اردو تہذیبی ورثے سے استفادہ اور اقدار کا فروغ - گری راج کالج نظام آباد اردو سمینار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-21

اردو تہذیبی ورثے سے استفادہ اور اقدار کا فروغ - گری راج کالج نظام آباد اردو سمینار

girraj-college-nizamabad-urdu-seminar
اردو کے تہذیبی ورثے سے استفادہ اور اقدار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت
گری راج کالج نظام آباد میں بین الاقوامی اردو سمینار سے ڈاکٹر تقی عابدی،پروفیسر خالد سعید اور دیگر کا خطاب

اردو زبان ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ اس زبان نے ہندوستان میں شاندار تہذیبی روایات قائم کی ہیں۔ جس سے ملک میں مذہبی رواداری ،آپسی بھائی چارہ،اتحاد،محبت،خلوص ،ہمدردی جیسے جذبات پروان چڑھے ہیں۔ اردو کی شعری و نثری اصناف میں امیر خسرو،قلی قطب شاہ، ولی ، میر و غالب، انیس،حالی ،جوش و فراق،امجد، اقبال، پریم چند وغیرہ نے جو شاندار تہذیبی روایات اور اقدار کا خزانہ چھوڑا ہے اس سے عصر حاضر کے اقدار سے عاری سماج اور تہذیبوں کے ٹکراؤ والے ماحول میں روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں بھی اپنی تہذیبی شناخت برقرار رکھنے اور اس سے دوسروں کو مستفید کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار محقق و نقاد ماہر اقبالیات و انیس ڈاکٹر تقی عابدی نے گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور شعبہ اردو کے زیر اہمتام منعقدہ ایک روزہ قومی و بین الاقوامی اردو سمینار سے بذریعے ویڈیو کانفرنس براہ راست کناڈا سے اپنے خطاب میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج سماج میں عورتوں پر جو مظالم ہوہے ہیں اور انسانی زندگی سے جس طرح اقدار نکل رہے ہیں اس کے تدارک کے لئے اردو کے شاندار تہذیبی ورثے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اردو کے فروغ کے لئے مادری زبان میں بچوں کی تعلیم اور اردو کو روزگار سے جوڑنے کی ضرور ت ہے۔

اس ایک روزہ سمینار کا موضوع اردو ادب تہذیبی قدریں ماضی حال اور مستقبل تھا۔ اس سمینار میں پروفیسر خالد سعیدانچارج ڈائرکٹر مرکز برائے اردو زبان تہذیب و ثقافت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے بہ طور مہمان خصوصی شرکت کی اور کلیدی خطبہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ تہدیبوں کے بننے میں جغرافیائی حالات،زبان ،لباس اور رہن سہن اہم رول ادا کرتے ہیں ۔اردو زبان و ادب میں اخلاق اور اقدار پر مبنی باتیں ہیں جن سے موجودہ حالات میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے سمینار کے کنوینر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ شاندار اردو سمینار کے انعقاد پر مبارک باد دی اور کہا کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے سے دانشوروں کے لیکچر منعقد کرنے کا تجربہ دوسروں کو بھی سیکھنا چاہئے۔ اردو والوں کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ عصری ٹیکنالوجی کے ذریعے لیکچر منعقد کیا گیا۔
سمینار کی نظامت کے فرائض محمد عابد علی لیکچرر کامرس و اکیڈیمک کوآرڈینیٹر نے انجام دی۔ سمینار کا آغاز محمد عبدالسلام قمر کی دعائیہ نظم سے ہوا۔ پروجیکٹر پر اقبال کی نظم بچے کی دعا پیش کی گئی۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے سمینار میں شرکت کے لئے آئے مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے سمینار کا خطبہ استقبالیہ دیا جس میں انہوں نے سمینار کی منظوری کے لئے قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اس کے ڈائرکٹر خواجہ اکرام سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ کالج کے پرنسپل پروفیسر ایس لمبا گوڑ فروغ اردو کے پروگراموں کی منظوری دیتے ہوئے اپنے محب اردو کا ثبوت دئے ہیں۔ نظام آباد کی اردو صحافت نے کالج کے پروگراموں کی خبروں کی اشاعت کے ذریعے اردو کے فروغ کی اجتماعی کوششوں میں تعاون کیا ہے۔ انہوں نے تمام ریسرچ اسکالرس اور اساتذہ اور محبان اردو سے کہا کہ وہ فروغ اردو کے لئے متحد ہوکر کرکام کریں۔

ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ والدین اور اساتذہ مل کر بچوں کی اخلاقی تربیت کریں۔ انگریزی تہذیب نے جو اثرات ہندوستان والوں پر ڈالے تھے ان سے آج بھی ہندوستانی قوم آزاد نہیں ہوسکی۔ جب کہ اردو زبان نے تہذیب و ثقافت کی اعلی قدریں ہمارے لئے چھوڑی ہیں۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے کہا کہ تہذیبیں بنتی بگڑتی ہیں۔ تہذیب کی تعمیر میں زبان کا اہم رول ہوتاہے اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں اردو زبان نے اتحاد و بھائی چارے کے فروغ کا رول ادا کیا ہے۔ بچے کے لئے پہلی داستاں گو اس کی اپنی ماں ہے تہذیب کی امانتیں ماں سے ہی بچے میں منتقل ہوتی ہے۔جدید ٹکنالوجی سے رشتہ ضرورجوڑ نا چاہئے انسان بلندیوں پر اڑے لیکن ہمارے پاوں زمین پر ہی رہنے چاہئے۔ٹکنالوجی کو تہذیب کے فروغ کیلئے استعمال کریں۔
ڈاکٹر فاضل حسین پرویز مدیر گواہ حیدرآباد نے اپنے خطاب میں موجودہ دور میں صحافتی اقدار کی پامالی پر اظہار افسوس کیا اور نوجوان نسل کو پیشہ صحافت اختیار کرنے اور صحافتی اقدار کے تحفظ پر زور دیا۔
پروفیسر ایس لمبا گوڑ نے کامیاب سمینار کے انعقاد پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اور ان کے رفقاء کو مبارک باد پیش کی اور دیگر لیکچررس کو بھی اس طرح کی کوشش کرنے پرزور دیا انہوں نے کہا کہ اردو ادب نے سماج میں خوشگوار تبدیلی لائی ہے اس طرح کے سمینار کے انعقاد سے ملک میں تہذیبی اقدار کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔
سید مجیب علی ڈائرکٹر کریسنٹ گروپ آف اسکولس نظام آباد نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقبال کی شاعری تہذیبی قدروں کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔انہوں نے بچوں کے لئے کہی گئی اقبال کی نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بچے قوم کا مسقتبل ہوتے ہیں ان کے اخلاق کی تعمیر کے لئے ہم اقبال اور اردو کے اقداری ادب سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔
جناب محمد عبدالعزیز صاحب ماہر تعلیم و این آر آئی نے کہا ملک میں آئے دن ہونے والے شرمسار واقعات اور صنف نازک پر ہونے والے حملے ہماری اقدار کی گراوٹ کا نتیجہ ہیں۔ ملک میں لاکھوں تعلیمی ادارے ہیں لیکن انسانی کردار سازی نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان کو ماضی کی قدروں کو حال میں برتتے ہوئے مستقبل کی جانب بڑھنا چاہئے۔
جناب طارق انصاری ڈائرکٹر گوتمی کالج نظام آباد نے کہا کہ اردو کے فروغ کے لئے موجودہ حکومت سنجیدہ ہے اور تلنگانہ میں اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لئے وہ حکومت سے نمائیندگی کریں گے۔ انہوں نے نظام آباد میں بین الاقوامی اردوسمینار کے انعقاد کے لئے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی و دیگر کو مبارک باد پیش کی۔
جناب محمد نصیر الدین سابق صدر شعبہ تاریخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کلچر شائستگی اور نفاست سے پیدا ہوتا ہے یہ معاشرے سے تعلق رکھتا ہے کلچر داخلی پہلو ہے اور تہذیب خارجی پہلو سے تعلق رکھتی ہے۔تعلیم گاہ دراصل تربیت گاہ ہے لہذا تعلیم کے زریعے تہذیب اقدار طلباء وطالبات میں پیدا کئے جائیں۔
جناب جمیل نظام آبادی، ڈاکٹر صفدر عسکری پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج آرمو ر نے بھی سمینار سے خطاب کیا۔ سمینار میں پیش کردہ مقالوں پر مبنی سوونیر اور ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی تیسری تصنیف سائینس نامہ کی رسم اجراء پرنسپل کالج اور مہمانوں کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ پرنسپل کالج اور سمینار کے منتظمین کی جانب سے تمام مہمانوں اور ریاض تنہا، جمیل نظام آبادی، مجید صاحب نیشنل بک ڈپو کو تہنیت پیش کی گئی۔
ظہرانے کے بعد ملک بھرکی مختلف جامعات سے آئے ریسرچ اسکالرس اور اساتدہ نے مقالے پیش کئے۔ اہم مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر محمد عزیز سہیل،سراج انصاری، جے محمد شفیع، محمد احتشام الحسن ، محمد عبدالقدوس ،شیخ فہیم اللہ، گل رعنا، ڈاکٹر مسرور سلطانہ، ڈاکٹر حمیرہ ، ناہیدہ بیگم آمنہ آفرین وغیرہ شامل تھے۔ پڑھے گئے مقالوں پر اجلاس کے صدور پروفیسر خالد سعید اور ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے تبصرہ کیا۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کنوینر سمینار نے تمام مہمانوں اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ سمینار کے انتظامات میں محمد عابد علی،سید حسیب الرحمن،محمد مبین الدین، محمد عبدالبصیر،ڈاکٹر محمد عبدالرفیق، شیخ اکبر باشاہ،غلام مصطفی اور دیگر نے تعاون کیا۔

Seminar on urdu culture and values at GirRaj College Nizamabad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں