احمد صدیقی کہ’’ جگر کی شاعری میں وہ عناصر موجود ہیں جو اس دور کے آشوب و آزمائش میں غزل کو تب وتاب دیتے رہیں گے۔‘‘
جگر کے کلام میں بے حد سادگی اور سادگی ان کے کلام کی مقبولیت کا سبب بنی، جگر کو الفاظ اور محاوروں پر مکمل گرفت حاصل تھی وہ ان کو موقع و محل کے لحاظ سے کلام میں پیش کرنے کا فن جانتے تھے آسان اور سہل الفاظ کو اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتے گویا باتیں کررہے ہوں، جگر کا یہ ہی انداز بیاں ان کے کلام کی جان تھا اور لوگ اسی پر واہ واہ کرتے تھے جگر کے کلام میں ایسی غزلیں کم ہی ملیں گی جن میں مشکل الفاظ استعمال کئے گئے ہوں ۔ ڈاکٹر سعادت علی صدیقی مرحوم نے جگر کے کلام کی خوبیاں کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے
’’جگر کے کلام میں سادگی بھی ہے اثر پذیری بھی۔ حسن بھی ہے دل کشی بھی۔ سوز و گداز بھی ہے مستی و سرشاری بھی ، خلوص بھی ہے اور شیرینی بھی ، ترنم بھی ہے اور موسیقی بھی۔ روانی بھی ہے اور کیف بھی ۔ غم حیات بھی غم دوراں بھی ۔‘‘
یہ چند اشعار ان کے کلام کی ان ہی خوبیوں کا پتہ دیتے ہیں۔
یوں زندگی گزار رہا ہوں تیرے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جارہا ہوں میں
بے کیف دل ہے اور جئے جارہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پیئے جارہا ہوں میں
وہ دل کہاں ہے اب کہ جسے پیار کیجئے
مجبوریاں ہیں ساتھ دئیے جارہا ہوں
اردو شاعری میں حسن و عشق کا تذکرہ کوئی نیا نہیں ہے ابتداء سے لے کر آج تک حسن و عشق پر شاعری عام بات رہی ہے بلکہ ایک زمانے تک اردو ادب میں حسن و عشق کے بغیر شاعری کا تصور بھی نہیں تھا، ولیؔ ،سوداؔ ،اور آتش غالبؔ ، ذوق، مومنؔ وغیرہ کے کلام حسن و عشق کی داستاں سے بھرے ہوئے ہیں مگر جگر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کلام میں جس محبوب کا ذکر کرتے ہیں وہ کوئی خیالی ای فرضی کردار نیہں، بلکہ اس دنیاکا جیتا جاگتا انسان ہے وہ اپنے محبوب سے کسی طرح کا شکوہ نہیں کرتے بلکہ اپنی پرکشش شخصیت سے اسے اتنا متاثر کرتے ہیں کہ وہ ان کے عشق کا اسیر ہوجاتا ہے۔
عرض نیاز عشق کا چاہئے اور کیا صلہ
میں نے کہا بہ چشم ، اس نے سنا بہ چشم نم
محبت کے جلوے نہیں حسن سے کم
انہیں بھی مرے ساتھ حیرانیاں ہیں
جگر نے بہت کم عمر میں عشق کیا تھا زندگی بھر اسی میں ڈوبے رہے چونکہ وہ عشق میں محرومیوں اور ناکامیوں کا بھی شکار ہوئے تھے انہیں اس کا تجربہ تھا اس لئے انہوں نے کہا تھا کہ۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
اس کے علاوہ ذاتی غم اور ہجر میں تڑپنے کی وجہ سے انہوں نے ایسے شعر کہے:
وفا کا نام کوئی بھول کر نہیں لیتا
تیرے سلوک نے چونکا دیا زمانے کو
کتاب عشق کا شمل ترین باب ہوا
وہ ایک دردِ محبت جو صَرفِ خواب ہوا
حسن تو حسن عشق سے بیزار
دل کو کیا ہوگیا ہے ، کیا کہیئے
جگر صاحب کو اپ نے وطن سے بے حد محبت تھی وطن کی آزادی کے لئے انہوں نے کوئی عملی اقدام تو نہیں کیا ۔ البتہ ساق کے توسط سے اہل وطن کو پیغام دیتے ہیں ۔
یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاک وطن ساقی
خدا حافظ چلا میں باندھ کر دار و رسن ساقی
سلامت تو ، ترا میخانہ، تیری انجمن ساقی
مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دارورسن ساقی
جگر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے ۔ ان کی پوری زندگی میں ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو ان کے انسان دوست ہونے کا ثبوت ہیں غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے تھے ، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لیتے تھے ۔ بے حد خوددار تھے اپنی بڑی سے بڑی پریشانی کا کسی کو شک و شبہ بھی نہیں ہونے دیتے تھے ۔ بمبئی کے ایک مشاعرے میں وہ صرف اس لئے شریک نہیں ہوئے کہ اس پروگرام میں معروف فلم اداکار دلیپ کمار انہیں دس ہزار روپے بطور عطیہ دینے والے تھے کیونکہ ان کی خودداری نے یہ منظور نہ کیا حالانکہ یہ دور ان کی تنگ دستی کا تھا۔ جگر صاحب کا ایک شعر ہے کہ۔
جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
جگر صاحب واقعی خاصان میخانہ میں سے تھے ۔

jigar Moradabodi - 54th death anniversary

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں