کتاب عرض ہے - تحسین منور کی صحرا میں شجر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-21

کتاب عرض ہے - تحسین منور کی صحرا میں شجر

sehra-men-shajar-Tehseen-Munawer
کتاب : صحرا میں شجر
مصنف : تحسین منور
مبصر : تحسین منور

دنیا میں سب سے آسان اور مشکل دونوں ہی کام اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ہم نے آج یہی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کام کو مشکل مان کر کریں گے ۔دراصل جب گزشتہ کتاب عرض ہے میں ہم نے دیوانِ چرکین کا تذکرہ کیا تھا تب سے ہی ہمارے پیٹ میں اپنے شعری مجموعہ کو عرض کرنے کا بھوت سوار ہوگیا تھا۔ گزشتہ اتوار کو یہ بھوت کئی خانوں میں تقسیم ہوگیا۔کبھی اس کتاب کی سمت بھاگتا تھا تو کبھی دوسری کتاب کو گلے سے لگاتا تھا۔اس لئے گزشتہ ہفتہ ناغہ ہوگیا۔مگر دل میں یہی تمنا تھی کہ میاں اب تو مٹھو بنواپنے منہ سے اور صحرا میں شجر عرض کردو۔لیکن بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ اپنی کتاب کو عرض کریں ۔مگر دادا گری تو اسی کو کہتے ہیں۔یہی تو ہو رہا ہے ہمارے آس پاس ۔کسی کے پاس قوت آئی نہیں کہ بس اپنے کو آگے بڑھانے میں لگ گیا۔ لیکن جب ہم دوسری کتاب عرض کر سکتے ہیں تو اپنی کیوں نہیں۔اس لئے میاں۔۔! کہ آپ کے اپنے اندر ہی کہیں نہ کہیں یہ جنگ مچی ہوئی ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ کو ئی اوراس سے بہتر کتاب عرض کی جائے مگر ایک لالچ یہ بھی ہے کہ اپنی کتاب کو بھی لوگوں سے متعرف کرانا ہے۔ پھر خوامخواہ کا اتنا طول باندھنے کی کیا ضرورت ہے۔شروع کیجئے۔
تحسین منورؔ کا تعلق علم کے دھنی اس ستونِ صحافت جناب پروانہؔ رُدولوی سے ہے کہ جن سے ایک نسل نے قلم کی پرورش کا ہنر سیکھا ہے۔ جناب انجینئرنگ کرنے کے باوجود اردو کی محبت میں اس سے جُڑے ہیں۔ اردو میں ادیبِ کامل اور ایم اے بھی کیا ہے ۔صرف شاعر ہی نہیں ہے ۔منفرد افسانہ نگار ہیں۔فلم اور ٹی وی کے لئے بھی لکھ رہے ہیں ۔اداکاری بھی کرتے ہیں۔کالم بھی لکھتے ہیں۔ صحافی ہیں ۔صحافت سے وابستہ ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں جاتے رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہوگیا ؟ اس سے اردو ادب کا کیا فائدہ ہوا۔آپ جو ہیں وہ ہیں۔ پروانہؔ رُدولوی کے چھوٹے صاحب زادے ہیں تو ہیں۔اور بھی ان کے صاحبزادے ہیں ۔اس سے کیا ہوگیا۔ پدرم سلطان بود کہنے سے کیاہوتا ہے۔ صحرا میں شجر میں ایسا کیاہے کہ جس کے بارے میں کچھ کہا جائے۔
ہے نا ۔شعری مجموعہ ہے۔ اچھا تب تو آپ مجمع لگانے کے فن سے بھی واقف ہوں گے۔سیدھے سیدھے بتاؤ کہ یار ہم اپنا دوسرا شعری مجموعہ لے کر آئے ہیں ۔اس سے پہلے جو دھوپ چاندنی تھا اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی۔ بہت سستے میں چھپا تھا۔ اس کی بائنڈنگ تو اتنی گھٹیا درجے کی تھی کہ دو چار صفحات پڑ ھتے ہی کتاب کا ایک ایک صفحہ اپنی آزادی کا اعلان کرتا ہوا محسوس ہوتا تھا ۔بالکل اسی طرح جس طرح اسکاٹ لینڈ میں ووٹنگ ہوئی اور ۵۵ فیصد لوگوں نے انکار کردیا اور پینتالیس فیصد لوگ ہاں کے ساتھ تھے ۔اسی طرز پر اس مجموعہ کے صفحات بھی برطانیہ نما دھوپ چاندنی کے ساتھ منسلک رہ جاتے تھے ۔اس لحاظ سے اگر مشاہدہ کیا جائے تو صحرا میں شجر کی جلد سازی میں امریکہ کی طرح کا معاملہ ہے کہ جہاں سب ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑی رہتی ہیں۔ بالکل اسی انداز سے اس دوسرے شعری مجموعہ کے صفحات بھی ایک دوسرے سے مضبوط جوڑ بنائے ہوئے ہیں۔سرورق کی ڈرائنگ بھی کمال کی ہے اور اس میں جس طرح کے جاگتے ہوئے رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے وہ یہ احساس کراتے ہیں کہ جیسے رات میں بھی دن نکلا ہوا ہو۔ یہ جو ڈرائنگ ہے وہ تحسین منورؔ صاحب کی آدھی دنیا ڈاکٹر سیّد مبین زہرا نے کمپیوٹر پر بنائی ہے۔ اندر کے صفحات پر کافی تلاش کے بعد ایک سیاہ و سفید ڈرائنگ کا ہونا بھی محسوس ہوتا ہے۔ یہ ان کے بڑے بیٹے سیّد عزیز تحسین کا کمال ہے ۔خود نمائی کو اپنی خاطر میں رکھتے ہوئے پشت پر اپنی وزارتِ ریلوے کے دوران کی ایک تصویر شائع کی ہوئی ہے ۔یہ حرکت موصوف نے پہلے مجموعہ کلام میں بھی کی تھی۔ مگر یہاں ایک اضافہ یہ ہوا ہے کہ ایک ہی شعر اردو ہندی اور رومن میں رقم کردیا گیا ہے۔
لوگ جس در پہ شکاری کی طرح بیٹھے ہیں
میں اسی در پہ بھکاری کی طرح بیٹھا ہوں
لیکن کہیں سے بھی ان کے ہاؤ بھاؤ میں بھکاری جیسی بات نظر نہیں آرہی ہے۔ تصویر دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس ملک میں بھکاری اس قدر صحت مند ہیں تو پھر اس ملک پر عالمی بینک والوں کو نظرِ ثانی کرنی چاہئے۔ یہ تصویر بھی ادھار کی ہے کہ کبھی مرحوم اصغر انصاری صاحب نے ان کی محبت میں اسے کھینچا تھا۔لیکن کل ملا کر سرورق ایک اچھا تاثر دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ارے ہاں اردو شاعری کی اس کتاب میں اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی غرض سے فلیپ پر اپنے دوست اور بھارتی فلموں اور ٹی وی سیریلوں کے ایک بڑے نام پریکشت ساہنی کے اپنی شاعری کے بارے میں تاثرات انگریزی میں رقم کر دیے گئے ہیں ۔یہ اتنی سخت جان انگریزی ہے کہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ تحسین منورؔ تک اس کا ترجمہ نہیں کرپائے ہوں گے اس لئے اس کو انگریزی میں ہی یہاں ڈال دیا گیاہے۔ دوسری جانب کے فلیپ پر منور رانا صاحب کے مضمون سے اپنے بارے میں ایک طویل جملہ لکھ دیا گیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں اعلان ہے کہ یہ کتاب کسی اکیڈمی یا میموریل کمیٹی کے مالی تعاون سے شائع نہیں ہوئی ہے۔ سعدیہ پبلی کیشنز اس کے ناشر ہیں اور گرافک میں این آر گرافکس کا نام ہے۔ یہی وہ شخص ہیں جو گزشتہ دو تین برس سے اس کتاب کو کسی طرح چھاپ لینے کی تگ و دو میں لگے رہے مگر تاج محل بنانے کی ضد میں تحسین منورؔ دو بار ان صاحب کے گھر بریانی بھی کھا آئے مگر کتاب نہ آئی ۔کئی بار تو کمپیوٹر نے بھی سازش کر کے اِدھر کا مال اُدھر کردیا مگر گزشتہ مجموعہ کے بعد کسی قسم کا بھی مسئلہ نہیں پیدا کرنے کے چکر میں یہ کتاب بس چلتی رہی۔ حالت تو یہاں تک آگئی تھی کہ تیسرے مجموعہ نے جھانک کر کہا کہ بھائی تمہاری شادی ہو جائے تو ہمیں بھی موقع ملے اب بس کرو تب کہیں جاکر بات آگے بڑھی۔ انتساب اپنے اجداد کی سرزمین رُدولی کے نام کیا ہے۔اور وہیں ایک شعر درج ہے۔ جو یقیناً برسات کے موسم میں لکھا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
مجھے بتاؤ تو موسم مری رُدولی کا
یہاں تو دہلی میں برسات ہوئی ہے شب بھر
مجموعہ میں ابا اماں کی تصویر بھی ہے ۔پروانہ ؔ رُدولوی صاحب کی شاندار تصویر کے ساتھ ان کا ایک شعر درج ہے۔
کوہ و دریا ،دشت و صحرا ،بحر وبر سب تھے مگر
اس بھری محفل میں جب میں ہی نہ تھا کچھ بھی نہ تھا
کتاب میں ملک کی مایہ ناز ادیب محترمہ مہاشویتا دیوی کی جانب سے تحسین منورؔ کے بارے میں تاثرات کا بنگالی سے اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک صفحہ پر اچانک ایک نظم پیار کے نام لکھی مل جاتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک صفحہ کسی طور سے بھرنا عزیز رہا ہوگا کہ خالی جنہ چلا جائے ۔تحسین منورؔ نے صحرا کا سایہ کے عنوان سے صحرا میں شجر کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے قسم سے پڑھنے لائق ہے۔ تحسین منورؔ کے چچا کے بیٹے نافع کمیل جو تحسین منورؔ سے خوامخواہ میں متاثر سے محسوس ہوتے ہیں ان کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک طرح سے ان کا بایو ڈاٹا سا پیش کر دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ای ٹی وی اردو سے وابستہ اور اپنے وقت کی شاعری میں ایک الگ انداز رکھنے والے نوجوان شاعر طارق قمر بھی تحسین منورؔ کی شاعری پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ لگتا ہے روشنی تھوڑی کم پڑ رہی تھی اس لئے تحسین منوؔ ر نے ایوانِ غزل ڈاٹ کام کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر فریاد آزر ؔ کے مضمون سے بھی چراغ کا کام لینے کی کوشش کی ہے۔ فلمی دنیا کے ایک اور ستارے اور شاعری سے محبت کرنے والے اداکار سچن جنھیں لوگ ندیا کے پار کے حوالے سے بھی جانتے ہیں اس مجموعہ میں چار سطروں اور اپنی دلکش تصویر کے ساتھ موجود ہیں۔وہ بھی انگریزی میں۔
جہاں تک شاعری کی بات ہے تحسین منور ؔ کے ساتھ بیٹھ کر ان کی بُرائی کرنے کی میں تو ہمت نہیں کر سکتا مگر وہ کہیں نہ کہیں اس الجھن کا شکار نظر آتے ہیں کہ اپنی شاعری کو کس سمت لے کر چلیں۔ اس لئے اس مجموعہ میں جہاں ایک طرف کچھ مذہبی نوعیت کا کلام بھی ہے وہیں صوفیانہ طرز فکر کی شاعری بھی جابجا دکھائی دے جاتی ہے۔وہیں کئی اشعار میں وہ قوم کے قافلہ سالاروں تک پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔حسن و عشق کی وارداتِ قلبی بھی کہیں کہیں جھانک پڑتی ہے۔وہیں اکثر مقامات پرانھیں سیاست کی بازی گری سے الجھتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
سُن لے او سرکار بہت ضروری ہے
تیرا میرا پیار بہت ضروری ہے
چاہے بچھا کر چٹنی روٹی کھا لینا
اردو کا اخبار بہت ضروری ہے
یا یہ دیکھئے ۔
میری اللہ سے پہچان نہ ہونے دیں گے
اتنا پُختہ میرا ایمان نہ ہونے دیں گے
جو میرے قافلہ سالار بنے پھرتے ہیں
وہ کبھی مجھ کو مسلمان نہ ہونے دیں گے
اس پر بھی غور کیجئے۔
اجالے جی حضوری کر رہے ہیں
اندھیروں کی سیاست چل رہی ہے
میں اتنا علم لے کر کیا کروں گا
زمانے میں جہالت چل رہی ہے
در اصل تحسین منورؔ کی شاعری ایک منفرد لہجے اور انداز کی طرف گامزن ہے مگر رہ رہ کر وہ قدیم روایات کی طرف بھی پلٹ کر آنا چاہتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے حالات کو دیکھ کر بھی پریشان ہیں مگر اس کی وجوہات جانتے ہوئے بھی بے بس ہیں کہ ان کی زندگی میں بدلاؤ لانے کی حالت میں نہیں ہیں اور نہ ہی قوم ایسا کرنا چاہتی ہے۔
میں نے جب روشنی کو مارا تھا
اس اندھیرے میں کوئی چارا تھا؟
چاندنی رات کا پیچھا کرکے
کیا ملا آپ کو ایسا کرکے
رہنما قوم کو ملے ایسے
راہ دکھلا تے ہیں اندھا کرکے
زہر رگ رگ میں اتارا جائے
اس طرح درد کو مارا جائے
ہم سے مت پوچھئے خدا کے لئے
کس طرح انقلاب آتا ہے
تو یقیناًکسی شیطاں کا پجاری ہوگا
تجھ کو شہروں کو جلانے میں مزہ آتا ہے
اس کو دولت نے کیا ہے اندھا
اب اسے کچھ نہ دکھائی دے گا
صحرا میں شجر میں احساسِ حسن و عشق بھی جا بجا موجودہے۔
وہ جو قصّہ ہے لیلیٰ مجنوں کا
آج پھر ابتدا سے کہتے ہیں
تم نہیں جانتے کلیوں کا چٹخنا کیا ہے
تم کو بس پھول کھلانے میں مزہ آتا ہے
یہ کہا چوم کے ہونٹوں کو لبِ دریا نے
آپ کی پیاس بجھانے میں مزہ آتا ہے
صرف اتنی سی تمنا ہے کوئی
زندگی دشوار کرکے چھوڑ دے
تیرا یار کہہ رہا ہے سرِ دار کہہ رہا ہے
یہ جہاں ہے چاہتوں کا یہاں عام ہو محبت
صحرا میں شجر سے اردو ادب میں کوئی گراں قدر اضافہ ہو یا نہ ہو مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس سے تحسین منورؔ کو اپنی شاعری کو الگ پہچان دلوانے کا موقع ضرور مل جائے گا۔ اس مجموعہ میں بہت سے اشعار ایسے ہیں کہ جو آپ کو چونکانے کا کام کریں گے ۔آپ سمجھ نہیں پائیں گے کہ آخر یہ شاعر کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ آپ کی بات کر رہا ہے یا کسی اور کی ۔اسے سمجھنے کے لئے تو آپ کو تحسین منورؔ کو سمجھنا ہوگا ۔جہاں تک تحسین منورؔ کا معاملہ ہے یہ کم بخت خود تحسین منور کی سمجھ میں ہی نہیں آپایا ہے تو پھر آپ کی کیا سمجھ آئے گا۔
مسلمانوں سا ہے یہ رنگ و روغن
میرا لہجہ مگر کفّار سا ہے

***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book 'sehra mein shajar' by Tehseen Munawer. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں