سماج میں عورتوں کے سلگتے ہوئے مسائل - سیاسی قائدین کی توجہ قابل ستائش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-13

سماج میں عورتوں کے سلگتے ہوئے مسائل - سیاسی قائدین کی توجہ قابل ستائش

Burning-issues-of-women-in-society
یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران خواتین پر بڑھتے ہوئے جنسی حملوں کو قابل تشویش قرار دیا تو 15اگسٹ کے دن جشن آزادی کے موقع پر لال قلع کی فصیل سے ملک کے وزیراعظم نریندرمودی نے خواتین و لڑکیوں کو درپیش کئی مسائل کا ذکرکیا ہے مودی نے کہا’’ جب ہم خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات سنتے ہیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے ‘۔مزید انھوں نے کہا کہ والدین صرف لڑکیوں کے آنے جانے پر پابندی لگاتے ہیں اور لڑکوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہیں‘‘ مودی پوچھتے ہیں ’’کیاکسی نے اپنے لڑکوں سے بھی پوچھا ہیکہ وہ کہاں جارہے ہیں؟ اور کیوں جارہے ہیں؟۔ ماں باپ ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان پر بھی بندھنیں ڈالیں‘‘ ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ملک میں عصمت ریزی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ جو ہر ذی شعور اور تہذیب واقدار کا پاس رکھنے والے شخص کے لئے فکر مندی کا باعث ہے۔ وزیر اعظم کا خطبہ ہمیں سماج کی وہ تصویر دکھاتا ہے جہاں سماجی اصول و ضوابطے لڑکا اور لڑکی کیلئے علحدہ علحدہ ہیں۔ جبکہ جتنا لڑکی کے اخلاق و کردارکی اہمیت ہے اتنی ہی اہمیت لڑکے کے کردار کی بھی ہے ۔ اگر صرف ایک طبقہ کو تہذیب وروایات کے بندھنوں میں باندھ کر رکھا جائے اور دوسرا کھلے عام چھوڑ دیا جائے تو اس طرح کے واقعات رونما ہونا فطری امر ہے۔ چونکہ دونوں کا کبھی نہ کبھی آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے ایسے میں دونوں کی اخلاقی تربیت کافی معنیٰ رکھتی ہے۔
ہمارے سماج کا یہ المیہ ہے کہ اگر عورت اپنی مرضی سے نیم برہنہ لباس پہنے وہ اس کی ترقی کی علامت سمجھا جاتاہے اور اگر کوئی ذی حس شخص یہ کہے کہ خواتین باہر یا بازاروں میں جاتے وقت مہذب لباس زیب تن کرے تو اس پر واویلا مچ جاتا ہے۔ تگو دیشم کے رکن پارلیمنٹ مرلی موہن نے خواتین کو شائستہ لباس پہننے کا مشورہ دیا تو خواتین کی تنظیمیں اور کانگریسی ارکان ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں انھیں بیان واپس لینے کے لئے کہا جاتا ہے۔ بیشک عصمت ریزی کے واقعات کے بڑھنے کے لئے صرف لباس ہی ذمہ دار نہیں ہے لیکن یہ ایک وجہ ضرور ہے۔ لہذا تلگو دیشم کے رکن پارلیمنٹ کا بیان قابل قبول ہونا چاہئے۔ تاکہ ایسے واقعات کے اعادہ کا ہر دروازہ بند ہوجائے۔ بین الاقوامی برادری ہمارے ملک میں خواتین کی حیثیت اور انکے حقوق کی پامالی کے تعلق سے کیا کہتے ہیں اس پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اپنی رپورٹ میں کہتا ہے کہ ’’ہندوستان میں عورتوں پر جنسی تشدد اورانکا قتل وحشتناک ہے‘‘اترپردیش کے بدایوں ضلع کی دو نوجوان لڑکیوں کی عصمت ریزی اور انکے قتل سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ دہلی ریپ کیس کے واقعہ سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہمیںیہ نہیں بھولنا چاہئے 6ڈسمبر 2012 دہلی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات کے خلا ف ناقابل بیان احتجاج دیکھنے میں آیا ہے جب کہ پڑوسی ریاست ہریانہ میں دلت خواتین پر جنسی حملوں کے کئی واقعات ہوئے۔ کشمیر میں 1991میں ہوئے کنان اور پشپرا گاؤں کے واقعات میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل نہ کر سکے۔ان کیسس میں پولیس اور عدلیہ کا رول متعصبانہ رہا۔ جس کی وجہ سے قصور وار بناء کسی سزا کے رہا ہوگئے۔
ڈسمبر 2012میں دہلی کی ایک پیرا میڈیکل کی طالبہ کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی جو دو ہفتہ بعد فوت ہوگئی۔ سرکار نے اسے ’نر بھئے‘ کا خطاب دیا ہے یعنیٰ ہمت والی لڑکی ۔۔۔جس نے اپنی عفت کی حفاظت کرتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا۔ اس کی قربانی کو خراج پیش کرتے ہوئے اس طالبہ کے نام سے ایک ایکٹ پاس کیا گیاجسے ’ نربھئے ایکٹ ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایکٹ عصمت دری کے لئے موجودہ قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے بنایا گیا۔ لیکن غور طلب اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ایکٹ کے بنانے کے بعد بھی خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات میں کمی نہیں ہوئی۔ ایسے واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ حتیٰ کہ کم عمر لڑکیوں کے ساتھ بد سلوکی اور جنسی ہراسانی کے واقعات قوم کو اپنا سر نیچا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ملک عزیز میں نہ کم عمر لڑکیوں کی عصمت و عفت محفوظ ہے اور نہ نوجوان لڑکیاں کی ۔۔حتیٰ کہ کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں 50سال سے زائد عمر کی خواتین کو بھی ہوس کا نشانہ بنایا گیا ۔کچھ عرصہ سے میڈیا میںیہ باتیں ہورہی ہیں کہ عصمت ریزی کے زیادہ تر کیسس جھوٹے ہوتے ہیں لوگ پرانی مخاصمت نکالنے کیلئے عصمت ریزی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ لیکن ان الزامات میں مجھے سچائی نظر نہیں آتی کیونکہ ہمارا ملک قدیم روایات کا پاسدار ہے جہاں عورت کی شرم و حیاء کو اسکا زیور سمجھا جاتا ہے ۔تو ایسے میں عام عورت ‘ خود ہی اپنے آپ پر یہ کبھی نہ مٹنے والا داغ کیوں لگائے گی؟ دراصل پولیس اکثر ایسے کیسس درج کرنے سے انکارکرتی ہے کیونکہ اکثر پولیس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہیکہ یہ فعل صرف دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوا ہوگا۔ پولیس اسٹیشن تک جانے والی متاثرہ خاتون سے ایسے ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ عورت اُن کے جوابات دینے سے بہتر تو خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ الغرض یہ موجودہ دور کا المیہ ہے کہ ہم اس مسئلہ کے خلاف ایک واضح حکمت عملی اختیار نہیں کر پائے ۔ قوانین میں ترمیم اور تبدیلی لانے سے لوگوں کی طرز فکر میں تبدیلی آنا ضروری نہیں۔لہذامتعصبانہ رویوں کی روک تھام کے لئے ایک مناسب حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ میری مراد کچھ ایسے ادارے قائم کئے جائیں۔ اسکولوں کے نصاب میں خواتین کی عظمت و وقار کو فوقیت دینے والے مضامین شامل کئے جائیں ۔ کالج کی سطح پر اعلٰی تعلیم میں ’ مطالعہ نسواں ‘ کا ایک مضمون لازمی قرار دیا جائے ۔ متاثرین کو قانونی مددگاروں کی سہولت مہیا ہو۔پبلک پاسیکیوٹر کو جنسی تشدد اور صنفی مساوات کے نظریہ کی تربیت فراہم کی جائے۔ ججس کو اورینٹیشن پروگرامس کے زریعہ صنفی عدم مساوات پر مبنی سماج اور اس کا جنسی تشدد سے رشتہ کو سمجھایا جائے۔ جنسی تشدد کے متاثرین کو ہرجانہ ادا کیا جائے اور انکی باز آباد کاری کے لئے کوششیں کرنی چاہئیے۔ کیونکہ جدید دور میں ہندوستانی عورت ہر شعبہ حیات میں پیش پیش ہے ۔خواہ تعلیمی میدان ہو یا سائینس و ٹکنالوجی کا دائرہ کار ہر مقام پر خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ دیگر الفاظ میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اب دنیا صرف مردوں کی نہیں رہی۔ ۔۔۔ہندوستان کے وزیر اعظم اور دیگر قائدین کا اس مسئلہ پر توجہ مرکوز کرنے سے امید ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے مثبت امکانات روشن ہو سکتے ہیں ۔

***
Mumtaz Fatima. Hyderabad.
mumtazfatima14[@]gmail.com
mumtaz_krmr[@]yahoo.co.in

Burning issues of women in the society and politician's concern. Article: Mumtaz Fatima

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں