اس گھر کو آگ لگی ہے گھر کے چراغ سے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-11

اس گھر کو آگ لگی ہے گھر کے چراغ سے

urdu language
اردو ایک نہایت ہی شیریں ، میٹھی اور خوش کن ، خوش سماعت ، رس بھری اور مسحور کن زبان ہے ، اس کی مٹھاس اور شیریں اور دلکشی نے نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنا گرویدہ اور اس کی زلفوں کا اسیر بنا دیا ہے ، اس کی سحر انگیز ی اور ہمہ گیری اور وسیع المشربی نے نہ جانے کتنے لوگوں کی اس زبان کو سیکھنے پر آمادہ کیا ہواہے ، یہ غیر منقسمہ ہندوستان کے بیشتر علاقہ کی زبان رہی ہے ، کل اس خبر نے چونکا دیا کہ چیف منسٹر بہار نے ایک بیان کے دوران اردو زبان کی تعریف وتوصیف کی اور خصوصا بہار میں اس کو ہندی کے بعد بڑے وسیع پیمانے پر بولے جانے والی زبان قرار دیا اور مزید یہ بھی کہا کہ :
"اردو سے میری عدم واقفیت نے مجھے ملول اور کبیدہ خاطر کردیا "
اور اردو سیکھنے کی کوشش کے ساتھ اس کے لئے مستقل ایک استاذ کے رکھنے کی بات کہی، اور اس زبان کو بڑی خوبصورت اور شریں زبان قرار دیا۔
یہ ایک صاحب نہیں ہیں ، جنہوں نے اردو زبان کو سراہا اور اس کی مٹھاس اور شیرینی کا تذکرہ کیااور اس کے سیکھنے پر آمادگی کا اظہار کیا، اس سے قبل بھی ہمارے تلنگانہ کے چیف منسٹر نے تلنگانہ کے لوگو میں اردو زبان کی شمولیت کے ذریعہ اس زبان کی وسیع الجہتی اور وسیع المشربی اور اس کی تہذیبی وثقافتی اور فنی حیثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور ریاست میں اردو کے تئیں اپنی ہمدردی اور سرپرستی کی بات کی، اس کے علاوہ اسمبلی کی کاروائی کو اردو میں شائع کرکے اپنی وسعتِ ذہنی اور سماجی وثقافتی ہم آہنگی کا ثبوت دیا، مزید اردو کا جائز حق اور مقام دلانے کے لئے کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہے ، آزاد ہند کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی اردو کی شیرینی ، مٹھاس اور اس کی وسیع الجہتی اور اس کے مختلف المشربی ہونے کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا:
" اردو، ہندوستان کی یک جہتی کا ایک نمونہ ہے اور یہ نمونہ محض زبان ہی کا نہیں ؛ بلکہ طرز فکرکا، ادب کا اور تہذیب کا بھی ہے ، اردو خالص ہندوستانی زبان ہے "

آج یہ ہندوستانی زبان جو وسیع المشربی اور فکری وثقافتی وفنی وادبی سرمایہ سے مالا مال تھی اس کو نہ صرف سیاسی سطح پر پسِ پشت ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ، بلکہ ہند کے مسلمانوں نے بھی جن کا مذہبی سرمایہ اسی زبان میں موجود ہے ، آج اس زبان کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔
مشہور بنگالی شاعر وڈرامہ نگار رابندر ناتھ ٹیگور نوبل انعام یافتہ بانی "شانتی نیکیتن" جن کی بنگالی شاعری کے عناصر اور اس کے مشتملات اور ان کی شاعری کی حسن وخوبی نے عربوں کو تک متاثر کیا تھا اور ان کی شاعری کو عربی پیکر دینے کی کوشش کی تھی ، انہوں نے ایک دفعہ بہادر یار جنگ کی تقریر سن کر کہا تھا:"آج مجھے اردو نہ سیکھنے کا افسوس ہو ا"

غور کرنے کا مقام ہے کہ ویسے تو شاعر کو ہر زبان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ؛ لیکن ان کے اردو کے نہ سیکھنے پر اپنی درمندی اور فکری مندی کا اظہار ہم مسلمانوں کے بڑا تازیانہ ہے ، ویسے تو اردو زبان ہماری ملکی اور تہذیبی زبان ہے ، اور زبان کی وسعت اور آفاقیوں اور اس کے اندر سمونے والے سرمایہ کو کسی ایک جہت کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا ، تاریخ ،ثقافت ، تہذیب وتمدن ادب وفن سارے جہات کو اپنے اندر شامل کرتی ہے ؛لیکن اس اردو زبان کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کا تعلق ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ ہے ، ان کا اسلامی اور دینی سرمایہ بھی اس زبان کی زینت بنا ہوا ہے، ویسے ہر ملک کے باسی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ملکی زبان کو سیکھے اور اس کی شیرینی اور مٹھاس کو محسوس کرے ، اس کی یگانکت اور یکجہتی سے مستفید ہو ؛ لیکن مسلمانوں کا زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ زبان کو سیکھنے کی کوشش کریں ، اگرچہ یہ زبان معاشی استحکام اور وسعت کا اتنا بڑا پہلو اپنے اندر نہیں رکھتی ، ویسے ہندوستان کی ہر یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ الگ ہیں ، وہاں سے ڈگریاں حاصل ہوتی ہیں، جو حکومت ہند کے یہاں ایک مقام رکھتی ہیں ؛ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس شیرینی اور میٹھی زبان کو تمام ہی لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہے ، اس کو سیکھنے اور اس کو مٹھاس اور اس کی وسعت وہمہ گیری کو محسوس کرنے ہم نے بے کار سمجھ لیا ہے ، لیکن ہندوستانی مسلمانوں کا تو اس اردو کے خصوصی تعلق زیادہ معنی رکھتا ہے ، ایک ملکی اور کثیر الجہات اور کثیر المشرب زبان ہونے کے ناطے اور دوسری اس لئے کہ ان کا دینی سرمایہ بھی اسی زبان میں عموما محفو ظ ہے ، بڑا افسوس ہو تا ہے کہ جب یہ سننے کو ملتا ہے کہ ایک مسلمان بڑا تعلیم یافتہ ہے ، انگریزی اور دیگر زبانوں پر ان کو خوب عبور حاصل ہے ، لیکن وہ اس زبان سے واقف نہیں ہے جس زبان کو وہ بولتا ہے ، جو زبان اس کے روز مرہ کی ضروریات اور اس کی ساری زندگی کی ساتھی ہے ، وہ اپنے اہل وعیال سے لے کر وہ اپنے دوستانے اور بلکہ اکثر وبیشتر اپنے کاروباری اور معاشی زندگی میں بھی اس زبان کو استعمال کرتا ہے ، لیکن جب اس زبان سے واقفیت کی بات آتی ہے تو وہ عدمِ واقفیت کا اظہار کرتے ہیں ، ہمارے بہت سارے دوست یہ کہتے ہیں کہ بھائی اردو زبان میں کسی بھی دینی یا اسلامی پیغام یا کسی بھی موضوع پر تحریر کو اردو میں لکھنے سے کیا فائدہ ، اس کا دائرہ تو بالکل تنگ ہور ہا ہے ، نسلِ نو کو تو اردو سے اس قدر دور کیا جارہا ہے کہ یہی صورتحال رہتی ہے تو پھر اردو ہماری زبان ہمارے لئے اجنبی بن جائے گی، انگریزی زبان یہ انٹر نیشنل زبان ضرور ہے ، معاش اور عالمی رابطہ کی زبان ضرور ہے ، لیکن اس زبان پر اس قدر توجہ اور اس قدر دھیان کہ اردو کو سرے سے نظر انداز ہی کردیاجائے ، یا اردو کو حقیر اور نیچ زبان تصور کیا جائے ، یا اردو سے واقفیت اور اس کی تعلیم کو معمولی چیز گردانی جائے یہ چیز تو ایک ہندوستانی اور خصوصا ایک مسلمان کے لئے بالکل زیب نہیں دیتی، آج ہم ہندوستانی مسلمانوں کی بے توجہی اور عدم التفات ہے کہ ہمارے یہ زبان ہمارے ملک میں وہ مقام حاصل کر نہیں پاتی جو اس کا مستحقہ مقام ہے ، دوسری زبانی ہندوستانی کی علاقائی زبانیں ہونے کی وجہ سے خوب پنپتی ہیں اور خوب پھولتی پھلتی ہیں، لیکن خود مسلمان جو اس ملک میں اس اردو زبان کی محافظ اور نگراں ہیں انہوں اس کو نظر انداز کیا ہوا ہے ، ہندوستان کے ایک وسیع علاقہ کی زبا ن ہونے کے باوجود اس کی بقاء اورتحفظ کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے ، ہماری بے توجہی سے س زبان پر زوال وانحطاط کے بادل کیوں نہ منڈلائیں گے اور یہ تہذیبی وثقافتی ، ادبی وفنی اوردینی زبان اپنی موت آپ کیوں نہ مرجائے گی؟ اس لئے خصوصا مسلمانوں کو تعلیم خواہ کسی زبان میں دلوائیں ، انگریزی ، ہندی، تلگو، کنڑی، مراٹھی ، بنگالی دیگر علاقائی زبانیں ضرور سیکھیں، بلکہ غیر ملکی زبانیں سیکھنا بھی کچھ معیوب نہیں ؛ لیکن اپنی زبان کی تئیں عدم دلچسپی کا اظہار یا عدم التفات یہ نہایت مایوس کن اور افسوناک اقدام ہے ، اس کے لئے لازمی طور پر تعلیمی نصاب میں اردو کتابوں کی شمولیت کے ذریعہ یا علاحدہ کسی استاذ کے ذریعے اردو کو ضرور سیکھ لیں؛ لیکن اس میٹھی اور شیریں زبان کی ضیاع کے ذمہ دار ہر گز ہم نہ بنیں خصوصا ایک مسلمان بچہ اور وہ اردو زبان سے واقف نہ ہو ، یہ ایک چلو میں پانی لے کر ڈوب مرنے کی بات ہے۔

یہاں ایک اور شاعر کا واقعہ نقل کرتا چلوں :
گلشن نندہ یہ ناول نگار ہیں۔ ان سے کسی نے پوچھاکہ آپ کون سی زبان میں لکھتے ہیں ؟
نندہ نے جواب دیا: میں پنجابی سوچتا ہوں ، اردو میں لکھتا ہوں اور ہندی میں چھاپتا ہو (کیوں کہ اردو والے کتابیں نہیں خریدتے نا )
(سب کے لئے : 88، ابن غوری صاحب)

بڑے افسوس کا مقام ہے کہ بہارکا ایک چیف منسٹر، آزادی ہند کا پہلا وزیر اعظم ، بنگالی زبان کا بڑا نامور شاعر رابن ناتھ ٹیگور نوبل انعام یافتہ، یا گلشن نندہ جیسے ہندوستانی برادران وطن تو اردو کو سیکھنے کی خواہش کریں ، اردو کی شیرینی اورمٹھاس کا اعتراف کریں،اور اس وقت بھی ہندوستان میں ہمارے برادران وطن میں اردو کے اچھے اور نامور قلم کار موجود ہیں ، جنہوں نے اردولکھنے پڑھنے کو اپنا مشغلہ بنایا ہواہے ، جو اردو کی خدمت میں ہمہ تن لگے ہوئے ہیں ، ہمارے بردرانِ وطن تواس ملکی زبان کے تعلق سے فکر مند ہوں اور ہم مسلمان جن کا لگاؤ اردو کے تئیں ان سے کہیں زیادہ ہے ہم اس سے پہلو تہی کریں ، اعراض کریں ، نہ یہ ہماری تاریخ وتہذیب کے لئے اچھاہے ، نہ ہمارے اچھے مستقل کی نشاندہی کرتا ہے ، نہ ہی ہماری دوراندیشی اور عاقبت بینی سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی ہماری آخرت کے حوالہ سے ہمارا یہ رویہ درست ہے ۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس زبان کی تئیں مسلمان اپنی پزمردگی اور اضمحلال اور غفلت کو توڑیں اور اس زبان کو ملکی زبان ہونے کی حیثیت سے اس کا مقام دلانے کے لئے جدوجہد کریں ، بڑے پیمانہ پر اس کو وسعت دینے کے لئے فکرکریں ، اس کے لئے خصوصا اپنی اولادکو اردو سے واقف کروائیں، رضاکارانہ طور پر اس کی تعلیم کا نظم کریں ، ہمارے اندر اردو کے تعلق سے شعور بیدار ہوگا،ہم اس کی قدر کو پہچانیں گے تو پھر اس کے پھولنے پھلنے کے وسیع امکانات حاصل ہوں گے ، ہمارے غفلت اور سرد مہری اور اس زبان کے تعلق سے ہمارے عدم اعتنائی یہ ہماری تاریخی اور دینی بھول ہوگی ، جس کی سزا نہ صرف ہم اس دنیا میں بھگتیں گے ؛ بلکہ ہماری آخرت اور عاقبت کی خرابی کی بھی یہ علامت ہوگی ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

The dilemma of Urdu language. Article: Rafi Haneef

1 تبصرہ: