روزنامہ قاصد کا ساتواں سال - نئے حوصلے سے پیش قدمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-13

روزنامہ قاصد کا ساتواں سال - نئے حوصلے سے پیش قدمی

daily qasid-delhi
قاصد 2008 میں آج کے ہی دن (13/ستمبر) شروع کیا گیا تھا۔
اس وقت جس ضرورت نے اس اخبار کی تحریک دی تھی وہ آج پہلے سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ اردو کے قاری کو گمراہ کرنے اور صحیح سے راستے بھٹکانے کے کام میں اردو صحافت یہ جانے بغیر لگی ہوئی ہے کہ وہ اپنے قارئین کی صحیح خدمت نہیں کرپارہی ہے۔
ضرورت صرف اخبار نہیں۔ بلکہ عالمی سطح پر ایک ایسی خبر رساں ایجنسی بھی ہے جو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کو یہودی یا عیسائی نقطہ نگاہ سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے دیکھے۔ پورا عالمی میڈیا اس وقت عالم اسلام کی جو تصویر پیش کررہا ہے وہ اصل سے بعید، پیچیدہ اور گمراہ کن ہے۔ ہم بڑے شوق سے یہ تمام خبریں چھاپتے ہیں یہ جانے بغیر کہ اصل واقعہ کیا ہے مثالیں بھری پڑی ہیں۔ لیکن صرف ایک مثال سامنے رکھیں۔
غزہ میں حماس کے خلاف جس وقت اسرائیلی وحشت اور درندگی کا بازار گرم تھا اسی وقت عراق اور شام میں داعش بھی شریک کلمہ مسلمانوں پر ویسی ہی بربریت کا مظاہرہ کررہی تھی جیسی بربریت کا مظاہرہ غزہ میں تھا۔ لیکن عالمی پریس غزہ کو اچھال رہا تھا ۔عراق کی صورتحال کی پردہ پوشی کررہا تھا۔ ریکارڈ ہمارے سامنے ہے کوئی بھی اردو اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔ غزہ کی خبریں ان کے احتجاج، رد عمل، بیان بازی سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ 25 سال جنگ سے تباہ حال عراق میں بچی کھچی امید پر بھی پانی پھیرنے والی ایک زیادہ سفاک اور تباہی خیز مہلک طاقت داعش کے خلاف نہ کسی رنج کا اظہار ہوا نہ احتجاج کا۔

یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خبروں کے انتخاب اور ترسیل اور اشاعت میں توازن لانے کی کوشش کے ساتھ اس کا لحاظ رکھا جائے کہ اردو پریس مغرب کے پروپیگنڈہ میں شریک نہ ہو۔ قاصد اس کوشش میں ابھی تک ناکام ہے۔ کیونکہ اس کے پاس اس کی سمجھ تو ہے کہ کیا اور کیسے کیاجائے لیکن وہ وسائل نہیں جن سے اس مقصد کی تکمیل ممکن ہو سکے۔ قاصد کے سامنے بگڑتی ہوئی صحافتی زبان اور گرتا ہوا صحافتی رویہ بھی تھا۔ اردو کی جو ایجنسیاں اس وقت اخبارات کا پیٹ بھر رہی ہیں وہ سب کی سب قابل احترام ہیں اور ان سب کو سہارا دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے مقابلے کی دوڑ میں آگے رہنے کےلئے گوگل ٹرانسلیٹ کا سہارا اردو زبان کی قبر کھود رہا ہے۔ کلپنا دیوی کا تصور دیوی ترجمہ ہونا یا وکاس سنگھ کا ترقی سنگھ بن جانا انسانی کارنامہ نہیں ۔ انسانی غفلت سے نمودار ہونے والا مشینی تجربہ ہے۔ سہل پسندی اس مرحلے میں پہنچ جائے کہ پورا ہندی متن گوگل ٹرانسلیٹ میں ڈال کر ماؤس کی ایک کلک سے اس کا اردو روپ تیار کیا جائے اور اس پر محنت کئے بغیر ان پیج میں کنورٹ کرکے خریدار تک پہنچا دیا جائے تو شاید دو پیسے آجائیں گے لیکن نہ قاری کی تسلی ہو گی نہ خبر کے ساتھ انصاف ہو گا۔ اور نہ ہی وہ مقصد پورا ہو گا جس مقصد کے تحت اخبارات کی اشاعت ہوتی ہے۔

زبان میں گراوٹ اس حد تک آئی ہے کہ اردو کی سلاست اور روانی، اس کی شگفتگی اور خوش گفتاری اس سے رخصت ہوچکی ہے۔ اس کی جگہ ایک ایسی مصنوعی زبان اخبار کا حصہ بن کر پڑھنے والوں کی بول چال کی زبان پر اثر انداز ہورہی ہے۔ جو زبان کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں۔ سرخیاں ہندی کے انداز میں، خبر کا آغاز اصول کے برخلاف اور خبر کی ترتیب اطلاع کی ترسیل کی بجائے الجھاوا پیدا کرنے والی۔
اور یہ سب اس حد تک قابل قبول ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اخبارات کے ملازمین ایک درست تحریر کو یہ کہ کر مسترد کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ معیاری زبان نہیں ہے۔ گویا جہل علم پر حکمرانی کرنے آئے گا۔ اور حکمرانی کرے گا۔ یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔
اس میں زبان اور ادب کے خدمت گزار مایوسی سے دو چار ہورہے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے عزم کے ساتھ پیش قدمی کی جائے اور اس بگاڑ یا گراوٹ کوروکنے کےلئے تربیت اور وسائل دونوں کا اہتمام کیا جائے۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اردو کے فروغ پرجو کئی سو کروڑ روپئے خرچ کرتی ہیں انہیں دوست نوازی اور اقرباءپروری کی تسکین کےلئے پانی میں پھینکنے کی بجائے اگر معیاری زبان برقرار رکھنے کےلئے خرچ کرنے کی طرف دھیان دیاجائے تو یہ صورتحال بہت کم وقت میں سدھر سکتی ہے۔
ایجنسیوں کے آجانے سے اخبارات کے مالکان خبر نگاروں، مترجموں اور اخبار کے دیگر شعبوں میں کام کرنے کے لائق قلم کاروں کی ضرورت کی طرف سے غافل ہو گئے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اخبارات کا ایک طبقہ اس طرف بھی دھیان دے کہ کسی نہ کسی طرح سے اخبار کا پیج بھرنے کی بجائے زبان کی صحت پر پوری توجہ مرکوز کی جائے اور وہ معیاری زبان اخبار کا حصہ بنے۔ جو 1991سے پہلے تھی۔

بےشک یو این آئی نے اس ضرورت کو بہت حد تک پورا کیا ہے۔ لیکن اس ایجنسی کی حالت بھی دوسروں سے بہتر نہیں کیونکہ ترسیل کی جانے والی خبروں کو ایڈیٹنگ کے مراحل سے گزرنے کا موقع وہاں بھی نہیں ملتا اور ایک مصنوعی کام چلاؤ زبان خبروں کا جز بن کر پورے ملک کے قارئین تک پہنچ رہی ہے۔ قاصد ان تمام تشویشناک اور پیچیدہ حالات میں رہ کر بھی کچھ بہتری لانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ قاصد کا یہ عزم اپنی جگہ مستحکم ہے۔ اس سیلاب میں بہنے سے گریز کیا جائے۔ نہ صحافتی معاملات میں کوئی سمجھوتہ کیا جائے نہ زبان اور نہ صحافت کی اخلاقیات پر۔
"قاصد" اپنے بل پر زندہ رہنے کی کوشش کررہا ہے آئندہ بھی کرے گآ۔ کامیابی ناکامی کے خوف سے بے نیاز ہو کر۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
isnafonline[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The 7th year of "Qasid" daily, Delhi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں